اسلام آباد(خصوصی رپورٹ) محمداسلم نے 1979ءمیں گردیز، افغانستان سے پاکستان ہجرت کی، بارڈر پارکرنے سے پہلے خوف تلے رہنے والے افغان کے ملک پرسوویت روس نے حملہ کیاتھا۔بنو زئی پشتون قبیلے سے تعلق رکھنے والے اسلم ملک میں جاری جنگ سے اپنی بیوی اورچار بچوں کوبچا لائے تھے جواس وقت 40کے پیٹے میں تھے اورپاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیررہنے کے بعدبالآخر 1985ءمیں منڈی بہاﺅالدین پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاﺅں ٹبی دریائی میں آبادہوگئے،انکی اہلیہ فاطمہ بی بی نے پاکستان میں مزید4 بچوں کوجنم دیا،اسلم اورانکے بچوں نے ملک کی مرکزی رجسٹر یشن اتھارٹی نادرا کے ذریعے رجسٹریشن کے لئے کئی کوششیں کیں لیکن لا حاصل ۔اسکے کئی سال بعداس افغان خاندان کوخوش قسمتی سے ایک نادرا اہلکار انصارگوندل ملاجس سے ملاقات کے بعداس افغان خاندان نےاپنے شناختی کارڈز کا عمل کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچنے کے بعد منزل پا لی اورافغان باشندے اپنے ناموں میں معمولی تبدیلی کے ساتھ پاکستانی شہری بن گئے۔ اسلم کا انتقال 2016ءمیں ہوا،ڈی اے ڈائریکٹر قمر ندیم جنہوں نے وی آئی پی نادرارجسٹریشن سنٹر نادراہیڈ کوارٹرمیں افغانوں کے کارڈزپرکارروائی کی انہیں ہٹادیاگیا۔نادرارجسٹریشن سنٹربلدیہ ٹاﺅن ون کراچی کےڈی اےڈائریکٹرمحمد خان کو بھی اس نوعیت کے الزامات پر برطرف کیا گیا۔ یہ طویل فہرست بتاتی ہے کہ کیسے نادرا کے 400سے زائد اہلکاروں نے مبینہ طور پر 2005 سے تقریباً 72ہزار غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ بنائے،یہ چونکادینے والے انکشافات ایسے میں سامنے آئے جب نادرا نے سرکاری سطح پر تصدیق کی کہ اس نے گزشتہ 5سال کے دوران اڑھائی لاکھ سے زائد مشتبہ شناختی کارڈ بلاک کئے ہیں۔ یہ شناختی کارڈ غیر ملکیوں اور پاکستانیوں دونوں کو جاری ہوئے تھے۔ نادرا ترجمان نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا مسٹر انصار غیر قانونی شناختی کارڈز بنانے کے عمل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں انکوائری کاسا منا کرر ہے ہیں۔ نادر اکے سینئرافسر کرنل(ر)طاہرمقصودان الزاما ت کی تحقیقا ت کرنیوالی کمیٹی کی سربراہی کرر ہے ہیں، ترجمان نے مزید بتایا ہم نے شکایت پرنوٹس لیا اور انکوا ئر ی کا عمل (نادرا میں تمام ملزمان کے خلاف) جاری ہے۔ 29سالہ امام جان نے میڈیا کو بتایا میں1989 ءمیں یہیں پیدا ہوا،ہم پاکستانی ہیں، ہمارے والدین نے تقریباً 4دہائیوں قبل افغانستان سے ہجرت کی،حال ہی میں مجھے دیگر افراد خانہ کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ ملا اور یہ غیر قانونی طریقے سے نہیں بنوایا گیا۔غیرملکیوں کی غیر قانونی رجسٹریشن اوردیگر کرپشن نے کراچی سے پشاور اور بیرون ملک بھی نادرا کے اعلیٰ حکام کو دہلا کر رکھ دیا تھا ۔400سے زائد اہلکاروں کوغیر ملکیوں کے شناختی کارڈ بنانے پر تحقیقات میں برطرف کیا گیایا وہ زیرتفتیش ہیں لیکن ایک سینئر اہلکار کے مطابق ان ملازمین کی تعداد 650ہے جو یا برطرف ہوئے یا تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔ خفیہ دستاویز کے مطابق کئی نادرا مراکز سے غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کئے جاتے رہے۔ نادرا رجسٹریشن سنٹر ڈی ایچ اے ، اورنگی ٹاﺅن عائشہ منزل، کیماڑی اور کراچی میں دیگر نادرا دفاتر نے افغان اور بنگالی شہریوں کے 10ہزار سے 20ہزار روپے فی کس کے عوض ہزاروں شناختی کارڈ بنائے۔ لاہور اور ڈی آئی خان میں نادرا دفاتربھی غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کرتے رہے۔ کراچی ریجنل دفاتر میں نادرا کی طرف سے تعینات کئے گئے 3ریٹائرڈ ملٹری افسران بھی اس میں ملوث تھے ۔ دستاویز میں مزید انکشاف کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن)کے موجودہ دور میں تقریباً4035غیر ملکیوں نے شناختی کارڈ بنوائےاورتقریبا3430افغان شہریوں نے پاکستانی قومی شناختی کارڈ حاصل کئے۔ تقریباً 236ایرانیوں نےغیر قانونی طور پر شناختی کارڈز حاصل کئے جبکہ5 عراقی شہریوں نے بھی نادرا حکام کی مدد سےکارڈ بنوائے ۔ دستاویز میں مزید بتایا گیا کہ 111بنگالیوں ، 21چینی شہریو ں ،7مراکشی ، 3ازبک ، 29بھارتی اور انڈونیشیا، امریکا، برطانیہ کےایک ایک شہری نے غیر قانو نی طور پر شناختی کارڈبنوایا۔باقی 170 جعلی شناختی کارڈز رکھنے والوں کاتعلق مصر،سینیگال، مالدیپ اور بعض دیگر ممالک سے ہے۔ نادرا نے 93افسران کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جبکہ 9کو برطرف کیا گیا ، دیگر307 اہلکار نچلے درجے کے اہلکار ہیں۔ جن میں سے 27کو تحقیقات کرنے والوں کی جانب سے فارغ کردیا گیا۔تقریباً35افسران اور 110اہلکار سنگین الز اما ت میں تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔افغان شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈز کے اجرا نے اس وقت عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جب افغان طالبان کا سابق سربراہ ملا اختر منصور ایران جاتے ہوئے بلوچستان میں مارا گیا۔ وہ پاکستانی شناختی دستاویز پر سفر کررہا تھا۔ اس دھچکے کے رد عمل میں اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثار نے ازسرنوتصدیق کا پروگرام شروع کیا جس کی سربراہی نادرا کے ایک قابل افسر میراجام خان درانی کو سونپی، سرکاری دستاویزات میں مزید انکشاف کیا گیا کہ مذکورہ بالا نادرا اہلکار ، جو مختلف نادراریجنل دفاتر میں مختلف عہدوں پرتعینات تھے، 3درجن سےزائد نادرا ریجنل دفاتر میں انکوائری بھگت رہے ہیں۔ کراچی میں108نادرا اہلکاروں کو یاتو فارغ کیا گیا وہ تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔ تقریباً ایک درجن نادرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد، 25سرگودھا ریجنل دفاتر، 43لاہورریجنل افسز، 12وفاقی دارالحکومت کے ریجنل دفاتر، پشاور کے ریجنل دفاتر کے 75، ملتان کے ریجنل دفاتر کے 3، کوئٹہ کے ریجنل دفاتر کے 102، سکھر کے ریجنل دفاتر سے30 اوردیگر چھوٹے مراکز کےاہلکار الزامات کا سامنا کرر ہے ہیں۔ سینٹ کمیٹی کے حال ہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں نادرا کے چیئر مین عثمان مبین نے انکشاف کیا کہ نادرا نے تقریباً16لاکھ مصدقہ غیر ملکیوں کی نشان دہی کرلی ہے۔ ان میں سے 38063غیر ملکی پنجاب،24503بلوچستان، 7046 فاٹا،41454خیبر پختونخوا،40042سندھ، 6149 اسلام آباد،1973 کشمیر میں،835 افراد بیرون ملک اور 121گلگت بلتستان میں ہیں۔ یہ انکشاف انہوں نے پسماندہ علاقوں کے حوالے سے سینٹ کی فنکشنل کمیٹی کے روبرو کیا۔