اسلام آباد (وقائع نگار) نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے میں نامزد سابق ایس ایس پی راو¿ انوار 16 فروری کو جمعہ کو طلب کرلیا ¾عدالتی حکم کے مطابق جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا بریگیڈیر لیول کا آفیسر شامل ہوگا جبکہ ایک قابل افسر کا تعین عدالت خود کرے گی ¾جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک راو¿ انوار کو گرفتار نہ کیا جائے اور اسلام آباد پولیس راو¿ انوار کو سیکیورٹی فراہم کرے۔ منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے انسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ، ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ¾ سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبائی ہوم سیکرٹریز، سیکرٹری اطلاعات اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کیا تھا۔ دوسری جانب ڈی جی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور ڈی جی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ سماعت کے آغاز میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور سابق ایس ایس پی راو¿ انوار کی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے اپنا تفصیلی جواب بھی جمع کروایا۔ جس پر عدالت عظمیٰ نے سندھ پولیس اور وفاقی دارالحکومت پولیس کو ہدایت جاری کی ہے کہ راو¿ انوار کو عدالت میں پیشی کے دوران گرفتار نہ کیا جائے۔ راو¿ انوار کی جانب سے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو ایک خط لکھا گیا تھا جسے چیف جسٹس نے عدالت میں پڑھ کر سنایا اور پولیس افسران سے استفسار کیا کہ کیا اس پر خط پر دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہیں۔ اے ڈی خواجہ کے ساتھ موجود دیگر افسران نے خط دیکھ کر عدالت کو بتایا کہ دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہی لگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح انصاف کا حصول مظلوم کا حق ہوتا ہے اسی طرح ظالم کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ راو¿ انوار کی جانب سے لکھے گئے خط میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ وہ بے گناہ ہیں اور اس معاملے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے جو سیکیورٹی ایجنسیز کے افسران پر مشتمل ہو اور اس میں سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے کے افسران موجود ہوں۔ راو¿ انوار کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملے میں ایک جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر کو 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے تک راو¿ انوار کو گرفتار نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ یکم فروری کو عدالت عظمیٰ نے سندھ پولیس کو مقدمے میں نامزد سابق ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار کو 10 دن میں گرفتار کرنے کی مہلت دی تھی۔ سپریم کورٹ میں سندھ پولیس خالی ہاتھ پیش ہوئی کیونکہ اس عرصے میں راو¿ انوار سمیت نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوث کسی پولیس اہلکار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار نے شاہ لطیف ٹاو¿ن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاو¿نٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔ بعدازاں نقیب کے قتل کا مقدمہ سچل تھانے میں سابق ایس ایس پی ملیر راو¿ انوار اور دیگر پولیس افسران کے خلاف درج کیا گیا اور آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راو¿ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے باعث انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
