تازہ تر ین

یحییٰ کو عدالت نے غاصب قرار دیا مگر 70ءکے الیکشن کالعدم نہیں ہوئے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگوکرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن کی ری شیڈولنگ کرنی پڑے گی۔ اور دوبارہ وقت دیا جائے کہ مسلم لیگ (ن) کے نئے پارٹی صدر کے دستخط سے کاغذات جمع کروائے جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کے فیصلے موثر یا ماضی ہو چکے۔ لہٰذا سینٹ کے ارکان کے انتخاب کیلئے پارٹی صدر کی تصدیق ضروری ہو گی اس پر ہی متعلقہ صوبے کا ایم پی اے عمل کرے گا۔ میرے خیال کے مطابق سینٹ الیکشن کے کاغدات کی تاریخ بھی آگے بڑھانی ہو گی اور اس کے انتخاب کا وقت بھی آگے کرنا ہو گا۔ مریم نواز صاحبہ کا صادق اور امین ثابت ہونا ذرا مشکل ہو گا۔ اس لئے شاید وہ پارٹی صدارت نہ سنبھالیں۔ حقیقی جمہوریت ہم سب چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈکٹیٹر شپ میں آزاد صحافت ہر گز پھول پھل نہیں سکتی۔ صرف جمہوریت میں ہی صحافت پھل پھول سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بہت مشکل ہو گیا ہے ہم کس طرح ثابت کریں گے کہ کون صحیح ہے مریم نواز کے اوپر بھی وہی الزامات ہیں۔ جو نوازشریف صاحب پر ہیں۔ ان کے معاملات بھی کورٹ کے سامنے ہیں۔ آج کے فیصلے کا اطلاق پہلی مرتبہ پارلیمنٹیرین، سنیٹرز اور ایم پی ایز سے آگے بڑھ کر پارٹی کے عہدے دیروں اور ارکان پر بھی ہونے جا رہا ہے چاہے یہ عہدے داران اسمبلی کے ممبر نہ بھی ہوں۔ ابھی تک جتنے کیسز سامنے آئے ہیں وہ محض الزامات ہیں۔ نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر پر ابھی تک الزامات ہی لگائے گئے ہیں اور مقدمات عدالت میں چل رہے ہیں۔ جب تک فیصلہ نہیں آ جاتا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کوئی شخص اگر مریم نواز کی صدارت کے خلاف اٹھتا بھی ہے تو اسے کورٹ کے پاس جانا پڑے گا۔ چونکہ ابھی عدالت سے کوئی فیصلہ بھی نہیں آیا تو کس طرح کوئی ایڈوانس ہی عدالت میں چلا جائے گا۔ مریم نواز کیخلاف ابھی تک کوئی کرپشن کا کیس ثابت نہیں ہوا۔ ملزم اس وقت مجرم بنتا ہے جب عدالت فیصلہ دے دیتی ہے۔ ابھی تک کسی کورٹ نے مریم نواز کو مجرم قرار نہیں دیا۔ ماہر قانون ایس ایم ظفر نے بتتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ایک ضمنی شیڈول جاری کرے گا اور صرف مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے نئی ٹکٹ کے ساتھ کاغدات طلب کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ضمنی الیکشن کا پنڈورا بکس کھلنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ یحییٰ خان کو سپریم کورٹ نے غاصب قرار دیا۔ جس نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے ان کے سارے احکامات کو تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ 1970ءکے الیکشن درست قرار دیئے گئے جس شخص کو غاصب اور خائن قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود 1970ءکے الیکشن کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ کنور دلشاد کی بات میں وزن ہے کہ اس فیصلے کا اثر شاہد خاقان عباسی پر بھی ہو سکتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے پاس اکثریت تو موجود ہے۔ ابھی یہ معاملہ کورٹ آف لاءممیں جائے گا۔ کوئی شخص اس معاملے کو لے کر عدالت جائے گا کہ اب شاہد خاقان عباسی بھی وزیراعظم نہیں رہ سکتے۔ میرا خیال ہے کہ عدالتیں بھی اور الیکشن کمیشن بھی اس معاملے پر زیادہ اتھل پتھل نہیں ہونے دیں گی۔ عدالتیں صرف نوازشریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانا چاہتی ہیں اور کوئی چیز بھی ”اَن ڈو“ نہیں کرنا چاہتی۔ سپریم کورٹس ہائیکورٹس اور احتساب عدالتیں یعنی نیب کورٹ بہت تیزی سے اپنے سفر پر گامزن نہیں۔ کچھ اور لوگوں کو بھی کرپشن پر پکڑا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف صاحب کے خلاف بھی ریفرنس سامنے آئے ہیں۔ ابھی سارے الزامات بھی ہیں۔ کسی نے مجاز عدالت نے انہیں نااہل نہیں کیا۔ وجیہہ الدین ریٹائرڈ جسٹس ہیں۔ ظاہر ہے وہ قانون سے واقف ہیں لہٰذا ان کی بات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتوں میں روزانہ اس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں لیکن اس کے بارے مجاز عدالتیں ہی فیصلہ کریں گی۔ نوازشریف کے خلاف جب عدالت کا فیصلہ آیا تو وہ عوامی عدالت میں گئے اور تقریریں کیں کہ یہ کوئی جرم ہے جس پر انہیں نکالا جا رہا ہے۔ انہیں اقامہ پر نکالا گیا۔ اقامہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے بیشتر وزراءکے پاس اقامے موجود ہیں۔ اتنی ذمہ دار سیٹ پر یہاں کام کر رہے ہیں اور دوسرے ملکوں میں نوکری بھی کر رہے ہیں؟ کیا اس کے باوجود انہیں صادق اور امین کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت سیاستدان جو بھی کرے گا وہ 2018ءکے الیکشن کی تیاری ہو گی۔ عمران خان اگر عدلیہ کے لئے سڑکوں پر نکلنے کا کہتے بھی ہیں تو وہ اپنی الیکشن مہم چلا رہے ہوں گے۔ نوازشریف کہہ رہے تھے ”تحریک عدل“ چلائیں گے۔ وہ لمبے عرصے تک حاکم رہے اتنے عرصہ میں انہیں عدل کا خیال ہی نہیں آیا۔ 1973ءکے آئین کے دیباچہ میں قرارداد مقاصد شامل ہے تمام آئین کی کتابوں میں یہ درج ہے۔ یہ قرارداد کہتی ہے کہ اکثریت کے باوجود آپ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے جو شریعت اور دین کے خلاف ہو۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ 28 جولائی کے بعد سے جتنے بھی فیصلے نوازشریف نے کئے وہ کالعدم ہو گئے۔ سب سے پہلے شاہد خاقان عباسی اس فیصلے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نامزدگی میاں نوازشریف نے کور کمیٹی اور پارٹی اجلاس کے سامنے دی تھی۔ اس کے بعد سینٹ الیکشن کی باری آتی ہے۔ میاں نوازشریف نے ہی پارٹی ارکان کو سینٹ ٹکٹ جاری کئے تھے۔ اب الیکشن کمیشن اس کے لئے ایک ضمنی شیڈول جاری کرے گا اور صرف مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے ہی نئے کاغدات طلب کئے جائیں گے۔ جو قائم مقام صدر یا چیئرمین کی جانب سے دستخط شدہ ہوں گے۔ اس کی سکروٹنی ہو جائے گی۔ اگر وزیراعظم نہیں رہتا تو اس کی کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain