لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگوکرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ میڈیا ”ہائیپ کری ایٹ“ کرتا ہے اور کسی بھی واقعہ کو اچھالتا ہے۔ لیکن میں اس نظریے سے متفق نہیں ہوں۔ کوئی خبر ہوتی ہے تو میڈیا اسے نشر کرتا ہے۔ سانحہ قصور کی جانب لوگ زیاہ متوجہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میڈیا نے اس کی کوریج کی۔ جس کی وجہ سے حکمرانوں سمیت سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی۔ میں نے خود قصور تین مرتبہ وزٹ اسی سلسلے میں کی۔ وہاں 300 بچوں کا سکینڈل پہلے ہی سامنے آ چکا تھا۔ عجیب بات ہے اس کا ملزم ایک بھی گرفتار نہ ہو سکا اور نہ ہی پتا چلا کہ اسے کیا سزا ملی۔ پھر بچیوں کے واقعات شروع ہو گئے پولیس افسران کا کہنا یہ ہے کہ ایسے واقعات ماضی میں بھی ہوا کرتے تھے لیکن اب میڈیا انہیں شہرت دیتا ہے اس لئے اسے زیادہ اچھالا جاتا ہے۔ اس بہانے حکومت متاثرین کی امداد بھی کر دیتی ہے۔ پہلے لوگ چھپاتے تھے۔ لیکن اب لوگوں کو بتا دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے دن بہ دن ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ تقریبا روزانہ کی بنیاد پر دو واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ابھی یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں 25 سے 30 فیصد لوگ اسے رپورٹ ہی نہیں کرتےے دیہات میں ہونے والے اکثر واقعات کے متاثرین، انصاف نہ ملنے کے خوف سے چُپ ہو کر بیٹھ جتے ہیں۔ ایک پولیس والے نے مجھے کہا کہ رپورٹ ہونے والے واقعات کو 131 سے ضرب دے لیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ہم نے ایک سٹوری بریک کی تھی۔ جس میں انڈین ایجنسی ”را“ فحاشہ عورتوں کے ذریعے ہمارے دور دراز علاقوں، بلوچستان، کے پی کے اور سندھ کے دیہی علاقوں کو ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح وہ نوجوان رکوں کو پھانسنے کی کوشش کر رہے ہیں فیس بک کھول لیں۔ ایک لمبی لائن نظر آتتی ہے ایسی عورتیں کہتتی ہیں مجھ سے دوستی کرو گے میرے فرینڈ بنو گے وغیرہ۔ میری وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ سے گزارش ہے کہ وہ اس کا فوری طور پر نوٹس لیں، یہ ایک فیڈرل مسئلہ ہے۔ ”پورنو گرافی“ کو روکنے کے لئے وفاقی سطح پر اہم کارروائی کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے آئی ٹی کنٹرول کرتا ہے جو کہ ایک وفاقی ادارہ ہے۔ کوئی صوبائی حکومت اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ انوشہ رحمان، جو آئی ٹی کی وزیر ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ اگر آپ فوجیوں کے خلاف ہونے والی شر انگیز تقاریر کو رکوا سکتی ہیں اور بیرون ملک بیٹھے باغیوں کی تتقاریر کو روکا جا سکتا ہے تو ایسی چیزوں کو کیوں کنٹرول نہیں کر سکتی۔ ایم کیو ایم کی ویب سائیڈ ابی بھی یہاں چل رہی ہے۔ پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار این جی او بنانا ہے۔ جو کوئی کام نہیں کرتےے کچھ فلمی ںبناتے ہیں اور باہر بھیج دیتے ہیں اس میں 50 فیصد تک منافع طے بھی کر لیتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی بھیک ہے۔ ہم نے بھی این جی او بنائی ہے لیکن کبھی کسی سے گرانٹ نہیں لی۔ ختم نبوت والے معاملے کے پیچھے بھی 3 این جی اوز ہیں۔ انہوں نے یہ معاملہ یورپ سے اٹھایا۔ انہوں نے یہ کہا کہ قادیانیوں کے حقوق سلب ہوو رہے ہیں۔ میں نے بہت ماہرین سے رائے لی ہے پہلی رائے تویہ ہے ”جنسی فریسٹریشن“ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شادی یعنی نکاح کو مشکل بنا دیا ہے۔ جبکہ حرام کاری اور بدکاری کو آسان بنا دیا ہے۔ ایک بچی کی شادی کے لئے 10 لاکھ درکار ہوتے ہیں۔ رسومات کے اخراجات پھر کھانے والے کے اخراجات۔ اس کے مقابلے میں بدکاری کیلئے دو چار ہزار ہی کافی ہوتے ہیں۔ جس سوسائٹی میں نکاح کو مشکل بنا دیں گے وہاں ایسا ہی ہو گا۔ نکاح ایک ڈکلیریشن ہے یہ ایک اعلان ہے کہ ان دو افراد کا تعلق جوڑ دیا گیا ہے اب پیدا ہونے والا بچہ فلاں بنتت فلاں ہو گا۔ اس وقت اوسطاً 30 سے 35 سال کی عمر میں لڑکے کی شادی ہوتتی ہے۔ جبکہ لڑکی کی 18 سے 35 سال کے دوران ہوتی ہے۔ اس ماحول میں جہاں جنسی دوائی، فلمیں، ڈرامے، معلومات موبائل فون پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ ماضی میں ایک مشکل پروسس ہوتا تھا۔ ماضی میں ہمارے معاشرے میں بننے والے ڈرامے اور فلمیں سبق آموز ہوا کرتی تھے اس میں رشتہ کی اہمیت اور تقدس دکھائی جاتی تھی۔ لیکن آج کے ڈرامے ان چیزوں سے عاری ہو چکے ہیں۔ خصوصاً کراچی اسٹیشن کے بننے والے ڈرامے جس میں شوہر اور ہے جبکہ عشق کسی اور سے لڑایا جا رہا ہے۔ ہر چیز ککا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ تقریباً سولہ سال کی عمر می ںلڑکا بالغ ہو جاتا ہے۔ بچے اور بچیاں 16 سال کی عمر میں بالغ ہونے کے بعد 30 سال کی عمر تک یعنی 14 سالوں تک وہ کسی قسم کا جسمانی تعلق قائم کئے بغیر رہ سکتے ہیں۔ پریس کلب لاہور کے سامنے ایک شخص جس کی 6 بیٹیاں ہیں جن میں سے 3 کے ساتھ زیادتی ہوئی اور ملزمان سیالکوٹ میں موجود ہیں لیکن اس غریب کی فریاد رسانی کرنے والا کوئی نہیں خدا را صحافی برادری اس کی مدد کرے اور اسے انصاف دلائے۔ تجزیہ کار، سعدیہ درانی نے کہا ہے کہ سانحہ قصور جیسے واقعات ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے۔ جوں جوں آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔ واقعات زیادہ سے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میڈیا اوپن ہے۔ ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لئے بھی اسے استعمال کرتے ہیں متاثرین کو کبھی کچھ نہیں ملا۔ ہمارے ہاں اس کے لئے قوانین ہی موجود نہیں ہیں۔ حکومت ایک پاور ول ادارہ ہے۔ وہ جو چاہے کروا لیتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو ایسے واقعات کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کرائم کنٹرول کے اداروں کو چھوٹ دی ہوئی ہے۔ میڈیا متاثرین کی تصویر چلاتا ہے۔ لیکن کسی کریمینل کی تصویر نہیں چلاتا۔ جب ملزمان پکڑے بھی جاتے ہیں تو انہیں برقع پہنا کر دکھاتا۔ انہیں کیوں نہیں سامنے لایا جاتا۔ اقبال ملک نے کہا ہے کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ جو لوگ اسے رپورٹ نہیں کرتے انہیں ضرور رپورٹ کرنا چاہئے۔ جو اشخاص گھروں میں قرآن پاک پڑھانے آتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح جانچ کر رکھیں۔ گھر کے دیگر ملازمین ڈرائیور، خانسامہ وغیرہ پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ جنرل صیا کے دور میں ایک پپو کیس ہوا تھا۔ اس کے مجرم کو سرعام پھانسی دی گئی اس طرح موجودہ سانحاتت کے مجرمان کو پکڑ کر سرعام لٹکا دینا چاہئے۔ اس سے کافی فرق پڑے گا۔ تجزیہ کار بشریٰ اعجاز نے کہا ہے کہ زینب کے واقعات کے بعد اب واقعات رپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل اکثر لوگ اسے رپورٹ ہی نہیں کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں والدین کو چاہئے کہ اپنے اپنے گھروں میں بچوں کی خصوصی نگرانی کریں۔ ہمارے ہاں 75 فیصد والدین کمانے کے لئے باہر نکلتے ہیں۔ پیچھے بچے گلیوں محلووں میں ان درندوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہمیں سزاﺅں کا عمل سخت بنانا ہو گا تا کہ مجرمان ایسا گھناﺅنا جرم کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے۔ اس کے علاوہ بچوں کو سکول لانے لے جانے والے ڈرائیوروں پر خصوصی نظر رکھنی چاہئے۔ ہمارے اکثر بچے مسجدوں اور مدرسوں میں قرآن پڑھنے جاتے ہیں اسی طرح اکثر بچے تو خواتین سے پڑھتے ہیں۔ زینب بھی کسی خاتون سے پڑھنے نکلی تو لیکن وہاں نہیں پہنچی۔ والدین کو بچوں کو ہر صورت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہئے۔ تجزیہ کار میجر (ر) ثاقب رحیم نے کہا ہے کہ ہمارے گھروں سے ایسی تحریک ہونی چاہئے کہ بچوںکو مقدس رشتے کے بارے سکھایا جائے اور بتایا جائے کہ ہر رشتے کا اپنا تقدس اور احترام ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں حال یہ ہو گیا ہے کہ قریب سے قریبی رشتہ بھی اب قابل اعتبار نہیں رہا۔ مغربی ممالک میں کسی بچی کو ہاتھ لگانا معیوب صور کیا جاتا ہے اور پڑھایا جاتا ہے کہ کسی کے بچوں کو چھونا بھی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بڑے افراد بچوں سے لپٹتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ بچوں کو نکاح کی اہمیت سکھائیں۔ اور بتائییں کہ جائز اور ناجائز کے کیا فوائد اور نقصانات ہو سکتے ہیں۔ قانون دان، اظہر صدیق نے کہا ہے کہ ہمارا نظام بری طرح بگڑ چکا ہے۔ ایف آئی آر درج ہونے سے لے کر تفتیش تک پراسیکیوشن کا نظام اتنا کمزور ہے کہ ملزمان کو چالان پیش ہونے تک پیش ہیں نہیں کرایا جاتا۔ اور پھر جب چالان عدالتوں میں جاتے ہیں اور پراسیکیوشن شروع ہوتی ہے تو اس میں شواہد اورحقائق اکٹھے ہی نہیں کئے جاتے۔ بالاخر اس میں ڈلے شروع ہوتے ہیں۔ ملٹری کورٹس سے لوگوں کو فوری انصاف ملے ہیں جنسی جرائم کی سزا، موت ہونی چاہئے۔ جب تک آئیڈیل سزا نہیں دیں گے اور سرعام نہیں دیں گے اس وقت تک عوام کیلئے سبق ملنا مشکل ہو گا۔