تازہ تر ین

حرام گوشت کے بعد حرام دودھ ، چونکا دینے والے انکشافات

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) ملک میں حلال اور حرام اور مضرصحت اجزا کی پہچان کے بغیر ہی سالانہ اربوں روپے کے ہزاروں ملین ٹن دودھ کی درآمد کا انکشاف ہوا ہے۔ درآمدی سطح پر دودھ کی ہیت ترکیبی کی چیکنگ کا کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ درآمد کیا جانے والے دودھ کے نمونے کو کبھی آج تک عملی طور پر چیکنگ کے لئے نہیں بھیجا گیا اس کے لئے امپورٹ کی سطح پر صرف کاغذی کارروائی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ رپورٹ پر اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دودھ کو لیبارٹری سے چیک کرنے کے لئے روک لیا جائے۔ درآمدکنندگان درآمدی ملک کی جانب سے صرف حلال کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے دودھ کی کنسائنمنٹ کلیئر کرواتے ہیں کی کبھی تصدیق نہیں کی جاتی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آج تک مختلف شکلوں اور پیکنگز میں جتنا بھی دوذدھ پاکستان درآمد کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کن جانوروں کا ہے اس کے بارے میں پتہ لگانے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ درآمدی سطح پر دودھ کی ہیت ترکیبی کی چیکنگ کا کوئی قانون ہی نہیں۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ درآمد کئے جانے والے دودھ کے نمونے کو آج تک عملی طور پر چیکنگ کے لئے نہں بھیجا گیا اس کے لئے امپورٹ کی سطح پر صرف کاغذی کارروائی پر انحصار کیا جاتا ہ۔ پورٹ پر اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دودھ کو لیبارٹری سے چیک کرنے کے لئے روک لیا جائے جبکہ پاکستان کے امپورٹ پالیسی آرڈر میں درج ہے کہ کھانے پینے کی کوئی چیز جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوگی ملک میں درآمد کی نہیںکی جاسکتی جبکہ کھانے پینے کی جو چیزیں بھی بیرون ملک سے درآمد کی جائیں گی اس کے حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی ایکسپورٹر ملک سے لیا جائے گا۔ یہ اختیار پاکستان کے اداروں کے پاس ہونا چاہیے تھا کہ وہ تصدیق کریں کہ بیرون ملک سے آنے والے کھانے پینے کی چیز حلال اور انسانی جان کے لئے مضر نہیں۔ یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں درآمد کئے جانے والے دودھ میں کینسر پیدا کرنے والا کیمیکل فارمولین بھی شامل ہے جبکہ باقی دنیا کے کئی ممالک میں دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے فارمولین کا استعمال ممنوع ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مضرصحت دودھ کے حوالے سے کیس کی سماعت بھی مقامی طور پر پیکنگ اور کھلے دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے فارمولین سمیت دیگر اجزاءملانے کا سخت نوٹس لیا گیا تھا۔ اب پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں بھی متعلقہ ہیلتھ حکام نے فارمولین کو انسانی صحت کے لئے مضر قرار دیا ہے۔ ایف بی آر نے حکومت سے حرام اور مضرصحت اجزاءپر مشتمل دودھ کے حوالے سے قانون وضع کرنے اور وزارت تجارت کو اس حوالے سے سرگرم کردار ادا کرنے کی سفارش کی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی درآمدکنندگان نے گزشتہ تین سالوں میں دنیا کے 49 مختلف ممالک بشمول امریکہ انڈیا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ تھائی لینڈ‘ پولینڈ‘ پرتگال‘ جنوبی افریقہ ‘ سنگاپور‘ سری لنکا‘ برازیل‘ فن لینڈ‘ اٹلی اور جاپان سمیت دیگر کئی یورپین ممالک سے پچاس ارب روپے کا 749,185 میٹرک ٹن دودھ درآمد کیا ہے لیکن ایسا کوئی قانون اور قاعدہ موجود نہیں جس کے تحت کلیئرنس کے وقت یہ جائزہ لیا جاسکے کہ درآمد کیا جانے والا دودھ حلال ہے یا حرام ہے اور اس کو کس جانور سے لیا گیا ہے۔ کاغذی کارروائی کے لئے صرف غیرملک سے جاری حلال سرٹیفکیٹ پر انحصار کیا جاتا ہے جس پر تصدیق کا کوئی میکنزم نہیں۔ پاکستانی درآمدکنندگان نے سب سے زیادہ دودھ امریکہ‘ نیوزی لینڈ‘ فرانس‘ جرمنی‘ بلجیم‘ برطانیہ آئرلینڈ اور ہالینڈ سے درآمد کیا ہے تاہم حیران کن طور پر پاکستان کے قریبی دوست اور آزادانہ تجارت کے معاہدے کے حامل دوست ملک چین سے گزشتہ تین سالوں میں صرف 37 لاکھ روپے کا دودھ امپورٹ کیا جاسکا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ چین نے اپنی دو کمپنیوں کے مالکان کو جو بچوں کا پینے والا دودھ دنیا میں برآمد کررہی تھیں دو سے تین سال قبل صرف اس بنا پر پھانسی دے دی تھی کہ اس میں معمول کے اجزاءکی صرف مقدار زیادہ تھی جو کینسر کا سبب بن رہے تھے اور دنیا میں بچے اس سے متاثر ہوئے تھے کیونکہ بچوں میں بڑوں کی نسبت قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ اس وقت سرکاری طور پر پاکستان کی چین کے ساتھ باہمی تجارت 13 ارب ڈالر اور غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق 19 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے اور پاکستان میں ہر چیز چین سے برآمد کی جارہی ہے۔ ادھر کراچی سے کسٹمز کے ایک آفیسر نے بتایا کہ کبھی اس چیزپر دھیان نہیں دیا کہ امپورٹڈ دودھ مضرصحت یا حرام اجزاءپر بھی مشتمل ہوسکتا ہے کسٹمز حکام کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ددھ یا اس کے اجزائے ترکیبی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لئے بھجوائیں ہم صرف حلال کا سرٹیفکیٹ دیکھتے ہیں اس میں کسی جانور کا نام نہیں لکھا ہوتا صرف لکھا ہوتا ہے کہ یہ حلال دودھ ہے جبکہ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے کونسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں اور مزید کیا اجزاءشامل کئے جاتے ہیں۔ یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہیں یا نہیں یہ سب بھی چیک نہیں کیا جاتا۔ پیکنگ والے دودھ کی امپورٹ پاکستان کسٹمز ٹیرف کے پی سی ٹی کوڈ کے اندر آتی ہے۔ تاہم پی سی ٹی کوڈ میں صرف دودھ کی ڈیوٹی زیربحث لائی گئی ہے جو کسی بھی امپورٹڈ دودھ پر بیس فیصد تک عائد ہے۔ وزارت تجارت کے ذرائع کے مطابق بیرونی ممالک میں کھانے پینے کی وہ چیزیں جو زائد المیعاد ہوجاتی ہیں یا ان کے اپنے ملک میں عوام کو نہیں دی جاتیں پاکستان ان کے لئے بہترین منڈی بن چکا ہے اور ہمارے لوگوں کو ان امپورٹڈ خوردنی اشیاءکو صحت مند سمجھ کر استعمال کرکے بیمار ہورہے ہیں۔ ادھر وزارت تجارت کے ذرائع نے یہ حیران کن بات بتائی ہے کہ امپورٹڈ خوردنی اشیاءکے ساتھ آنے والے حلال سرٹیفکیٹ کی تصدیق کا پاکستان میں سرکاری سطح پر کوئی انتظام نہیں بس کاغذ کے اس ٹکڑے پر بھروسہ کافی ہوتا ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain