اسلام آباد(آئی این پی )قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے مقدمات کی جانچ پڑتال ، انکوائریوں ، انوسٹی گیشنز میں اب تک کی پیش رفت کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ نیب میں اب مقدمات سالہا سال تک نہیں چلیں گے بلکہ تمام شکایات کی جانچ پڑتال ، انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز کو قانون اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر پہلے سے طے شدہ مقررہ وقت پر منطقی انجام تک پہنچائی جائیں ، اب” احتساب سب کےلئے “کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے میٹر، شفافیت ، ایمانداری ، لگن اور قانون کے مطابق احتساب ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے ، نیب نہ تو کسی سے انتقام پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی اور فرد سے نیب کا تعلق ہے ۔ نیب افسران بلا امتیاز اور کسی دباﺅ اور سفارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے فرائض صرف اور صرف ٹھوس شواہد ، میرٹ ، شفافیت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سرانجام دیں ، جو افسر میرے کام کی رفتار کےساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتے ان کو اپنی رفتار بڑھانا ہوگی وگرنہ نیب میں ایسے افسران کےلئے کوئی جگہ نہیں ، اب صرف اور صرف کام ، کام اور کام ہوگا ،اجلاس میں پانامہ اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم کی گئی 435پاکستانی افراد کی آف شور کمپنیوں جن میں ذوالفقار بخاری کی 15کمپنیاں ، سینیٹر عثمان سیف اللہ اور ان کی فیملی کی 34آف شور کمپنیاں ، علیم خان کی برطانیہ میں 4آف شور کمپنیاں ، مونس الٰہی کی آف شور کمپنی اور دیگر افراد کی آف شور کمپنیوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ،چیئرمین نیب نے ایف بی آر ، ایس ای سی پی ، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور نادرہ سے متعلقہ ریکارڈ کی فراہمی میں سست روی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ 435آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ جلد از جلد متعلقہ اداروں سے لینے کے ساتھ ساتھ تحقیقات وقت پر مکمل کی جائیں ۔ چیئرمین نیب نے ملتان میٹروبس پراجیکٹ اور پنجاب میں قائم 56پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کا مکمل ریکارڈ نہ ملنے اور56میں سے 52کمپنیوں کا ریکارڈ ملنے اور نیب کی طرف سے 4صاف پانی کی کمپنی اور پنجاب پاور کمپنی کا ریکارڈ جو کہ ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کے پاس ہونے اور ان کے عدم تعاون کا سخت نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے متعلقہ 4کمپنیوں کا ریکارڈ لینے کی ہدایت کی تاکہ 56پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے خلاف تحقیقات قانون کے مطابق مکمل کی جائیں اور کسی بھی کمپنی کے کام میں نیب کی انکوائری کی وجہ سے رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ منگل کو نیب ہیڈ کوارٹرز میں چیئرمین نیب کی ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں چیئرمین نیب نے 11اکتوبر 2017کو اپنے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد43مقدمات کی منطوری دی جن میں 22مقدمات کی جانچ پڑتال ،17مقدمات میں انکوائری اور4مقدمات میں انوسٹی گیشن شامل ہیں پر اب تک کی جانے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جس کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ نیب میں اب مقدمات سالہا سال تک نہیں چلیں گے بلکہ تمام شکایات کی جانچ پڑتال ، انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز کو قانون اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر پہلے سے طے شدہ مقررہ وقت پر منطقی انجام تک پہنچائی جائیں کیونکہ ملک کا ہر شخص نیب کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ اب” احتساب سب کےلئے “کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے میٹر، شفافیت ، ایمانداری ، لگن اور قانون کے مطابق احتساب ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے ۔ نیب نہ تو کسی سے انتقال پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی اور فرد سے نیب کا تعلق ہے ۔ نیب افسران بلا امتیاز اور کسی دباﺅ اور سفارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے فرائض صرف اور صرف ٹھوس شواہد ، میرٹ ، شفافیت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سرانجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ جو افسر میرے کام کی رفتار کےساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتے ان کو اپنی رفتار بڑھانا ہوگی وگرنہ نیب میں ایسے افسران کےلئے کوئی جگہ نہیں ۔ اب صرف اور صرف کام ، کام اور کام ہوگا ۔ چیف سیکرٹری پنجاب سے متعلقہ 4کمپنیوں کا ریکارڈ لینے کی ہدایت کی تاکہ 56پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے خلاف تحقیقات قانون کے مطابق مکمل کی جائیں اور کسی بھی کمپنی کے کام میں نیب کی انکوائری کی وجہ سے رکاوٹ نہین آنی چاہئیے۔ چیئرمین نیب نے وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل ، پرائم منسٹر یوتھ بزنس پروگرام سکیم میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بے ضابطگیوں ، سابق چیئرمین ریلوے عارف عظیم کے خلف شکایت کی جانچ پڑتا، این ٹی ایس کے خلاف مبینہ بدعنوانی ، پیراگون سٹی لاہور، ایڈن ہاﺅسنگ اینڈ ڈویلپرز لاہور راولپنڈی ریلوے ایمپلائز ہاﺅسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ کے خلاف انکوائری منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو تقریباً80سے 90 فیصد شکایات نجی ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے بارے میں موصول ہوتی ہیں، چیئرمین نیب نے اس سلسلہ میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے اور غریبوں کی لوٹی گئی رقم کی واپسی یقینی نہ بنانے پر برہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ ڈی جیز کو اپنا کام تیز کرنے کی ہدایت کی جس کا چیئرمین نیب ذاتی طور پر پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ چیئرمین نیب نے شیخ زید ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر اجمل حسن کی طرف سے ہسپتال کی دل کے امراض کے علاج کےلئے کروڑوں روپے سے خریدی گئی سرکاری مشینری کو اپنے کلینک پر لے جانے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی لاہور کو ہدایت کی کہ شیخ زید ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر اجمل حسن کے خلاف انکوائری کی جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ سرکاری مشینری ہسپتال سے ڈاکٹر اجمل حسن کے پرائیویٹ کلینک پر منتقل کرنے میں کون سے افسران ملوث ہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق انکوائری کی جائے اور سرکاری مشینری ہسپتال واپسی کےلئے بھی چیف سیکرٹری پنجاب کے نوٹس میں لائی جائے تا کہ ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جا سکے۔ چیئرمین نیب نے سابق وزیر ریلوے ظفر علی لغاری، ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو، سیکرٹری ہیلتھ سندھ، سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، آغا ظفر اللہ درانی، سابق ڈی جی واٹر مینجمنٹ، کیپٹن(ر)صفڈر ایم این اے، بلوچستان کے وزیر محمد خان شہوانی، امداد میمن، ڈی مانیٹرنگ کراچی، سید ناصر علی شاہ سابق ایم این اے، جعفر خان مندوخیل، صوبائی وزیر بلوچستان، عبید اللہ جان بابت، صوبائی وزیر جنگلات بلوچستان، ڈاکٹر مجیب الرحمان، سابق آئی جی بلوچستان، احمد حسین ڈاہر، سابق ایم پی اے، جواد کامران کھر، سابق ایم پی اے، سردار احمد علی دریشک ایم پی اے، مظفر گڑھ میں ڈسٹنس رنگ پروگرام قومی وزارت ہیلتھ سروسز کے افسران و اہلکاروں کے خلاف شکایات کی جانچ پڑتال کا جائزہ لیا اور سست پیش رفت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مقررہ وقت کے اندر تمام شکایات کی جانچ پڑتال مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ چیئرمین نیب نے پی آئی اے اور کے ڈی اے کے افسران کے خلاف انکوائری اور کے پی ٹی کی آفیسرز ہاﺅسنگ سوسائٹی کے خلاف انوسٹی گیشن اور یوسف عبداللہ کے خلاف انکوائری کی اب تک پیش رفت کا جائزہ لیا اور تمام شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز قانون کے مطابق مقررہ وقت کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
