لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر تجزیہ کارڈاکٹر مہدی حسن نے کہا ہے کہ ہر معاشرے میں جرائم ہوتے ہیں لیکن جس طرح زینب کیس کو میڈیا پر دکھایا گیا مجرم کو پکڑنے کے بعد تالیاں بجائیں گئیں یہ بچی کے لواحقین کے دکھ کو کریدنے کے مترادف ہے۔چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح ہماری نسل نے امریکہ کے خلاف کولڈ وار میں احتجاج کئے تھے اور میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد ہمیں چین کے خلاف بھی ایسا کرنا پڑ جا سکتا ہے۔ ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کی اہمیت کو گھٹا جبکہ مشینوں کی اہمیت کوبڑھا دیا ہے۔انہوں نے کہا اگر ہم قرضہ لیں گے تو میں یہی کہوں گا(بیگرز کین ناٹ بی اے چوزر) ہاتھ پھیلانے والا اپنی شرائط نہیں منوا سکتا آخر ہم اپنی شراط پر امریکہ سے دوستی کیوں نہیں کر سکتے۔انہوں نے مزید کہا ختم نبوت پر جس کا یقین نہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ہر مسئلے کو مذہب کے مطابق حل کریں گے تو نتائج معنی خیز نہیں ہوں گے،میں نے بارہا پوچھا ہے گزشتہ ستر سالوں سے ہم نے ایسا کوئی مذہبی سکالر پیدا کیا ہے جو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہو۔کھیلوں کو موضوع بحث بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرکٹ میں پیسہ بہت ہے اس لئے اس کی جانب رجحان بھی زیادہ ہے۔کالم نگارہمایوں شفیع نے کہا کہ جس طریقے سے میڈیا پر دکھایا گیا کہ کس طرح ملزم بچی کو کمرے میں لے کرگیا یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔اس قسم کی تفصیلات دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔سی پیک میں جہاں تک بزنس کا تعلق ہے سرمایہ کار نے دیکھنا ہے اس میں اسے آسانی کتنی ہے اور منافع کیا ہے اور سب سے اہم وہ دیکھتا ہے مشکل وقت میں وہ اپنا سرمایہ کیسے باہر نکال سکتا ہے۔تجزیہ کارمیاں سیف الرحمان نے کہا کہ بچی کی تصویر بار بار دکھانے سے متاثرین کے دکھ میں اضافہ ہی ہوا ہو گا۔سی پاک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پورے خطے کو فائدہ ہو گا اس میں شک بھی نہیں لیکن ہمیں تو یہ دیکھنا چاہئے ہمیں کیا فائدہ ہو گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی معیشت کو مضبوط بنائیں تاکہ قرضوں سے بچا جا سکے اور ملک خوشحال ہو۔سینئر صحافی رضوان رضی نے بتایا کہ چینل فائیو زینب کے قاتل کی سزا کے حوالے سے ایک سروے کر رہا ہے جس کے نتائج چھبیس جنوری کو رات نو بجے نشر کئے جائیں گے۔ ورلڈ اکنامک فور م کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری ضرورت ہے کہ دنیا سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لے کر جائیں لیکن میرے کچھ تحفظات ہیں کہ یہاں آیا ہوا ایک ڈالر آٹھ ڈالر کی صورت میں واپس جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے پاکستان میں آ نے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں کبھی بھی وائنڈ اپ کر کے واپس نہیں گئیں۔