لاہور(نادر چوہدری سے)یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانیوںکی دردناک موت اور ازیت ناک کہانیوں کا سلسلہ نہ رُک سکا،سانحہ ترکی ، سانحہ تربت اور سانحہ لیبیا بھی حکومتی ایوانوں اور متعلقہ اداروں کو نہ جھنجوڑ سکا ،پاکستان میں پھیلے ہزاروں ایجنٹس کے ماسٹر مائنڈ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود،ایک کو ایف آئی اے نے گزشتہ سال گرفتار کیا لیکن باقیوں میں سے کسی کے متعلق ایف آئی اے کچھ کامیابی حاصل نہ کرسکی ۔ذرائع کے مطابق پاکستانی شہریوں کویورپی ممالک بھجوانے کے سنہرے خواب دیکھا کر انھیں زمینی راستے بیرون ممالک سمگل کرنے والے ایجنٹس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آئے روز انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹس کو گرفتار کر کے ان کے خلاف کاروائی کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن یہ سلسلہ ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ترکی میں پاکستانی شہریوں پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں 4پاکستانی شہریوں پر انسانیت سوز ظلم ڈھایا جارہا تھا اور پھر اس کے ورثاءسے تاوان طلب کیا گیاتھا ۔ حقیقت میں یہ ایک عالمی سطح کا مضبوط انسانی سمگلروں پر مشتمل گروپ ہے جس میں 9افراد شامل تھے جن میں سے ایک کو ایف آئی اے پنجاب نے گزشتہ سال گرفتار کر لیا تھا لیکن باقی 8ملزمان تاحال ایف آئی اے کی گرفت سے باہر ہیں ۔ ان میں بکان نامی انسانی سمگلر جو خود کو کرد بتاتا ہے ۔رضوان افغانی نامی انسانی سمگلر جو پشاور کے علاقہ تھکال میں ر ہتا ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے یورپ کیلئے بھجوائے جانے والے شہریوں کو یہ ترکی کیلئے بارڈر کراس کرواتا ہے ۔بختیار افغانی جو کہ رحیم نامی انسانی سمگلر کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے رحیم کا (گرل فرینڈ)بھی کہا جاتا ہے اسی گروپ کا اہم حصہ ہے ۔عتیق افغانی نامی انسانی سمگلر جس کا کام جرمنی سے شروع ہوتا ہے جبکہ اسکی رہائش بھی جرمنی میں ہے ۔رحیم اللہ نامی اغواءکار انسانی سمگلر جس کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت ترکی میں روپوش ہے اور مسلسل گزشتہ تقریباً6سالوں سے اس مکروہ دھندے میں ملوث ہے ۔مسیح اللہ نامی انسانی سمگلر جو کہ تاوان لے کر شہریوں کو غیر قانونی طریقے سے ترکی سے بلغاریہ پہنچانے کا کام کرتا ہے ۔ احسان خان ہری پور کا رہائشی اور افغانی ہے جو کہ اٹلی میں رہائش پذیر ہے اور اس گروپ کا سب سے بڑا اغواءکار ہے جبکہ اسکا کام غیر قانونی طریقے سے زمینی راستے شہریوں کو اٹلی داخل کرواتاہے ۔ اغواءکار شنکر کے نام سے بھی موجود ہے جو کہ نعیم افغانی کا خاص آدمی سمجھا جاتا ہے اور آخری اطلاعات کے مطابق وہ ترکی میں رحیم کے ساتھ موجود تھا جبکہ پشاور کے علاقہ شمشاتو کیمپ کا رہائشی عبدالرحمن بھی اسی گروپ کا اہم رکن تھا جو پاکستان سے ترکی اور یونان کیلئے شہریوں کو بھجواتا تھالیکن اسے ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا تھا ۔ نومبر 2017میں ترکی انٹیلی جنس معلومات پر جنوبی صوبے عدنا اور شمال مغربی صوبے کرک لاریلی میں کاروائی کرکے 98افراد کو بازیاب کرایا گیا جن میں 57 پاکستانی شہریوں سمیت 25 افغان، 22پاکستانی، 20 شامی، بنگلہ دیش کے تین اور نائیجریا کے دو شہری شامل تھے ۔ ان تمام افرادکو انسانی سمگلروں نے ایک عمارت کے تہہ خانے میں قید کیا ہوا تھا اور انھیں فی کس دس ہزار ڈالر یورپ پہنچانے کا وعدہ کیا گیاتھا لیکن یہ یہاں قید خانے کی نظر ہو کر رہ گئے تھے اور ان پر شب و روز بہیمانہ تشدد کا سلسلہ جاری تھا اور اغواءکار ان کے ورثاءکو تشدد کی وڈیوز بنا کر بھیجتے اوران کی رہائی کیلئے تاوان وصول کررہے تھے ۔اسی طرح بلوچستان کے علاقہ تربت میںپنجاب سے تعلق رکھنے والے 20 افراد جو کہ ایجنٹوں کے ہاتھوں غیر قانونی طریقے سے زمینی راستے مختلف ممالک کے بارڈر کراس کروا کر یورپ بھجوانے کا خواب دکھا کر یہاں ٹھہرائے گئے تھے اور ان کو مبینہ طور پر بلوچ علیحدگی پسند گروہ نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔اس کے بعد گزشتہ دنوں لیبیا کے ساحل کے قریب سپین جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی کے حالیہ حادثے میں جو 90 افراد جان سے گئے جن میں سے 32 کا تعلق پاکستان سے تھااور ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ۔یکے بعد دیگر بڑے بڑے حادثے رونماءہونے اور یک مشت درجنوں شہریوں کی ہلاکتوں کے باوجود ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں سمیت حکومتی اراکین موثر اقدامات اُٹھانے میںمسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ انسانی سمگلنگ کے اصل کردار جن کو ایف آئی اے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بخوبی جانتے ہیں نامعلوم وجوہات کی بناءپر تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آسکے جس وجہ سے پاکستانیوں کی دردناک اموات کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔