لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ امن و امان کے حوالے سے ایم کیو ایم پر ہمیشہ بڑے سنگین الزاماگ لگے ہیں۔ جب الطاف حسین اس کے آل ان آل ہوا کرتے تھے تو بہت مباحثے ہوئے کہ تمام تر جرائم کی کڑی 90 سے جا کر ملتی ہے۔ اس پارٹی نے ہمیشہ مجرموں، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کو پناہ دی ہے۔اصل لڑائی پیسے کی ہوتی ہے۔ ایک بہت بڑے کاروباری شخص کے جی ایم سے میری ملاقات ہوئی۔ ان کی باتں نے مجھے حیران کر دیا۔ بڑے کاروباری لوگ، عمران خان کو بھی کروڑوں روپے کا چیک دے دیتے ہیں دو کروڑ کا چیک ن لیگ کو بھی بھجوا دیتے ہیں۔ ایک صاحب گلزار جو کہ معمولی پٹواری ہوا کرتے تھے ان کے تین بیٹے باری باری سنیٹرز بنے۔ جس کے لئے وہ پیسے خرچتے تھے۔ شاید ٹیسوری بہت مالدار ہے جس پر فاروق ستار دل وجان نچھاور کر رہے ہیں۔ فاروق ستار برس ہا برس سے پارٹی کے سربراہ چلے آ رہے ہیں۔ الطاف کی موجودگی میں بھی پاکستان کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں تھا۔ کراچی کے بیشتر بڑے مجرمان کا تعلق اس پارٹی سے ہوتا تھا۔ انہوں نے بہت پیسہ اکٹھا کیا ہے۔ یقینا یہ روپے لندن بھی بھیجتے ہوں گے لیکن ان کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہو سکتی۔ نیب اور ایف بی آر نے تمام ہی سیاستدانوں کے اثاثہ جات کی تفاصیل طلب کر لی ہیں۔ سلیم شہزاد صاحب آپ الطاف حسین کے بہت قریب ہوا کرتے تھے جب آپ ان سے ناراض ہوئے اور علیحدہ ہوئے تو اس کی کیا وجہ بنی تھی؟ کیا آپ اپنے ساتھیوں کی بیرون ملک جائیداد کی تفصیل شیئر کریں گے؟ ایم کیو ایم کو کنٹرول لندن سے کیا جاتا ہے انہوں نے سیٹیں بچانے کیلئے ایم کیو ایم پاکستان کا نام اختیار کیا ہے۔ ملک ریاض نے ایک وقت اعلان کیا کہ حیدرآباد میں الطاف حسین کے نام سے یونیورسٹی بنائیں گے؟ کیا اب انہوں نے اس کا نام تبدیل کر کے فاروق ستار یونیورسٹی رکھ دیا ہے۔ مشال خان کے کیس میں عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے۔ جن کے خلاف فیصلہ آیا ہے انہیں اوپر کی عدالت میں اپیل کرنی ہے۔ عدالتی کارروائیوں کا دورانیہ کم ہونا چاہئے۔ لوگوں کو سزا ہونے کے وقت واقعہ ہی بھول جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کے پاس بہت کام ہوتا ہے۔ لگتا ہے اب چیف جسٹس ااف سپریم کورٹ ہی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ جیلوں میں سزا پانے والے عرصہ دراز سے اپنے فیصلوں کے انتظار میں ہے وہ اپنی رحم کی اپیلوں کا بھی عرصہ دراز سے انتظار کر رہے ہیں۔ صدر ہاﺅس نہ ہاں کرتا ہے نہ ناں کرتا ہے۔ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کی سزا اتنی زیادہ ہے جو کہ مجرمان کو ملتی ہی نہیں۔ جو عام طور پر ملتی بھی ہے وہ بہت کم ہوتی ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں دن اور رات کو ملا کر دو دن تصور کئے جاتے ہیں۔ یعنی پندرہ سال کی سزا 7 سال ہوتی ہے۔ اسی طرح اچھے چال چلن، ایف اے کر لیا اور سرکاری چھٹیوں میں بھی چھوٹ مل جاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سنگین ترین مجرمان بھی تھوڑے ہی عرصے بعد سرکوں پر پھر رہے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں سخت سزاﺅں کا فائدہ ہوتا تھا۔ چوری میں ہاتھ کاٹ دیئے جاتے تو لوگوں کو عرصہ تک نصیبت ہو جاتی نام نہاد سزاﺅں کا طریقہ کار بہت سنگین ہے۔ میں اس پر بہت کام کر رہا ہوں اور تفصیل سے بتا سکتا ہوں کہ کس جرم پر کتنی سزا ہوتی ہے۔ ملتان واقعہ میں اب دو گروپ سامنے آ گئے ہیں ایک رانا گروپ ہے دوسرا آرائیں گروپ ہے یہ ایک دوسرے کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں ذات پاد ہوا کرتی تھی۔ اب ہمارے معاشرے میں بھی یہ سرائیتت کر چکی ہے۔ پرویز الٰہی دور میں ایک دن میں نے ان سے کہا پنجاب کے 34 ضلعوں میں سے31 میں جٹ افسران ہیں۔ اب خواجہ، بٹ اور کشمیریوں کا دور ہے اب جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ اصل میں بادشاہتت قائم ہے اکبر بادشاہ کے دور میں دین الٰہی قائم کیا گیا۔ ا کہ تمام ہندوﺅں اور دیگر مذاہب کو بھی بادشاہ کے زیر اثر رکھا جا سکے۔ اب اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ صرف مسلمان اور پاکستان ہونا ہی کرائی ٹیریا ہونا چاہئے۔ آرائیں ہے تو حکمرانوں کا پسندیدہ ہے رانا ہے تو رانا ثناءاللہ کا پسندیدہ ہے؟ رانا محمود الحسن کے والد صاحب اسمبلی کے ممبر تھے۔ انہوں نے مجھے کہا میں اپنے بیٹے کو صحافی بنانا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں ملتان دفتر بلا لیا اور یہ سات آٹھ سال ہمارے رپورٹر رہے۔ ان کے والد فوت ہو گئے تو ایم پی اے کی ٹکٹ انہی ںمل گئی۔ وہ میرے شاگرد ہیں میں انہیں یہاں بلاتا ہوں۔ ملتان واقعہ میں کہاں کے رانے کہاں کے جٹ۔ خدارا پہلے پاکستانی تو بنو مجرم کو گردن سے پکڑو اور سزا دلواﺅ۔ ملتان واقعہ پر ہم نے کسی سے دوستی یا دشمنی نہیں نبھائی۔ ہم نے اس واقعہ پر ہیرو اور ویلن چُنے۔ ہم نے مظلوم اور ظالم کو الگ کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملتان واقعہ پر صرف ایک سوال ہوا۔ وہ ہمارے نمائندے نے کیا۔ وزیراعلیٰ نے ملتان واقعہ پر نوٹس لے لیا ہے۔ میرے نزدیک نیک اور مظلوم انسان سب کا ہیرو ہونا چاہئے اور ظالم اور طاقتور کو ویلن ہونا چاہئے اور قابل نفرت ہونا چاہئے۔ سابق رہنما ایم کیو ایم سلیم شہزاد نے کہا ہے کہ مہاجر لوگ بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو بنانے اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے موجودہ جھگڑے کا اصل سبب یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے انہیں بہت کچھ وقت سے پہلے ہی دے دیا۔ جبکہ انہوں نے اسے کچھ نہیں دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کبھی سنیٹر ایم پی اے یا ایم این اے بن سکیں گے۔ اب ان کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے، طاقت کی جنگ ہے۔ ان لوگوں نے ایم کیو ایم کو بطتہ خوروں، دہشت گردوں کی جماعت بنا دیا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیاں، بنگلے، گارڈز ان کی علامتت بن چکے ہیں۔ انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔ فاروق ستار کی اپنی اَنا ہے۔ وہ اپنے فیصلے ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ کامران ٹیسوری کو جب ڈپٹی کنوینر بنایا گیا۔ اس وقت ان کے درمیان اختلاف سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے بہادر آباد کے لوگوں کی مرضی کے خلاف ٹیسوری کو ڈپٹی بنایا۔ ٹیسوری پارٹی کا فنانسر ہے۔ وہ پارٹی کو بہت پیسے دیتے ہیں۔ فاروق ستار سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں ہٹا دیں گے تو پارٹی کو پیسوں کا مسئلہ ہو گا۔ ہر شخص پیسے دے کر اس کا ریٹرن چاہتا ہے۔ کراچی اور سندھ میں ایم کیو ایم کے جتنے بھی رکن ہی ںکوئی اپنی جیب سے پسیہ نہیں لگاتا۔ فاروق ستار میمن ہے اور ان کو میمن کی بہت سپورٹ ہے۔ چینل پر نہیں بتا سکتا کہ ان کا ماضی کیا ہے۔ چینل ۵ کے ذریعے میں نیب اور ایف بی آر سے درخواست کروں گا کہ تمام ہی سیاست دانوں کے اثاثہ جات ضرور چیک کریں اور اس کی تفاصیل اکٹھی کریں۔ ان کے بینک بیلنس چیک کریں۔ جو لوگ اپنا کاروبار ایمپورٹ ایکسپورٹ بتاتے ہیں انہیں اس کے سپیلنگ تک نہیں آتے ہوں گے۔ دبئی میں انہوں نے بہت پراپرٹیاں خریدی ہیں لیکن میں کبھی ایم کیو ایم کی فنانس میں نہیں رہا۔ میں لندن میں ایم کیو ایم کے گھر میں کرائے پر رہتا تھا۔ جب جیل چلا گیا۔ میری بیوی سے زبردستی مکان خالی کروایا گیا میں نے ایم کیو ایم سے ایک بھی پیسہ نہیں لیا۔ ان کے کچھ افراد کا لنک اب بھی لندن سے ہے۔ ملک ریاض نے یونیورسٹی کیلئے حیدرآباد میں زمین کا اعلان کیا تھا۔ یہ صرف ڈرامہ تھا۔ نہ تو وہاں یونیورسٹی ہے نہ بنے گی۔ اصل میں وہ اس طرح زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔