لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ راﺅ انوار ے بارے جو ہونا تھا وہ سپریم کورٹ میں ہو گیا اب وہ اپنے گھر پہنچ گئے ہیں جہاں حکومت ان کے ساتھ ہے اور پولیس بھی اپنی ہے لہٰذا اب وہاں سے خیر خبر ہی آئے گی اور کچھ نہیں ہو گا۔ اگر کسی صوبے کا ہوم وہیلتھ سیکرٹری کسی کے بیمار ہونے کی میڈیکل رپورٹ دے دیں تو دنیا کی کوئی عدالت اس کو جیل میں رکھنے کا نہیں کہہ سکتی۔ بیوقوف لیڈر جیل میں بیٹھے رہتے ہیں، عقلمند و کھاتے پیتے لوگ کبھی جیل میں نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نوازشریف کی اہلیہ بیمار ہیں تو عدالت حکم دے سکتی تھی کہ ایک ہفتے کے اندر پیش ہوں۔ ہماری عدالتوں نے ماضی میں تو ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھا ہے، سمجھ نہیں آیا کہ اس آرڈر کا کیا مقصد ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ کے حامی ”نواز و مریم کی حاضری سے استثنیٰ کی اپیل مسترد“ ہونے کو بہت ایشو بنا رہے ہیں۔ دعا ہے بیٹی مریم کی والدہ مکمل صحت یاب ہوں، انسانی بنیادوں پر ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ یہ سمجھ نہیں آیا کہ دونوں باپ بیٹی ایک دو روز قبل جا سکتے تھے پھر انہوں نے اپیل کے مسترد ہونے کا انتظار کیوں کیا؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے سیاسی ایشو بنانا چاہتے ہیں۔ انتظار کر کے عدالت سے ”نو“ بلوا کر ایشو بنانا مقصود تھا تو اچھا شو کیا اگر جانا ہوتا تو شہباز شریف بھی تو چلے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیری رحمان کا سینٹ میں قائد حزب اختلاف بننا نون لیگ کے لئے نہیں بلکہ اعظم سواتی و پی ٹی آئی کے لئے دھچکا ہے۔ دونوں کے سنیٹرز کی تعداد کم و بیش برابر ہے۔ زرداری کی کامیابی ہے کہ اس نے اپنی جماعت کے باہر مختلف گروپس کو منا لیا۔ آصف زرداری سب پر بھاری والی بات ثابت ہو رہی ہے۔ اعظم سواتی بڑے مالدار آدمی ہیں لیکن وہ پیسوں سے بھی سنیٹرز خرید نہیں سکے۔ پی ٹی آئی نے بڑے دعوے کئے تھے۔ شیری رحمان اچھی و پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ ہمارے پیشے سے ان کا تعلق ہے۔ اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ ایڈیٹر ہوا کرتی تھیں۔ صحافت سے سیاست میں آئیں، وزیراطلاعات بھی رہ چکی ہیں ان کے قائد حزب اختلاف بننے سے ذاتی طور پر خوشی ہوئی لیکن افسوس ہوا کہ تحریک انصاف میں پارٹی سے باہر کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی صلاحیت نہیں اس معاملے میں وہ زرداری سے بہت پیچھے ہے۔ انہوں نے پرانی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر کی حکومت میں اظہر سہیل مرحوم ان کے میڈیا ایڈوائزر تھے جو خبریں کے بہت خلاف تھے۔ ایک دن انہوں نے ہمارے دفتر کے 14 کے 14 فون بند کروا دیئے، الزام لگایا کہ ان نمبروں سے وزیراعظم ہاﺅس میں گالم و گلوچ والی کالز آتی ہیں۔ میں وفاقی محتسب کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے فون پر بات کی، ان سے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ شرارت کی گئی ہے ہم بھلا ایسا کیوں کریں گے۔ انہوں نے فوری تمام فون بحال کر دیئے۔ بے نظیر سلیقے والی، سمجھ دار خاتون تھیں اتنی چھوٹی حرکتیں وہ نہیں کر سکتیں یہ مجھے یقین تھا۔ ملاقات میں بے نظیر کو بتایا تو انہوں نے خود معذرت کی۔ حاجی نواز کھوکھر دوست تھے ایک بار گورنر ہاﺅس لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی تو ان کو بتایا کہ آپ کے وزیراعظم ہاﺅس سے ہمارے ساتھ آئے روز کوئی نہ کوئی شرارت ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے ایک منٹ میں مجھے منا لیا، کہا کہ جو ہو گیا اس کی معافی چاہتا ہوں لیکن آج کے بعد اگر میری حکومت کی جانب سے زیادتی ہوئی تو آپ براہ راست مجھے فون کیجئے گا پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا ضیا صاحب دوستی پکی ہونی چاہئے آج میں حکومت میں ہوں کل اپوزیشن میں ہوں گا۔ اگر مخالفت ہے تو نیوٹرل ہو جائیں، اگر نیوٹرل ہیں تو ہمارے ساتھ آ جائیں۔ پیپلزپارٹی ایسی مفاہمت کی پالیسی کسی کو بھی قائل کر لیتے ہیں یہ ان میں خوبی ہے۔ آصف زرداری سے ملاقات ہوتی رہتی ہے پچھلے دنوں بھی میں اور امتنان شاہد ان کے کھانے پر گئے ہوئے تھے۔ زرداری گفتگو کے آرٹ میں ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑی سنجیدگی سے 8,6 ماہ سے پانی کے مسئلے پر کام کر رہا ہوں۔ پانی کی کمی کے مسئلے پر ملک میں رواں سال دونوں جھیلوں سے اطلاعات آ چکی ہیں کہ وہ خطرناک لائن سے نیچے جا چکے ہیں۔ 12 سال بعد خشک سالی کا سال جا رہا ہے۔ صرف مضمون نہیں لکھتا مختلف جگہوں پر جاتا بھی ہوں۔ پانی کے مسئلے پر چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی، انہیں کہا کہ یہ پاکستان میں کیس نہیں ہو گا انٹرنیشنل واٹر کورٹ میں جا کر انوائرمنٹ کا پانی لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاک بھارت انڈس واٹر معاہدہ 1960ءکا ہے۔ دنیا میں انٹرنیشنل واٹر کنونشن منعقد ہوتا ہے اس میں چارٹر بنایا گیا تھا اسے اقوام متحدہ نے دنیا کے عالمی قوانین مسئلہ کے طور پر منظور کر لیا۔چنانچہ 1970ءسے صورتحال 60ءکی نسبت بہت مختلف ہے۔ انٹرنیشنل واٹر کنونشن میں 1970ءمیں قانون بنا کر زیریں حصے کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے کہ ستلج و راوی کو شٹر ڈال کر بند کر دیا گیا ہے۔ ایسے دریا بھی ہیں جو 12 ملکوں سے گزرتے ہیں۔ زیریں حصے کے لوگوں کو اجازت دی گئی کہ معاہدے کے تحت یا زبردستی آپ کا پانی 100 فیصد بند نہیں کر سکتے یہ انوائرمنٹ کا قانون ہے جو 70 میں بنا۔ اب دنیا میں سشب سے زیادہ یہی قابل استعمال ہے۔ انوائرمنٹ سے مراد گھریلو استعمال کا پانی، نباتات کا پانی اور آبی حیات ہے۔ جب 60ءکا معاہدہ ہوا تو 63ءمیں مکمل پانی بند ہو گیا۔کٹنگ موجود ہے اس وقت دریا کے کنارے بسنے والے 72 ہزار خاندان بے روزگار ہو گئے تھے کیونکہ وہ مچھلیاں پکڑ کر روزی کماتے تھے۔ پانی کی کمی کے مسئلہ پر میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، چیف جسٹس پاکستان و آرمی چیف کے پاس بھی گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں ملتان سے میٹرک کر کے لاہور آیا تھا تو ساڑھے 10 فٹ پر ہینڈ پمپ لگا کر پانی مل جاتا تھا۔ راوی میں کشتی مقابلے جیتے ہوئے ہیں، اس وقت پانی صاف تھا اب گندا ہے۔ اب 650 فٹ پر واسا کے ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں۔ آخری ٹیوب ویل پنجاب اسمبلی کے پیچھے نئی عمارت کیلئے لگایا گیا ہے جو 1350 فٹ نیچے لگا ہے۔ نیچے جو پانی ہے اس کی کوالٹی خراب ہو چکی ہے۔ اس میں خطرناک زہر آرسینک معمولی مقدار میں شامل ہے۔ اس وقت پنجاب کے اکثر حلقوں میں خصوصاً سابق ریاست بہاولپور اور پنجاب کا مشرقی حصہ حتیٰ کہ لاہور کے اردگرد میں بھی نیچے پانی میں آرسینک زہر کی معمولی مقدار شامل ہے۔ جس سے ہیپاٹائٹس سی، کینسر، گردے، جگر، آنکھیں اور جلدی امراض پھوٹ رہے ہیں۔ اگر انوائرمنٹ کے نام پر ہی دریاﺅں میں 10 سے 15 فیصد ہی پانی آ جائے تو صورتحال بہتر ہو جائے گی کیونکہ جب پانی بہتا رہتا ہے تو نیچے پانی کی سطح برقرار رہتی ہے۔ ہم انٹرنیشنل واٹر کورٹ میں شاید اس لئے نہیں پہنچ رہے کہ مجھے وزیراعظم شاہد خاقان نے کہا تھا کہ ضیا صاحب ہم کیا کریں انڈس واٹر معاہدے کا گارنٹر ورلڈ بینک تھا ہم اس کو لکھتے ہیں لیکن 7 سال سے وہ کچھ نہیں کر رہا۔ اس پر میں نے کہا کہ وزیراعظم صاحب اگر وہ 50 سال ریفر نہ کریں تو کیا ہم اپنی نسلیں اجاڑ دں گے؟ انہوں نے کہا کہ مودی کا یہ کہنا کہ ”پاکستان کو بھوکا پیاسا دیکھنا چاہتا ہوں۔“کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان بننے کے ساڑھے 4 مہینے کے بعد اخبارات میں پنڈت نہرو کا بیان چھپا تھا کہ ہمیں پاکستان کی کوئی پرواہ نہیں یہ اپنی موت خود مر جائے گا کیونکہ وہاں پانی نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کی پراسرار موت پر پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے مجھے فون کیا۔ ان کا الزام ہے کہ وہاں عمران خان کے جلسے میں انڈے و ٹماٹر پھینکے جانے تھے اور جوتا بھی چلنا تھا۔ ڈی سی او نے کہا کہ اس بدتمیزی کی اجازت نہیں دوں گا۔ جس پر مسلم لیگ کے کچھ انتہا پسندوں نے ان کو قتل کیا یا پھر شدید دباﺅ ڈالا ہے لہٰذا ان کا فون فرانزک ٹیسٹ کرایا جائے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کون لوگ تھے جنہوں نے ان کو فون کئے۔ یہ تحریک انصاف والوں نے الزام لگایا ہے مجھے یقین ہے کہ چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب و رانا ثناءاس کی مکمل تحقیقات کرائیں گے اگر پراپیگنڈا ہوا تو واش ہو جائے گا۔ حقیقت ہے تو عیاں ہو جائے گی۔ تجزیہ کار نے کہا کہ 24 یا 25 مارچ کو روزنامہ خبریں میں 2صفحات پر مشتمل ایڈیشن دیں گے کہ مرنے کے بعد اعضاءعطیات کرنے کے لئے کن اداروں سے اور کیسے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے مجھے متعدد لیٹر و میسجز ملے ہیں، لوگ خود کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ودود قریشی سے بھی کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جائیں اور معلوم کریں ان کے پاس یہ مسئلہ گیا تھا انہوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔صحافی میاں غفار نے کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کا بلائنڈ قتل ہے۔ یہ مافیا کا قتل ہے اسے معمولی نہیں لینا چاہئے۔ جو خود پھانسی لیتے ہیں وہ کسی کرسی پر کھڑے ہو کر گلے میں پھندا ڈال کر اسے دھکا دیتے ہیں جبکہ وہاں صرف ایک بند تھی جو اتنی بھاری ہے کہ اسے دھکا نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے گلے میں لٹکے کپڑے سے زخم نہیں ہو سکتا جبکہ ان کے گلے پر 2 زخموں کے نشان ہیں۔ گلے پر ایک تار بھی لپٹی ہوئی تھی۔ ہاتھ پیچھے سختی سے بندھے ہوئے تھے۔ اسی طرح کا اسلام آباد میں ایف آئی اے کے انسپکٹر کا قتل بھی ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دفتر و قریبی لوگوں نے بتایا ہے کہ حکمران، وزراءان کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ جس بستر پر انہوں نے سونا تھا اس کا کمبل اسی طرح پڑا تھا۔ ان کے صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بھی ثبوت ملے ہیں۔ یہ خودکشی نہیں ہو سکتی۔ ان کے والدین عارف والا کے ہیں جو زیادہ چل پھر نہیں سکتے جبکہ ان کی بیوی بچے لاہور میں رہتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ان پر شدید دباﺅ تھا۔