لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ دو روز پہلے اپنے پروگرم میں انکشاف کیا تھا کہ برما میں چین کی مداخلت ہے، وہ وہاں گوادر ٹو بنا رہا ہے تا کہ برما کے ذریعے خلیج بنگال و بحر ہند تک پہنچ سکے۔ یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ مسلمانوں کی انتہا پسندی کے باعث چائنہ نے اپنا کنٹرول سخت کر لیا۔ جس پروگرام میں میں نے یہ انکشاف کیا اسی رات 11:15 بجے ایک امریکی نیوز ایجنسی کی ایک خبر سے میری بات کی تصدیق ہو گئی۔ اس کی خبر کے مطابق امریکہ نے کہا ہے کہ چینی صدر نے برما کی وزیراعظم کو کہا ہے کہ کارروائیوں کو مزید سخت کر دے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ چینی صدر کے ایک فون پر برما میں قتل عام رک سکتا ہے، ہم سب کو مل کر اپنے بہترین دوست ملک سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہاں مظلوم مسلمانوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ چائنہ اس کا ذمہ دار ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ ایک فون کال کے ذریعے یہ کام کر سکتا ہے۔ پرامن برما کیلئے چین نے ہمیشہ حمایت کی ہے، ہم بھی امن چاہتے ہیں لیکن اس کا مطلب لوگوں کو اس طرح ذبح کرنا نہیں ہے۔ چینی پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ چونکہ روہنگیا میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کر لی ہے، اب کہیں وہاں موجود انتہا پسند مسلمانوں کی مدد کے لئے پوری دنیا سے لوگ آنا شروع نہ ہو جائیں۔ انتہا پسندی کی حمایت ہم بھی نہیں کرتے لیکن جو ایسے نہیں ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ چودھری نثار کا ”پاکستان کی سالمیت کو خطرے“ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اس وقت سے جڑتا ہے جب ایران کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے اندر جا کر کارروائی کریں گے اور بھارت کہہ رہا تھا کہ سرجیکل سٹرائیک کریں گے۔ چودھری نثار نے اس وقت کی صورتحال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس وقت جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے ان کی درحواست پر اجلاس ہوا، جس میں سابق ومیراعظم نوازشریف اور چودھری نثار بھی شامل تھے۔ سابق وزیر داحلہ 2 دفعہ کہہ چکے ہیں کہ اس اجلاس میں 2 سویلین اور 2 آرمی کے لوگ تھے۔ راحیل شریف کے علاوہ ایک اور آرمی آفیسر اجلاس میں موجود تھا۔ سابق آرمی چیف نے کچھ نقشے اور رپورٹس دکھا کر خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ملکی سالمیت کو شدید خطرہ ہے۔ راحیل شریف نے 3 مثالیں دی تھیں کہ انڈیا و ایران کی طرف سے سانحہ کارساز، سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور جی ایچ کیو حملے جیسی کارروائیوں کا خدشہ ہے۔ پوری دنیا میں امریکن سپانسر شپ کے ساتھ ایک فضا قائم کی جائے گی جس کی وجہ سے اس قسم کے اور بہت سے واقعات ہوں گے۔ پاکستان کے اندر دہشتگردی کی اتنی کارروائیاں ہوں گی کہ 3,2 ہفتے کے اندر اندر اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کا ہننگامی اجلاس بلایا جائے گا اس میں کہا جائے گا کہ پاکستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے خطرہ ہے کہ ایٹمی اثاثے دہشتگردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ یہ منصوبہ بن چکا تھا اور اجلاس میں اسی پر بات ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ سلامتی کونسل ایک یو این او کے زیر اہتمام ایک امن فورس پاکستان بھیجے گی جو صرف ہمارے ایٹمی اثاثوں کی نگرانی کرے گی۔ فیصلہ یہ کیا جائے گا کہ امن فورس کی سربراہی کسی مسلمان ملک کے سپرد کر دی جائے گی۔ اس کیلئے پہلے ایران و مصر کا انتخاب کیا گیا پھر کہا گیا کہ کوئی مصری جرنیل سربراہ ہوں گے جو بظاہر مسلم ملک کے لیکن امریکہ کے اشاروں پر چلیں گے۔ جب امریکہ آ جائے گا تو پوری دنیا میں پروپیگنڈا کیا جائے گا کہ آخر اس کی حفاظت کب تک کریں گے لہٰذا اس کو ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ جب یہ ساری صورتحال پیدا ہو جائے تو پھر شواہد اکٹھے کئے جانے تھے کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام کس کس ملک کو ٹرانسفر کر چکا ہے۔ جن میں ایران، لیبیا اور کوریا شامل ہیں۔ ایک بار پوری دنیا میں شور مچا تھا کہ لیبیا پاکستان میں فنڈنگ کر رہا ہے۔ امریکن اور بعض تھنک ٹینک کا اس وقت بھی الزام تھا کہ بھٹو دور میں لیبیا نے ابتدائی طور پر 20 کروڑڈالر پاکستان کو دیئے تھے جس کے بدلے میں پاکستان نیو کلیئر کے حوالے سے کچھ نہ کچھ دے گا۔ امریکہ کی آنکھوں میں پاکستان کھٹکتا ہے، واحد مسلم ملک ہے جو زبردستی ان کے ایٹمی کلب میں داخل ہو گیا تھا۔ اسی وجہ سے اب انڈیا بھی امریکہ کا رائٹ ہینڈ بن گیا ہے۔ دونوں دن رات اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگرد کارروائیاں کروا کر سلامتی کونسل کے ذریعے ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ میری معلومات کے مطابق اس اجلاس میں نوازشریف خاموشی سے سنتے رہے، چودھری نثار نے کہا کہ فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے پھر نوازشریف کو بھی ان کی حمایت کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کے مرکزی وزیر نے کہا ہے کہ ”نوازشریف پر ان کی بہت سرمایہ کاری ہے“ حکومت کو چاہئے کہ اس بیان کی وضاحت کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقامہ کی وجہ سے نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا اور کلثوم نواز کی دفعہ اقامہ کی کوئی اہمیت ہی نہیں، الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مل گئی۔ لگتا ہے کہ نوازشریف کی واپسی اب دنوں کی بات ہے، ایسی فضا ہموار ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے چند روز قبل کہا تھا کہ فیصلے میں اگر کوئی غلطیاں ہیں تو نظرثانی ہو سکتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ شیر کی آمد ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ ضیا شاہد کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہو ںنے سب سے پہلے برما میں چین کی مداخلت، مفادات اور حکومت کی حمایت کرنے کا انکشاف کیا۔ اس کی تصدیق پہلے امریکی نیوز ایجنسی کی ایک خبر سے ہوئی جب کہ گزشتہ روز کے ایک بڑے اخبار نے بھی یہ خبر شائع کی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے باعث عالمی برادری کی جانب سے برما حکومت کے خلاف دباﺅ بڑھ رہا ہے۔ 3 لاکھ کے قریب لوگ اجازت کے بغیر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت و ایران کی دھمکیوں کے بعد جنرل راحیل شریف نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ہم تتیار ہیں۔ سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن جس کی کمانڈ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے تھے اور دشمن کو اپنے ایٹمی اثاثوں کے رخ دکھا دیئے تھے۔ جس کے بعد انڈیا کو سمجھ آ گئی کہ وہ سرجیکل سٹرائیک نہیں کر سکتا اس سے بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ایران کی دھمکی میں کوئی دم نہیں، اس کی اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ اس وجہ سے امریکہ و بھارت کے یو این او کے ذریعے آنے کے امکانات تھے۔ سازش میں افغانی فوج اور دوست ملک ایران بھی شامل تھا۔