All posts by Daily Khabrain

تحریکِ انصاف کی حکومت کے 100 دن اور یو ٹرن

اسلام آباد (ویب ڈیسک)پاکستان میں گذشتہ حکومت کے دوران اٹھنے والی سونامی کی لہر یعنی تحریک انصاف کو اب حکومت میں آئے تین ماہ مکمل ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں کئی ایسے اعلانات اور بیانات سامنے آئے جو کہ نہ صرف متنازع رہے بلکہ ان پر حکومت کو موقف تبدیل بھی کرنا پڑا۔بلکہ حکومت کی جانب سے پالیسیوں پر مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے جب تنقید بڑھی تو وزیراعظم عمران خان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن پورے ہونے پر ہم نظر ڈالیں گے ایسے ہی بیانات اور اعلانات پر جس کے نتیجے میں حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو دفاعی پوزیشن لینا پڑی۔پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے عوام سے وعدے کرنا اور ملک کے بارے میں ایک تابناک تصویر پیش کرنا ہمیشہ سے ایک آسان نسخہ رہا ہے جس میں معاشی خود انحصاری شاید ہمیشہ سرفہرست رہتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار میں آنے سے پہلے ماضی کی حکومتوں کے عالمی مالیاتی اداروں بلخصوص آئی ایم ایف کے پاس جانے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور جوش خطابت میں یہ تک کہہ ڈالا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر وہ خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے۔پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کی سربراہ کریسٹین لیگارڈ نے قرضے کے لیے درخواست دی۔لیکن شاید حکومت میں آنے سے ترجیحات بدل جاتی ہیں چاہے اس کو مجبوری کہا جائے یا کچھ اور۔۔۔ ایسا ہی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہوا اور آہستہ آہستہ ملک کی پتلی معاشی صورتحال کے بارے میں میڈیا کو بتایا جانے لگا۔تاہم اس دوران بھی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوالات کو ٹالا گیا اور توجہ وزیراعظم ہاو¿س میں کھڑی گاڑیوں اور وہاں بھینسوں کی نیلامی پر مرکوز رکھی۔لیکن چند کروڑ میں گاڑیوں اور چند لاکھ میں نیلام ہونے والی بھینس ملک کے اوپر منڈلاتے معاشی بحران کو ٹال نہیں سکیں تو حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کر ہی دیا گیا۔اس پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو جہاں حزب اختلاف کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہیں سوشل میڈیا پر ان کے آئی ایم ایف مخالف کلپس کو شائع کر کر ان کو وعدہ خلافی کا احساس دلایا گیا۔شاید اسی وجہ سے وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کا بوجھ آتے ہی ہمیں ملا اور اگر فوری طور پر قرضہ نہ لیتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان کی جانب سے سی پیک منصوبے کے بارے میں ملے جلے اشارے ملے اور جہاں ماضی کی حکومت اور فوج اس کو گیم چینجر کا نام دے رہی تھی وہیں تحریک انصاف کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔تاہم تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد سی پیک کے بارے میں پالیسی کچھ واضح ہوئی جس میں حکومتی وزرا کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے جس میں عندیہ دیا گیا کہ حکومت سی پیک معاہدے کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔یہاں یہ تاثر پیدا شروع ہوا کہ حکومت اس منصوبے کو اپنی شرائط کے مطابق چین سے دوبارہ معاملات طے کرنا چاہتی ہے۔تاہم اس معاملے نے متنازع رخ اس وقت اختیار کیا جب ستمبر کے اوائل میں ابھی چینی وزیر پاکستان کے دورے پر ہی تھے کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے کامرس، ٹیکسٹائل، انڈسٹری اینڈ سرمایہ کاری رزاق داو¿د نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ پچھلی حکومت نے سی پیک پر چین سے بات چیت میں بری کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے اپنا ہوم ورک یا کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا اور بات چیت ٹھیک طرح سے نہیں کی۔۔۔ تو انھوں نے بہت کچھ دے دیا۔’اس انٹرویو پر ملک میں خوب ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا پڑا اور اس کے بعد نہ صرف مذکورہ وزیر کو وضاحت دینا پڑی بلکہ دفتر خارجہ کی جانب سے بیانات جاری ہوئے تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔شاید اسی وجہ سے اس انٹرویو کے منظر عام پر آنے کے اگلے ہی دن پاکستان میں چینی سفیر کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں ملاقات ہوئی اور اس کے چند دن بعد آرمی چیف چین کے دورہ پر بھی گئے اور بعد میں وزیراعظم عمران خان نومبر میں چین کے پانچ روزہ دورے پر بھی گئے لیکن اس دورے سے حاصل ہونے والے نتائج سے یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سی پیک معاہدے پر موجودہ حکومت اور چین کے درمیان کہیں نہ کہیں سرد مہری کا عنصر غالب رہا۔سینیئر تجزیہ کار عارف نظامی نے کہا کہ رزاق داو¿د نے سی پیک کے بارے میں جو بیان دیا اس کا ان کے خیال میں اچھا خاصا نقصان ہوا ہے اگرچہ چین نے اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا لیکن موجودہ حالات میں اگر کوئی زیادہ مدد کر سکتا تھا وہ چین ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دوسری غلطی یہ کی رزاق داو¿ کو دور? چین میں ساتھ لے کر چلے گئے جس کا بھی نقصان ہوا۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا اور وہاں سے واپسی پر اعلان کیا گیا کہ سعودی عرب اب سی پیک کا تیسرا شراکت دار ہو گا۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ‘سی پیک میں اب ہمارا تیسرا سٹریٹیجک یا اقتصادی پاٹنر جو ہو گا وہ سعودی عرب ہو گا۔‘حکومت کی جانب سے اچانک کیے گئے اعلان پر نہ صرف پارلیمان میں اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا بلکہ سوالات اٹھائے جانے لگے کہ آیا چین کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا گیا کہ نہیں۔۔۔ تاہم حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی چین کی جانب سے پذیرائی کا کوئی عندیہ دیا گیا۔ایوان بالا میں جب سعودی شراکت داری پر شور بلند سے بلند ہوتا گیا اور اسی ماحول میں سعودی عرب کا ایک وفد پاکستان بھی پہنچا اور اس نے گودار کا دورہ بھی کیا لیکن اس دورے سے فوری کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ حکومت کی جانب سے نیا موقف سامنے آیا جس میں تکنیکی معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے تو پوزیشن کو بدلا گیا کہ سعودی عرب سی پیک فریم ورک کا حصہ نہیں ہو گا اور وضاحت دی کہ سعودی عرب مخصوص منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور پاکستان اور چین سے اس ضمن میں علیحدہ سے معاہدے کرے گا۔حکومت نے اس سے قبل عاطف میاں کی تقرری کی مخالفت کرنے والوں کو انتھاپسند قرار دیا تھا۔وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا عزم متعدد بار دہرا چکے ہیں جس میں ان کے مطابق تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق اور مواقعوں کو یقینی بنایا جائے گا۔لیکن نعرے کو حقیقت میں تبدیل کرنا ایک ایسے پاکستان میں مشکل فیصلہ ہو جاتا ہے جب گذشتہ کئی دہائیوں سے عدم برداشت اور مذہبی شدت پسندی کا ماحول پنپ رہا ہو۔ایسا ہی ہوا جب ملک کی ابتر معاشی حالت کو سدھارنے کے لیے دنیا سے بہترین ماہرین کو جمع کرنے کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماہر معاشیات عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا۔ابھی ان کی تقرری ہوئی ہی تھی ملک میں چند مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ عاطف میاں کا تعلق اقلیتی احمدی برادری سے تھا۔حکومت کی جانب سے اس تنقید کو سختی سے مسترد کیا گیا تو اس کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی کیونکہ مذہبی شدت پسندی کے سامنے کس نے ٹھوس موقف اپنایا تھا۔ اس معاملے میں وفاقی وزیر اطلاعات کی فیصلے کے حق میں دھواں دار تقریر بھی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘کیا پاکستان میں اقلیتوں کے کسی کردار کے اوپر پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ کیا پاکستان میں جو اقلیتیں ہیں انھیں اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔‘لیکن اس تقریر کے شائع ہونے والی خبروں کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت سے ہٹانے کا اعلان کر دیا۔اس فیصلے پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے شدت پسند عناصر کے سامنے ہار مان لی لیکن حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو بھی سیاسی الفظ میں’ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانا‘ اور عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا سہارا لیا اور یہ ایشو میڈیا پر چند دن رہنے کے بعد آہستہ آہستہ غائب ہو گیا۔گذشتہ سال نومبر میں فیض آباد پر دھرنے کے بعد جماعت کی قیادت خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری سمیت درجنوں افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔مذہبی عدم برداشت کا ایک اور معاملہ اس وقت سامنے آیا جب حکومت نے پہلے تو سختی سے ایک موقف اپنایا اور پھر موقف سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا جس پر خوب تنقید کی گئی اور یہ معاملہ تاحال کسی نہ کسی صورت میں میڈیا پر موجود ہے اور حکومت کی’ مصالحتی پالیسی‘ پر بات کی جاتی ہے۔توہینِ رسالت کے الزام میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے بریت کے فیصلے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس دوران نہ صرف چند مقامات پر توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے بلکہ ان مظاہروں کی قیادت کرنے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کی جانب سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور فوجی قیادت کے خلاف’ توہین اور حقارت آمیز‘ الفاظ کا استعمال کیے گئے۔بات زیادہ بڑھی تو وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی پر آ کر قوم سے خطاب میں احتجاج کرنے والی کو سخت الفظ میں تنبیہ کی اور کہا کہ’ریاست سے نہ ٹکرائیں۔ اپنی سیاست اور ووٹ بینک کے چکر میں ملک کے خلاف کام نہ کریں۔ ریاست کو مجبور نہ کریں کہ وہ ایکشن لینے پر مجبور ہو جائے۔’معاہدے کے بعد جب لوگ منتشر ہوگئے اور تمام شاہراہیں کھول دی گئیں تو اس کے بعد حکومت کی طرف سے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیاوزیراعظم کے اعلان کی خوب پذیرائی ہوئی لیکن احتجاج کا سلسلہ جاری رہا ہے اور اسی دوران وزیراعظم عمران خان چین کے دورے پر چلے گئے اور پیچھے ملک میں حکومت کے پاو¿ں سرکنے لگے اور آہستہ آہستہ مفاہمتی رویہ اپنایا جانے لگا۔تین دن کے احتجاج کے بعد رات گئے مظاہرین اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا گیا جس میں آسیہ بی بی کے مقدمے میں نظر ثانی کی اپیل پر حکومت اعتراض نہیں کرے گی جیسی شرط شامل تھی لیکن یہ شرائط بھی شامل تھیں جس میں کہا گیا کہ مظاہروں کے دوران جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ا±ن افراد کو فوری رہا کیا جائے گا۔معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔اس معاہدے کے بعد ملک میں حالات ممعول پر تو آ گئے لیکن حکومت کو اپنا دفاع کرنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑی اور دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کی نشاندہی کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ رہا ہے کہ مظاہرین کی قیادت کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت جماعت کی دیگر قیادت نے جہاں صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس کے نظام میں اصلاحات اور اس میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے کارنامے کی خوب تشہیر کی وہیں خاص کر صوبہ پنجاب کے محکم? پولیس میں سیاسی مداخلت کے الزامات لگائے جاتے رہے۔لیکن تحریک انصاف کے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے کچھ دنوں بعد ہی پنجاب کے جنوبی ضلع پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر رضوان گوندل کے تبادلے پر تنازع پیدا ہوا اور بات بڑھتے بڑھتے سپریم کورٹ تک جا پہنچی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی بیٹی سے پولیس اہلکاروں کی مبینہ بدتمیزی اور پولیس حکام کے تبادلوں میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی اور بعد میں وزیر اعلٰیٰ عثمان بزدار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور غیر مشروط معافی مانگی اور عدالت کو یہ بھی کہنا پڑا کہ سوال تو یہ ہے کہ کیا وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس بات پر نااہل ہو سکتے ہیں؟اسی دوران حکومت نے آئی جی پنجاب طاہر خان کو تقرری کے کچھ عرصے بعد ہی تبدیل کر کے امجد جاوید سلیمی کو پنجاب پولیس کا نیا آئی جی تعینات کیا تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئی جی پنجاب پولیس کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا لیکن ضمنی انتخابات کے بعد امجد جاوید سلیمی کو ہی آئی جی مقرر کیا گیا۔پنجاب پولیس میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں اور ناصر درانی کے استعفے پر تحریک انصاف کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن حکومت نے امجد جاوید سلیمی کو زیادہ بہتر چوائس قرار دے کر اپنے فیصلے کا دفاع کیا۔ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے تبادلے کے زبانی احکامات کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور اس معاملے نے سپریم کورٹ کی توجہ حاصل کی اور چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے احکامات کو منسوخ کر دیا اور ساتھ میں ان کی جانب سے یہ ریماکس بھی دیے گئے کہ:’یہ ہے وہ نیا پاکستان جس کے دعوے موجودہ حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے کر رہی تھی‘یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر اعظم سواتی کا کام نہ کرنے اور ان کا فون نہ سننے کی وجہ سے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو تبدیل کردیا تھا۔اب بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار میں آنے سے پہلے اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مبینہ شاہ خرچیوں کا تذکرہ اکثر کرتے اور اس کو ملک کی ابتر معاشی صورتحال سے جڑتے۔حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے کفایت شعاری کے تحت جہاں وزیراعظم ہاو¿س میں نہ رہنے کو ترجیح دی بلکہ بنی گالہ سے اپنے دفتر آنے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کیا تو ایک طوفان برپا ہو گیا کہ یہ کیسی کفایت شعاری ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں بڑی آبادی کو معیاری ٹرانسپورٹ سہولیات دستیاب نہیں ہیلی کاپٹر کے استعمال پر ان کی خاصی دلچسپی پیدا ہوئی اور حزب اختلاف نے اسے غیر ضروری خرچہ قرار دیا تو وزیرِاطلاعات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں اس میں وضاحت کی تو بات مزید بگڑ گئی بلکہ لوگوں کے لیے تفریح کا باعث بن گئی کیونکہ مذکورہ وزیر کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے اس سفر پر ’خرچ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ہے۔‘وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی غیر ملکی دورہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ہو سکتا تھا تاہم انھوں نے اعلان کیا کہ وہ چھ ماہ تک غیر ملکی دورے نہیں کریں گے اور ان کی توجہ ملکی مسائل کو سمجھنے پر ہے۔تاہم ان کا یہ اعلان بھی دیگر اعلانات کی طرح یو ٹرن کا شکار ہوا اور اب تک وہ نصف درجن کے قریب غیر ملکی دوروں پر جا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ایک اعلان جو بعد زیادہ متنازع بنا وہ غیر ملکی دوروں کے لیے نجی پرواز کا انتخاب تھا نہ سرکاری جہاز جس پر خرچ زیادہ آتا ہے۔عمران خان نے وزارتِ اعظمی کا منصب سنبھالنے کے چند ہفتوں بعد پہلے سرکاری دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا جس پر زیادہ تنقید تو نہیں ہوئی لیکن ان کو سعودی عرب لیے جانے والی سرکاری جہاز کی خوب تشہیر ہوئی اور عمران خان پر پھر یوٹرن لینے کا الزام لگا۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عام انتخابات سے پہلے بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد چاروں صوبوں کے گورنر ہاو¿سز اور وزیراعظم ہاو¿س کو عوام کے لیے کھول دیں گے اور ان پرتعش عمارتوں کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔اقتدار میں آنے کے بعد اس عزم کو دہرایا گیا تاہم ابھی تک ان عمارتوں کے باغ باغیچوں کو ہی یا مختصر حصوں کو عوام کے لیے کھولا گیا ہے اور مزید پیش رفت نہیں ہو سکی۔حکومت کی اس نیم کوشش پر بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور اس پر دباو¿ ہے کہ وہ وعدے پر پوری طرح سے عمل درآمد کرے۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہیں کہ وہ 22 برس تک پاکستان اور اس کے مسائل کے بارے میں سوچتے رہے تو انھوں نے کچھ تو سوچا ہو گا لیکن اس حوالے سے پالیسیاں سامنے نہیں آئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ابھی تک صرف کرپشن پر ہی بات کی جا رہی ہے لیکن اس بنیاد پر آگے کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عمران خان نے ابھی تک اپنی پالیسی کو زیادہ واضح نہیں کیا۔ اگرچہ ماضی کی حکومتوں پر تنقید کرنا ان کا حق ہے لیکن اس سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ 2018 سے پہلے ملک میں نو عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ان انتخابات سے پہلے کیے گئے وعدوں میں سے زیادہ تر کبھی پورے نہیں ہوتے اور اب بھی ایسی ہی کیفیت ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی واضح سمت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں وزیراعظم ان احساسات کا اظہار کیا ہے کہ ان کے پاس آگے بڑھنے کا کیا لائحہ عمل ہے۔

”پاکستان چین دوستی ھمالیہ سے بلند “شہید اہلکاروں کے اہلخانہ کی مالی مدد کیلئے چینیوں کی فنڈ مہم

چین (ویب ڈیسک ) پاک چین دوستی کے چرچے پوری دنیا میں مشہور ہیں، جس کا ثبوت حال ہی میں ا±س وقت دیکھنے کو ملا جب کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرنے والے 2 پاکستانی پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ کی مالی مدد کرنے کے لیے چینی شہریوں نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت عطیات جمع کرنے کے لیے مہم کا آغاز کردیا۔کراچی: چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملہ ناکام، 2 پولیس اہلکار شہید، 3 دہشتگرد ہلاک چدوسری جانب کارروائی میں 2 پولیس اہلکار اے ایس آئی اشرف داو¿د اور پولیس کانسٹیبل عامر خان شہید جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ جمن خان زخمی بھی ہوا تھا۔حملے کے وقت قونصل خانے میں 21 چینی شہری موجود تھے، جو بالکل محفوظ رہے۔اس واقعے کے بعد چینی شہریوں نے سندھ پولیس کے شہید اہلکاروں کے لیے فنڈ ریزنگ مہم کا آغاز کیا۔

بھارتی پنجاب کے وزیر نے کرتار پور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں سیاہ ٹیپ کی مدد سے حیرت انگیز کام کر ڈالا ، شرکا ءبھی ششدر رہ گئے

نئی دہلی (ویب ڈیسک )بھارتی پنجاب کے شہر گرداس پور میں کرتارپور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب تنازع کا شکار ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب میں کرتار پور کوریڈور کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران پنجاب کے وزیر سکھ جندر سنگھ رندھاوا نے تختی پر اپنے ہی وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ اور دیگر وزرا کے ناموں پر سیاہ ٹیپ لگا دیا۔سکھ جندر سنگھ نے کہا کہ پرکاش سنگھ اور بادل اور سکھبیر سنگھ بادل کے نام سنگ بنیاد پر لکھنے پر احتجاجاً انہوں نے یہ کام کیا۔انہوں نے کہا کہ ان دنوں کے نام کیوں لکھے گئے؟ یہ ایگزیکٹو کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ کوئی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اکالی تقریب ہے۔واضح رہے کہ گرداس پور میں پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر ڈیرہ بابا نانک کرتارپور صاحب کوریڈور کی تعمیر کا سنگھ بنیاد بھارت کے نائب صدر وینکیھ نیدو نے کرنا تھا۔اس حوالے سے ا?ج تقریب منعقد کی گئی، جس میں یونین ٹرانسپورٹ وزیر نیتن گدکاری، کھانے کے یونین وزیر ہرسمرت کور بادل اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ نے شرکت کرنی تھی۔خیال رہے کہ کرتارپور بھارتی پنجاب کے علاقے گرداس پور میں ڈیرہ بابا نانک سے تقریباً 4 کلومیٹر دور ہے، جسے 1522 میں سکھ گرو نے قائم کیا تھا اور یہاں پہلا گردوارہ کرتارپور صاحب قائم کیا گیا تھا جبکہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بابا گرونانک کا انتقال ہوا تھا۔یاد رہے کہ رواں سال اگست میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سکھ یاتریوں کے لیے اس سرحد کو ویزا فری کرنے کے منصوبے کی بحالی کی تجویز دی تھی جو 1988 سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث تعطل کا شکار تھا۔بعد ازاں 22 نومبر کو بھارتی حکومت نے پاکستان کی جانب سے کرتارپور کی سرحد کھولنے کی پیشکش کو قبول کرلیا تھا جبکہ بھارتی کابینہ نے سرحد کھولنے سے متعلق منظوری بھی دے تھی۔اس دوران وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان نے پہلے ہی بھارتی حکومت بتا دیا تھا کہ وہ گرو نانک صاحب کے 550ویں یومِ پیدائش کے موقع پر کرتارپور سرحد کھولنے کا فیصلہ کرچکا۔انہوں نے بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو کرتارپور راہداری کا افتتاح کریں گے جو بھارتی ضلع گرداسپور کے ڈیرا بابا نانک کو پاکستان میں گردوارا کرتارپور صاحب سے منسلک کرے گا اور بھارتی سکھوں کو یہاں تک پہنچنے کے لیے ویزا فری رسائی ہوگی۔

کیویز 90رنز پر ڈھیر

دبئی( ویب ڈیسک ) پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دبئی ٹیسٹ کے تیسرے روز یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ کے سامنے کیویز بیٹںگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم 90 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔
دبئی ٹیسٹ کے تیسرے روز یاسر شاہ نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے کسی کیوی بلے باز کو کریز پر زیادہ دیر کھڑے ہونے نہ دیا اور 41 رنز کے عوض 8 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔کین ولیمسن کی قیادت میں کیویز ٹیم اپنی پہلی اننگز میں صرف 90 رنز بناسکی جس میں 6 بلے باز بغیر کوئی رنز بنائے آو¿ٹ ہوئے۔قومی ٹیم کو نیوزی لینڈ پر 328 رنز کی برتری بھی حاصل ہوگئی، سرفراز الیون نے اپنی پہلی اننگز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 418 رنز بنا کر اننگز ڈکلیئر کردی تھی۔اس سے قبل دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں دونوں ٹیمیں ایک گھنٹہ تاخیر سے میدان میں اتریں تو کیویز نے 24 کے مجموعی اسکور سے اننگز کا آغاز کیا، جیت راول 17 اور ٹام لیتھم 5 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔دونوں بلے بازوں نے محتاط انداز اپناتے ہوئے اسکور کو آگے بڑھایا لیکن یاسر شاہ کی عمدہ بولنگ کے سامنے کوئی بیٹسمین زیادہ دیر تک کریز پر نہ رک پایا۔ گزشتہ روز پاکستان نے کھیل کے دوسرے روز اپنی پہلی اننگز 418 رنز 5 کھلاڑی آو¿ٹ پر ڈکلئیر کردی تھی جس کے بعد کیویز اوپننگ بلے باز جیت راول اور ٹام لیتھم نے محتاط انداز سے کھیلتے ہوئے 24 رنز بنائے۔

دھونی کہاں سے ملا:مشرف کا سوال واہگہ بارڈر سے ملے : گنگولی کا دلچسپ جواب

لاہور (ویب ڈیسک ) سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی نے انکشاف کیا ہے کہ سابق پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک مرتبہ ان سے سوال کیا تھا کہ انہوں نے مہندرا سنگھ دھونی کو کہاں سے تلاش کیا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ دھونی انہیں واہگہ بارڈر سے ملے تھے۔ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سارو گنگولی نے 2006 میں بھارتی ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف سے دھونی سے متعلق ہونے والی دلچسپ گفتگو کا احوال سنایا۔گنگولی کے مطابق، ‘مجھے آج بھی یاد ہے جب پرویز مشرف نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو دھونی کہاں سے ملا؟’جس پر میں نے ہلکے پھلکے انداز میں انہیں بتایا، ‘وہ (دھونی) واہگہ بارڈر کے قریب چہل قدمی کر رہا تھا اور ہم نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔’واضح رہے کہ واہگہ بارڈر، پاکستان اور بھارت کو لاہور اور امرتسر کے مقام سے ملانے والی سرحد کو کہا جاتا ہے۔اگرچہ دھونی اِن دنوں فارم میں نہیں ہیں، تاہم گنگولی اب بھی انہیں ایک ‘چیمپیئن’ تصور کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ انہیں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے پرفارم کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ بھارت کو 2007 کے اولین ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں عالمی چمپیئن بنانے والے وکٹ کیپر اور سابق کپتان مہندرا سنگھ دھونی کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کی ہوم سیریز اور آسٹریلیا کے دورے کے لیے 16 رکنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔

مولانا فضل الرحمان کے سینیٹر بھائی کو جسم سے چربی نکلوانا مہنگا پڑ گیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک )وفاقی وزارت قومی صحت نے جے یوآئی(ف)کے سینیٹر عطاالرحمان کی نجی ہسپتال میں کرائی گئی سرجری کا8لاکھ روپے کابل اداکرنے سے انکار کردیا، سینیٹر عطا الرحمان نے دس ماہ قبل اسلام آباد کے نجی ہسپتال سے جسم کی فالتو چربی نکالنے کیلئے سرجری کرائی ، جس کیلئے آٹھ لاکھ روپے ادائیگی کی گئی۔ سینیٹ سیکرٹریٹ نے سینیٹر عطاءالرحمان کو مذکورہ رقم سرکاری خزانہ سے واپس دینے کیلئے وزارت قومی صحت کو میڈیکل بل منظوری کیلئے بھجوایا، وفاقی سیکرٹری وزارت قومی صحت کیپٹن (ر)زاہد سعید نے ڈپٹی ڈائریکٹر جنر ل ڈاکٹر مہناج السراج کے میڈیکل بل پراعترا ضات کومنظور کرتے ہوئے سینیٹر عطا الرحمان کو سرکاری خزانہ سے آٹھ لاکھ روپے ادا کرنے سے انکار کردیا،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مہناج السراج نے سینیٹر عطاالرحمان کے میڈیکل بل پر اعتراض لگایا ہے کہ مذکورہ علاج کاسمیٹک سرجری ہے یہ جان بچانے کے زمرے میں نہیں آتاجبکہ پمزہسپتال میں مذکورہ سرجری کی سہولت دستیاب ہے اس لیے نجی ہسپتال سے سرجری کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔

کیا فانوس سے بھی کوئی عورت شادی کر سکتی ہے ؟ گوری نے ایسا کام کر دیا کہ سب دنگ رہ گئے

لندن (ویب ڈیسک )آدمی کو بسااوقات کوئی چیز بہت زیادہ پسند آ جاتی ہے اور وہ اسے خرید کر گھر میں سجا لیتا ہے اور بس، کہ اس سے زیادہ کسی مادی چیز کی محبت میں آدمی کہاں تک جا سکتا ہے لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ برطانیہ میں خاتون کو فانوس سے اس قدر محبت ہے کہ اس نے اس سے شادی کر رکھی ہے اور اسے بانہوں میں لے کر سوتی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق برطانوی شہر لیڈز کی34سالہ امینڈا لبرٹی نامی اس خاتون نے یہ فانوس خریدوفروخت کی ویب سائٹ ’ای بے‘ پر دیکھا تھا۔ چنانچہ اس نے جرمنی سے یہ فانوس درآمد کروا لیا اور اس کے ساتھ نہ صرف شادی کر لی بلکہ اپنے اس محبوب شوہر کی محبت میں اس کی شکل کا ٹیٹو بھی اپنے بازو پر بنوا لیا ہے۔امینڈا دیگر کئی طرح کے خوبصورت فانوس بھی خرید رکھے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ اسے ان سے جنسی تسکین ملتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب امینڈا میں ایک عارضے کی تشخیص ہوئی ہے، جسے ” آبجیکٹم سیکسوئل ‘ ‘(Objectum Sexual)کہا جاتا ہے۔ یہ ایسا عارضہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص کو مادی چیزوں سے جنسی تسکین ملتی ہے اور اس کے لیے مادی چیزیں انسان شریک حیات کا متبادل بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امینڈا کو اس فانوس سے محبت ہے اور وہ اس سے شادی بھی کر چکی ہے۔ امینڈا نے یہی ایک نہیں بلکہ کئی اور بھی مہنگے ترین فانوس خرید کر گھر میں سجا رکھے ہیں۔

بھارت دو پاکستانی طلبا کے مذاق سے بھی خوفزدہ ہو گیا

لاہو ر ( ویب ڈیسک ) گذشتہ دنوں دو پاکستانی طلبا نے سوشل میڈیا پر گنڈا سنگھ بارڈر پر لی گئی ایک تصویر پوسٹ کی اور ساتھ مذاقاً ”فتح” کا کیپشن دے دیا لیکن بھارتی حکام نے اس تصویر اور کیپشن کو بنیاد بنا کر پاکستانی طلبا کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بھارت نے اس تصویر کو بنیاد بنا کر فیصل آباد کے 2 طلبا کو دہشتگرد ظاہرکرکے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔فیصل آباد سے رائیونڈ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے آئے دوطلبا محمد ندیم اور حافظ محمد طیب گنڈا سنگھ بارڈر دیکھنے گئے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ بھارتی پولیس اورمیڈیا ان کو دہشتگرد بنا کر پیش کریں گے۔بھارتی پولیس نے دونوں پاکستانی طلبا کی گنڈا سنگھ بارڈر پر لی گئی تصاویر کو بنیاد بنا کر دونوں طلبا کو دہشتگرد قراردے کر پوسٹر آویزاں کردیئے۔ یہی نہیں بلکہ نئی دہلی پولیس نے ایک الرٹ بھی جاری کیا جس میں کہا کہ کالعدم تنظیم جیش محمد کے دو دہشتگرد شہرمیں داخل ہوچکے ہیں۔بھارتی میڈیا نے بھی فوراً ممبئی حملوں جیسا معاملہ قرار دے کر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا۔اسی دوران نئی دہلی پولیس نے داعش سے تعلق کے شبہ میں 3 مشتبہ دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کردیا۔ نئی دہلی پولیس حکام کے مطابق دہشتگردوں کے داخلے کی انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ تینوں دہشتگردوں کو جموں اور کشمیر کے علاقہ کوٹھی باغ کے قریب سے گرفتار کیا گیا جبکہ ان کے قبضے سے دستی بم اور اسلحہ بھی برآمد ہوا۔لیکن بھارت کی پاکستان کے خلاف یہ سازش جلد ہی بے نقاب ہوگئی۔ تفتیش کے بعد علم ہوا کہ تصویر میں موجود دو طلبا محمد ندیم اور حافظ محمد طیب جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے طالبعلم ہیں جو تفریح کی غرض سے گنڈا سنگھ بارڈر گئے اور مذاق میں بارڈر پر لی گئی اپنی تصویر کے ساتھ ”فتح” کا کیپشن دے دیا جس کو دیکھتے ہی بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور دونوں طلبا کو دہشتگرد قرار دے کر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بھارت کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بھارت اتنا کمزور ہے کہ کبھی کبوتر، کبھی کتوں اور کبھی صرف ایک تصویر سے ہی ڈر جاتا ہے۔

یاسر شاہ چھاگئے، ایک ہی اوور میں کتنے کیوی شکار کرڈالے؟ جان کر آپ کو بھی فخر ہوگا

دبئی (ویب ڈیسک) پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین کھیلے جارہے دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران یاسر شاہ نے کیویز کے کشتوں کے پشتے لگادیے۔ صرف ایک ہی اوور میں تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا کر میچ پر شاہینوں کے مضبوط پنجے گاڑ دیے۔تیسرے روز کے کھیل کے دوران کھانے کے وقفے تک نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلی اننگ میں 63 رنز بناچکی ہے جبکہ اس کے 4 کھلاڑی آﺅٹ ہوئے ہیں۔ لیگ سپنر یاسر شاہ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی اوور میں تین شکار کیے۔ انہوں نے سب سے پہلے لیتھم کو نشانہ بنایا جس کے بعد دوسری گیند پر ٹیلر بھی چلتے بنے۔ اس کے بعد یاسر شاہ نے نکولس کو ٹھکانے لگا کر نہ صرف کیویز پر پریشر بڑھادیا بلکہ میچ پر شاہینوں کی پوزیشن بھی مضبوط کردی۔ یاسر شاہ نے تینوں کھلاڑیوں کو ایک ایک گیند کے وقفے سے آﺅٹ کیا۔ اس سے قبل پہلی اننگ میں گرین شرٹس نے 5 وکٹوں کے نقصان پر 418 رنز بنا کر اننگ ڈیکلیئر کردی تھی۔

‘زندگی کے 32 سال جیل میں ایسے گزرے جیسے اپنے گھر میں ہوں’

کراچی (ویب ڈیسک)جیل ایک ایسا لفظ جسے سنتے ہی ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ، اللہ نا کرے کوئی بھی کبھی جیل جائے کیونکہ جیل بھی کوئی جانے کی جگہ ہے۔ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے لیے صرف دو شعبے ہی زیادہ تر قابل عزت سمجھے جاتے ہیں ایک ڈاکڑی اور دوسرا ٹیچنگ۔ جیل کی نوکری اگر آج بھی کسی لڑکی کو مل جاتی ہے تو خاندان، رشتہ داروں کو سو طرح کے تحفظات ہوتے ہیں۔ اسی لیے جیل خانہ جات کی نوکریوں کے لیے اکثر مرد ہی موضوع سمجھے جاتے ہیں۔توحید دن کا آغاز قیدی خواتین سے اپنے بیرک کی صفائی کی نگرانی سے کرتی ہیں۔لیکن ایک ایسی خاتون بھی جو گذشتہ 32 سال سے جیل میں نوکری کر رہی ہے اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتی ہے۔ ان سے ملنے کے لیے مجھے صوبہ خیبر پختونخوا کی قیدیوں کی گنجائش کے لحاظ سے سب سے بڑی جیل ‘سنٹرل جیل مردان’ جانا پڑا۔مردان جیل میں اس وقت تقریباً 1720 کے قریب مرد، خواتین اور نابالغ موجود ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد 80 کے قریب ہے اور بیشتر کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے بھی رہتے ہیں۔جو قیدی خواتین کورٹ میں تاریخ کی سنوائی کے بعد واپس آتی ہیں توحید ان کے سامان کی تلاشی کرتی ہیںتوحید بیگم جن کا تعلق چارسدہ سے ہے، انھوں نے اپنی زندگی کے 32 سال صوبے کی 18 جیلوں میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے گزارے۔ آج کل وہ سنٹرل جیل مردان میں ‘ہیڈ کانسٹیبل’ کے عہدے پر کام کر رہی ہیں اورعنقریب وہ جیل کی اس نوکری سے ریٹائر ہونے والی ہیں۔توحید بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جیل کی نوکری میں عورتوں کی حفاظت اور عزت زیادہ ہے کیونکہ یہاں زنان خانے میں کوئی مرد نہیں آتا، یہاں صرف ان کے ساتھ لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ ہوتی ہیں۔دن کے ایک مخصوص وقت میں تمام قیدی خواتین ایک جگہ بیٹھ کر توحید اور جیل کی لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتی ہیں۔توحید بیگم نے بتایا کہ ‘میں نے سنہ 1977 میں میڑک کی تعلیم حاصل کی اور جیل خانہ جات کی نوکری 1986 میں شروع کی اور اپنی مرضی سے اپنے لیے اس نوکری کا انتخاب کیا۔ اس زمانے میں چونکہ تعلیم اتنی عام نہیں تھی تو میرے رشتہ داروں اور محلے کے لوگوں نے میری جیل کی نوکری پر بہت اعتراض کیا اور میرے بارے میں اکثر کہتے تھے کہ ‘وہ دیکھو جیلر جا رہی ہے اور مردوں کہ ساتھ کام کرتی ہے’ لیکن میں نے لوگوں کی باتوں پہ کبھی دھیان نہیں دیا کیونکہ اگرآپ خود ٹھیک ہیں تو کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔’جیل کے اندر ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی دکان بھی ہے اور وہاں سے آنے کے بعد توحید سامان کی تلاشی b[y لیتی ہیںمردان جیل میں اس وقت موجود لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ رابعہ امین نے بتایا کہ ‘توحید جیسی بہادر خواتین ہی ہیں جن کو دیکھ کر آج کل نوجوان لڑکیاں بھی جیل خانہ جات کی نوکری کی طرف آرہی ہیں، میں نے ان کو بہت پروفیشنل پایا، یہ قیدیوں کے ساتھ بہت تحمل سے بات کرتی ہیں۔’ہر بیرک کی خواتین آکر توحید سے روٹیاں لے جاتی ہیںتوحید بیگم نے بی بی سی کو بتایا: ‘خواب میں بھی میں اچانک اٹھ بیھٹتی ہوں اور لگتا ہے کہ فلاں بیرک میں خواتین آپس میں تیز تیز بات کر رہی ہیں اور مجھے ان کو جا کر منع کرنا ہے۔ کیونکہ ساری عمر ہی یہیں گزر گئی اور یہ لوگ ہی اب اپنے لگتے ہیں۔’توحید تمام بیرک کی نمبردار قیدی خواتین کے ساتھ ایک میٹنگ کرتے ہوئے۔توحید بیگم کے دن کا آغاز صبح چھ بجے جیل سے ہوتا ہے انکے پاس قیدیوں کے تمام کاموں کی نگرانی کرنا ہے جن میں انکے سامان کی باقاعدہ تلاشی لینا بھی شامل ہے جب بھی وہ تاریخ سے واپس آتی ہیں یا انکے گھر والے قیدی خواتین کے لیے سامان لاتے ہیں۔یہ ایک سزائے موت کی قیدی کا سیل ہے جہاں اندر جانے کی اجازت صرف توحید کو ہےدوپہر میں وہ قیدی خواتین کو روٹیاں تقسیم کرتی ہیں۔ مردان جیل میں سزائے موت کی تین خواتین بھی ہیں جن کے پاس جانے کی اجازت صرف توحید بیگم کو ہے وہ انکے پاس جاکر انکے مسائل سنتی ہیں اور پھر انھیں اپنے افسران تک پہنچاتی ہیں۔توحید نے زندگی کے 32 سال جیل خانہ جات کی نوکری کرتے ہوئے گزارےتوحید بیگم کہتی ہیں کہ زندگی کے جیل میں گزارے 32 سال ایسے لگتے ہیں جیسے کل کی بات ہو، ’جب میں آئی تھی تو میں ایک کمزور لڑکی تھی اور آج میں ایک خود مختار اور بہادر عورت ہوں جسے معاشرے میں رہنے کے آداب آ گئے ہیں۔‘