All posts by Daily Khabrain

پنجاب کی یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے؟؟

لاہور‘ کراچی (خصوصی رپورٹ) پنجاب کی پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹیوں میں انتہاپسند نظریات رکھنے والے گروپس کی طرف راغب طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جو 63سے بڑھ کر 180کے قریب پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی چار پرائیویٹ اور پانچ پبلک یونیورسٹیوں میں کالعدم اور انتہاپسند نظریات رکھنے والے گروپس کی طرف راغب طلبہ کی تعداد 180کے قریب پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد چند ماہ پہلے 63تھی لیکن ان میں ایکٹیو کیٹگری جسے بلیک ٹیگ کہا جاتا ہے کی تعداد بہت کم ہے جو ابھی پرائمری سٹیج میں ہیں۔ پنجاب کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ان طلبہ کا اپنے ہم خیال دوستوں سے سندھ خصوصاً کراچی اور حیدرآباد‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں بھی رابطہ ہے۔ یہ طلبہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر اور باہر اپنے ہم جماعتوں کو ٹارگٹ کر کے سلیکٹ کرتے ہیں اور پھر ان سے علیحدہ میٹنگز کر کے کالعدم اور انتہاپسند نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کو نہ پکڑنے کی وجہ ان کے ماسٹرز تک پہنچنا ہے‘ یعنی ملک کے اندر سے آپریٹ کرنے والے ان کے ماسٹر سلیپر سیلز‘ دہشت گرد یا انتہا پسند کے ایک چھوٹے سے کارندے کو پکڑنے سے سارا نیٹ ورک نہیں توڑا جا سکتا۔ انٹیلی جنس اداروں کے کاﺅنٹر ٹیررازم آپریشنز ایک صبر آزما کام ہے اس میں بعض اوقات کئی ماہ یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور چند ٹارگٹس کانام افشاں کرنے سے سارے آپریشن ناکام ہوسکتے ہیں۔ پنجاب میں جن دہشت گرد گروپس کے ساتھ بلیک ٹیگ والے طلبہ کے رابطے تھے ان میں داعش، حزب التحریر، صوت الامت،القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسند اور پشتون قومیت پسند گروپس شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سندھ میں حکومت اور حساس اداروں نے دہشت گردی کے نیٹ ورک سے متعلق سرکاری جامعات کو فوکس کررکھا ہے۔نجی جامعات کو نظرانداز کرنے سے مختلف علاقوں میں قائم نجی جامعات کے کیمپس میں کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک قائم ہونے کا خدشہ ہے۔ دہشت گردی کے چند واقعات میں اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ملوث نکلنے کے بعد تمام سرکاری مشینری کا مرکز نگاہ سرکاری جامعات بن گئی ہیں جس سے نجی جامعات کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔

جھوٹ کی سیاست کرنیوالوں کیخلاف وزیراعلیٰ میدان میں آگئے, بڑا اعلان کردیا

لاہور (پ ر) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام کل بھی مسلم لیگ( ن) کے ساتھ تھے اور آج بھی ان کے ساتھ ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ جمہوریت کے استحکام اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے کام کیا ہے۔ عوام جھوٹ کی سیاست سے نفرت جبکہ سچی و مخلص قیادت سے دلی لگاﺅ رکھتے ہیں ۔پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں ملک کی تیز رفتار ترقی کے لئے کئی پراجیکٹ مکمل کئے گئے ہیں اور اربوں کھربوں روپے کے منصوبوں میں کوئی بھی ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔وہ لندن مسلم لیگ ن کے ایک وفدسے گفتگو کررہے تھے۔وزیر اعلی محمد شہبازشریف نے کہا کہ ہمارے دور میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدامات تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ محنت، دیانت اورعزم سے توانائی منصوبوں کو شفافیت اورتیزی سے مکمل کیاگیاہے جس سے لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حالات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئے ہیںاور چار برس پہلے کے مقابلے میں پاکستان اب کہیں زیادہ پر امن، روشن ، خوشحال اور ترقی یافتہ ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کےلئے دن رات کام کیا ہے اورہماری حکومت کی مخلصانہ کاوشوں اور ٹھوس اقدامات کے باعث ہر شعبے میں بہتری آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے جو تاریخ ساز اقدامات کئے ہیں، قوم اسے ہمیشہ یاد رکھے گی اورہم ترقی کے ویژن پر مزید تیزی سے آگے بڑھیں گے اور آخری سانس تک ملک کی خوشحالی اور عوام کی ترقی کیلئے کام کرتے رہیں گے اور پاکستان کو ترقی کی بلندیوں تک لے جانے کیلئے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوام نے تبدیلی کے دعویدار کے اصل چہرے کو دیکھ لیا ہے۔ عوام باشعور ہیں، ترقی کے دشمن اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ عوام کی محبت اور ووٹ کی حمایت ہی دلوں پر راج کرنے کا واحد ذریعہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پرامن، مضبوط اور خوشحال پاکستان کی منزل کا حصول ہمارا مشن ہے اور وطن عزیز کو قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان بنانے کیلئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ سفر مکمل کرکے دم لے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے مسلم لےگ(ن) کو خدمت خلق کا مےنڈےٹ دےا ہے اورپاکستان مسلم لےگ(ن) کی سےاست عوام کی ترقی اورخوشحالی کی سےاست ہے جبکہ دوسری طرف منفی سےاست کرنے والے ملک کو پےچھے دھکےلنا چاہتے ہےںاورےہ عناصر ملک سے انتہاءپسندی،غربت،بے روزگاری اوراندھےروں کا خاتمہ نہےں چاہتے ۔عوام کی خدمت ان لوگوں کے بس کا کام نہےںجن کی سےاست صرف جھوٹ اورالزام تراشی کے گرد گھومتی ہے ۔الزام تراشی کے ماہر اےک سےاستدان نے جھوٹ بولنے کے تمام رےکارڈ توڑ دےئے ہےں اورےہ ناعاقبت اندےش عناصر صرف سےاست برائے اقتدار کےلئے ملک وقوم کی تقدےر کو داو¿پر لگارہے ہےں ۔ ملک مےں محاذ آرائی،افراتفری اور بے چےنی پھےلانے کے ذمہ د اروں کو قوم اور تارےخ کبھی معاف نہےں کرے گی۔وزےراعلیٰ نے کہا کہ سابق کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن اورلوٹ مار نے پاکستان کو بدحال کردےا تھا اورجب پاکستان مسلم لےگ (ن) کو اقتدار ملا تو ملک مےں ہر طرف اندھےرے اور ماےوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔کرپٹ ٹولے کی لوٹ مار ،اقرباءپروری اور بدعنوانےوں کے باعث قومی ادارے تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے تھے۔انہوںنے کہا کہ سےاسی بنےادوں پر قرضے معاف کرانےوالوں اور بےنکوں پر اربوں روپے کے ڈاکے ڈالنے والوںکے چہروں سے قوم بخوبی واقف ہے۔
شہباز شریف

اب تک ہونے والے ضمنی الیکشنوں میں کس پارٹی کی پوزیشن نمبر ون رہی ،دیکھیئے خبر

پشاور (اے پی پی )قومی اسمبلی کے34اورصوبائی اسمبلیوں کے63 یعنی (کل97 )حلقوں پرضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن 43نشستوں پرکامیابی کے ساتھ سرفہرست ہے، پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی16، 16نشستیں جیت کر دوسری بڑی جماعتیں رہیں۔دیگر جماعتوں میں ایم کیوایم9،آزاد7،جے یوآئی3 اوراے این پی ،نیشنل پارٹی اور پختونخواعوامی پارٹی ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کرسکیں۔ ضمنی انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کی15 نشستوں پرکامیابی کے ساتھ مسلم لیگ ن کاپلڑاتمام جماعتوں پر بھاری رہا۔پی ٹی آئی چھ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبرپررہی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی کے کل34 حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نے15،پی ٹی آئی نے6، پیپلزپارٹی نے5، ایم کیوایم نے3،آزاد اراکین 2 جبکہ اے این پی،جے یوآئی،پختونخواملی عوامی پارٹی کے ایک ایک امیدوارکامیاب ہوئے۔ صوبہ پنجاب میں کل32صوبائی اسمبلی کی نشستوں پرضمنی انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ ن نے23، پی ٹی آئی نے پانچ اور پیپلزپارٹی نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ دوآزاداراکین بھی منتخب ہوئے ۔ سندھ کی 14صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں دوہی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے جن میں8نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی پہلے اور ایم کیوایم 6 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبرپررہی ۔خیبرپختونخوا اسمبلی کی 11نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پانچ نشستوں کے ساتھ پی ٹی آئی پہلے نمبرپررہی، مسلم لیگ ن اور آزاد اراکین دودونشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ جے یوآئی اور پیپلزپارٹی ایک ایک نشست پر کامیابی کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہیں۔

سراج الحق کا برما بارے بیان ،حکومت سے اہم مطالبہ کردیا

کر اچی(آن لائن)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے بزدلانہ اور مجرمانہ رویہ ترک کرے ، برما کے سفیر کو ملک بدر کر کے برما سے سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں ،مسلم حکمران اور مسلم ممالک کی اسلامی فوج کیا کررہی ہے ،برما میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور ان کی نسل کشی کے خلاف مسلم حکمران اور اسلامی ممالک کی فوج خاموش کیوں ہیں ،جب تک روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ بند نہیں کیا جائے گا اور حکومت پاکستان عالمی سطح پر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی ہم قومی سطح پر احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے تحت ایم اے جناح روڈ پر ” سپورٹ روہنگیا مارچ“کے لاکھوں مرد وخواتین سے لاہور سے ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مارچ کا انعقاد روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اور بدھسٹ حکمرانوں اور برما کی افواج کے انسانیت کے مظالم پر بڑی طاقتوں ، اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور مسلم حکمرانوں کی خاموشی کے خلاف کیا گیا۔مارچ سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹری لیاقت بلو چ،نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹو ،امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ،الخدمت فاو¿نڈیشن کے صدر عبد الشکور ،نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹراسامہ رضی ، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اسلم غوری ،کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی ایڈوکیٹ ،مسلم لیگ (ن)کے صوبائی سکریٹری جنرل خواجہ طارق ،مسلم لیگ (ق)کے صوبائی سکریٹری جنرل و سابق نائب سٹی ناظم طارق حسین ،گوردواراہ آرام باغ کے سردارہیرا سنگھ ،پاسٹر شہزاد بخش ،برما کمیونٹی کے نمائندے نور حسین اراکانی اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔مارچ کے لاکھوں شرکاءنے متفقہ طور پر ایک قراردادا بھی منظور کی ۔سینیٹر سراج الحق نے مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ میں اہل کراچی کو عظیم الشان مارچ پر خراج تحسین اور سلام پیش کرتا ہوں کراچی کے عوام نے فلسطین ، کشمیر ، افغانستان ، شیشان ہر جگہ کے مسلمانوں کو سپورٹ کیا ہے اور اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ آج آپ نے روہنگیا کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرکے ثابت کردیا ہے کہ کراچی ہمیشہ کی طرح زندہ اور بیدار ہے ۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق آج دنیا کی سب سے مظلوم ترین قوم روہنگیا کے مسلمان ہیں ۔ افسوس کہ عالم اسلام کے حکمران خاموش ہیں ۔ اسلامی ممالک کی فوج بھی کچھ نہیں کررہی ۔اسلامی ممالک کی فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائی گئی ہے کیا برما کے مسلمانوں پر مظالم دہشت گردی نہیں ہے؟ ۔حکومت نے ہم برما کے سفارتخانے پر احتجاج کرنے سے روکا ۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ امریکہ اور بھارت سے کیوں ڈرتے ہیں ۔ ہمارے حکمران اندھے اور بہرے بن گئے ہیں ۔جب ترکی کے صدر طیب اردگان کی اہلیہ بنگلہ دیش میں برما کے مہاجرین سے مل سکتے ہیں تو ہمارے حکمران کچھ کیوں نہیں کرسکتے ۔سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ برما کے سفیر کو ملک سے نکالا جائے اس کے سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں ۔ اقوام متحدہ کے سامنے جاکر ڈیرہ ڈال دیاجائے اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 7کے مطابق ان کی ذمہ داری ہے کہ اقوام متحدہ برما میں اپنا کردار ادا کرے ۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹری لیاقت بلو چ نے کہا کہ کراچی کے لاکھوں مرد وخواتین کا آج سڑکوں پر نکلنا بہت بڑی کامیابی ہے اور کراچی نے زندہ اور بیدار ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ آج اہل کراچی نے امت مسلمہ کے ایک جسد واحد ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے لیکن افسوس کہ انسانی حقوق کے علمبردار اور موم بتی مافیا خاموش ہے ۔انہوں نے کہا کہ نوبل انعام یافتہ سوچی کے طرز عمل نے انسانیت کو بھی شرمندہ کردیا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نوبل انعام کے چارٹر کی خلاف ورزی کرنے پر یہ انعام واپس بھی لیا جائے اور آن سان سوچی سے یہ کام شروع کیا جائے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت پاکستان نے برما کے سفیر کو بلا کر جو احتجاج کیا ہے یہ معمول کی کاروائی ہے ۔ برما سے سفارتی تعلقات ختم کر کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جائے ، اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلایا جائے اور برما کے مسلمانوں کے مظالم پر آواز بلند کی جائے ۔ اتحاد امت ہی آج امت کے مسائل کا حل ہے ۔ ترکی کے موقف کی حمائت اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔پاکستان ، ترکی ، ملائیشیا اور انڈونیشیا مل جائیں تو حالات میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آج لاہور سے شروع ہونے والا11ستمبر کا احتساب مارچ کرپٹ مافیا کے احتساب کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا ، کرپشن کے محل کھڑہا کرپٹ حکمرانوں چوروں اور لٹیروں کا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ نوازشریف توبہ کرکے لوٹی دولت قومی خزانے میں جمع کرا دیں تحریک احتساب آخری چور کے احتساب تک جاری رہے گی۔ اسلامی ممالک برمی سفیروں کو اپنے ممالک سے نکال کر سفارتی تعلقات ختم کردیں ۔روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد روکنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ۔ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں سب کا احتساب ضروری ہے۔ ملک میں موجودہ بحران حکمرانوں کی وجہ ہے وہ کسی اور کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں بڑے ادارے تباہی کے دھانے پر ہیں، حکمرانوں نے قبلہ درست نہ کیا تو مزید بحران پیدا ہوں گے۔

گجرات کے قصا ب مودی کی مُسلم دشمنی ،تمام روہنگیائی مسلمانوں کو نکل جانے کا حکم نامہ جاری

لندن، ینگون(نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی حمایت کے بعد بھارت سے بھی ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔برطانوی میڈیا کے مطابق نریندر مودی نے میانمار کے دورے کے دوران وزیر خارجہ آنگ سان سوچی سے ملاقات میں کہا تھا کہ ینگون کا دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے اور وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ینگون کی فوج کی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔مودی نے روہنگیا مسلمانوں کو بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار بھی دیا۔پناہ گزینوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں چودہ ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں۔نئی شورش کے دوران روہنگیا ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ برطانیہ اور یوروپین یونین نے روہنگیا کی صورت حال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔ دریں اثناءمیانمار میں روہنگیا باغیوں نے ایک ماہ کیلئے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ، فوج سے بھی کارروائیاں روکنے کی اپیل کر دی گئی غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار میں روہنگیا مسلمان باغیوں نے ریاست رخائن میں جاری بحران کو کم کرنے کے لیے ایک ماہ کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ارکان روہنگیا سیلویشن آرمی(آرسا)نامی تنظیم نے میانمار کی فوج سے بھی کہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔آرسا کی جانب سے 25 اگست کو ایک پولیس چوکی پر حملے کے جواب میں میانمار کی فوج وسیع پیمانے پر آپریشن کر رہی ہے۔تب سے لے کر اب تک کچھ اندازوں کے مطابق تقریبا 290000 روہنگیا نے رخائن چھوڑ کر پروسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی تنظیموں کو میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے روہنگیا کی مدد کے لیے فوری طور پر 77 ملین ڈالر درکار ہیں اور خوراک، پانی اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق لاکھوں روہنگیا مسلمان ہیں. ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں. حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ یہ میانمار کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں. ریاست رخائن میں 2012 سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے. اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے ہیں۔بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔انھیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی فوج کی طرف سے بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر بارودی سرنگیں بچھائے جانے کی تصدیق کی ہے۔تنظیم نے عینی شاہدین اور اپنے ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کم از کم ایک شہری ہلاک اور دو بچوں سمیت تین افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ریسپانس ڈائریکٹر تیرانہ حسن کا کہنا ہے کہ اپنے جانیں بچا کر بھاگنے والے نہتے افراد کے خلاف اس انتہائی گھناونی حرکت کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔بنگلہ دیش کے حکام نے بھی میانمار فوج کی طرف سے سرحد پر بارودی سرنگیں بچانے کے اقدام پر احتجاج کیا ہے۔میانمار کی فوج کے ایک اعلی اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کو بتایا کہ یہ بارودی سرنگیں نوے کی دہائی میں بچھائی گئی تھیں اور حال میں فوج نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔دریں اثنا عالمی امدادی ایجنسی ریڈ کراس میانمار میں اپنی کارروائیاں تیز کر رہی ہے کیونکہ اقوام متحدہ پر میانمار کی حکومت کی طرف سے روہنگیا باغیوں کی امداد کرنے کے الزام کے بعد اسے اپنی کارروائیاں کم کرنی پڑ رہی ہیں۔۔جنگ بندی اعکان سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی میانمارحکام سے انسانیت سوز مظالم روکنے کے لیےفوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تھا میانمار میں ظلم و تشدد سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی سرحد میں کیمپوں میں موجود روہنگیا مسلمان غذائی ضروریات اور دیگر بنیادی ضروریات کی کمی پرمشتعل ہوگئے۔میڈیارپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کی سرحد میں قائم مہاجر کیمپوں میں موجود افراد میں پانی اور خوراک کے لیے تصادم ہوا، خواتین اور بچے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتے رہے اور قریب سے گزرنے والے صحافیوں کے کپڑے کوچھوتے رہے اور اپنے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کھانے کی بھیک مانگتے رہے۔ماہرین صحت نے مہاجر کیمپوں میں بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ۔اقوام متحدہ کا کہنا تھاکہ میانمار میں فسادات کے بعد ریاست رخائن کے 3 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی جانب سے ہجرت کی۔

چین سے تاریخی دوستی کیلئے سب سے زیادہ کردار ادا کرنیوالے سابق پاکستانی حکمران بارے بی بی سی کا دلچسپ تجزیہ

لندن( بی بی سی) سنہ 1950 میں انڈیا اور پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کی کیمونسٹ حکومت کو یکے بعد دیگرے تسلیم کر لیا تھا مگر چین مغرب نواز جاگیردارانہ طبقے اور نوکر شاہی کے چنگل میں پھنسے پاکستان کے بجائے نہرو کے سوشلسٹ، غیر جانبدار، سامراج مخالف انڈیا سے خود کو زیادہ قریب سمجھتا تھا۔ مئی 1951 میں امریکہ نے شمالی کوریا کے اتحادی چین کے خلاف جنرل اسمبلی میں قرار داد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ چین کو ایسی اشیا کی برآمدات روکی جائیں جن کا فوجی استعمال ہو سکتا ہو۔ پاکستان اس موقع پر غیر حاضر رہا مگر دو ماہ بعد اس نے اس قرارداد پر رضاکارانہ عملدرآمد کا فیصلہ کر لیا۔اس تناظر میں جب پاکستانی ڈومینین کے پہلے سفیر برائے چین میجر جنرل این اے ایم رضا نے پیکنگ میں چیئرمین ماو¿زے تنگ کو اسنادِ سفارت پیش کیں تو چیئرمین نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا: ‘مجھے شاہِ برطانیہ کی جانب سے پیش کردہ کاغذات وصول کرتے ہوئے نہایت مسرت ہے۔’برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان کھچی سرحدی لکیر میکموہن لائن کی بابت چین کبھی بھی مطمئن نہیں تھا۔یہ سرحدی تنازع برٹش انڈیا سے انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی منتقل ہوا کیونکہ چین لداخ سے ہنزہ تک کی پٹی کو اپنا حلقہِ اثر سمجھتا تھا۔انیس سو ترپن میں چین کی جانب سے متعدد بار ہنزہ سے ملنے والی سرحد کی خلاف ورزی کی گئی۔ چنانچہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے خبردار کیا کہ چینی دراندازی جاری رہی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔جولائی 1953 میں کوریا میں عارضی جنگ بندی ہو گئی۔ پاکستان کو غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے امریکی گندم کی فراہمی شروع ہو گئی۔ تاہم پاکستانی وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ نے بنڈونگ میں غیر جانبدار تحریک کی پہلی چوٹی کانفرنس میں چینی وزیرِ اعظم چواین لائی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چین کے خلاف نہ سمجھیں بلکہ اسے پاک انڈیا کشیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھیں۔ جانے اس یقین دہانی پر انڈیا دوست امریکہ دشمن چواین لائی نے دل ہی دل میں کیا کہا ہوگا کیونکہ اس دور میں ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ سوویت یونین اور چین میں نظریاتی کشیدگی رفتہ رفتہ کھل کے سامنے آ گئی۔ انڈیا اور چین کا بھی ایک دوسرے سے دل میلا ہونا شروع ہو گیا کیونکہ چین نے انڈیا کو بتائے بغیر شنجیانگ کو تبت سے ملانے والی ساڑھے سات سو میل طویل ویسٹرن ملٹری روڈ مکمل کر لی۔انڈیا نے کہا کہ اس روڈ کے 112 میل ایسے علاقے سے گزارتے ہیں جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ستمبر 1959 میں ایوب حکومت کو چین کی جانب سے سرحدی نقشے موصول ہوئے جن میں ہنزہ کے درہ ِ شمشال تک کا علاقہ چین میں دکھایا گیا تھا۔اکتوبر میں انڈیا اور چین کے مابین پہلی سرحدی جھڑپ ہوئی۔ ایوب خان نے انڈیا کو شمال کی جانب سے بحرِ ہند کے گرم پانیوں کو لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ دفاع کے معاہدے کی پیش کش کی جو انڈیا نے مسترد کردی۔انڈیا چین تعلقات اس وقت اور بگڑ گئے جب نہرو نے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سمیت ہزاروں تبتی پناہ گزینوں کو نہ صرف اپنے ہاں رکھنے کا اعلان کیا بلکہ دلائی لامہ کو تبت کی جلا وطن حکومت قائم کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ چین نے 1962 میں انڈیا کو دو سرحدی علاقوں میں بری طرح پیٹ ڈالا۔انڈیا کی چیخ و پکار سن کر امریکہ اور سوویت یونین دوڑے دوڑے آئے۔ پاکستان پہلے تو امریکی رویے پر ششدر رہا اور پھر چین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا تاریخی فیصلہ کر لیا۔ فٹافٹ سرحدی حد بندی کا سمجھوتہ بھی ہوگیا اور پینسٹھ کی جنگ نے تو پاک چین دوستی کے مستقبل پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ آگے کی تاریخ تو آپ کے علم میں ہے ہی۔اب یہ صورت ہے کہ شمال کے جس خطرے سے ایوب خان انڈیا سے مل کر نمٹنا چاہ رہے تھے وہی خطرہ دوستی میں ڈھل کے گوادر کے گرم پانیوں تک خوشی خوشی پہنچ چکا ہے۔ جب امریکیوں نے چینیوں سے شکوہ کیا کہ ان کی غیر مشروط حمایت کے سبب پاکستان اتنا بگڑ گیا ہے کہ کسی کی نہیں سنتا تو پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل ڑینگ کوانگ کائی نے کہا ‘پاکستان چین کا اسرائیل ہے۔’

یوم عاشور کس دن ہوگا،محرم الحرام کے چاند بارے خاص خبر

فیصل آباد  (اے پی پی) ممتاز ماہر فلکیات پروفیسر محمد حمزہ نعیم نے پیش گوئی کی ہے کہ محرم الحرام1439ھ کا چاند 21 ستمبر (جمعرات) کی شام نظر ۱ٓنے کا امکان ہے اور یوم عاشور یکم اکتوبر (اتوار) کو ہوگا۔ایک ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ اس بار ذی الحج کا مہینہ 30 ایام پر مشتمل ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ نئے اسلامی سال 1439 ھ کا ۱ٓغاز یکم محرم الحرام ( جمعہ) 22 ستمبر کو ہوگا جبکہ یوم عاشور 10 محرم الحرام (اتوار)یکم اکتوبر کو منایا جائیگا۔

پچھلے عام انتخابات میں دھاندلی کرنیوالی شخصیت کا نام سامنے آگیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا، لیڈر شپ اچھی ہو تو پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی ہے، سیکولر جمہوریت ہونے کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے۔ نجی ٹی وی کو خصوصی نٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عوام انتہا پسندی کو پسند نہیں کرتے اسی لئے کبھی کسی مذہبی جماعت کو حکومت میں نہیں لائے جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہے اور وہاں کی عوام انتہا پسند بی جے پی کی حکومت میں لائی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جادوئی شخصیت کے مالک تھے۔ بھٹو ایک جینئس تھے تاہم انہوں نے وہ کچھ نہ کیا جو کر سکتے تھے۔ بھٹو دور میں بہت خرابیاں ہوئی تھیں۔ بینظیر بھٹو میں بھی صلاحیتیں تھیں لیکن استعمال نہ کر سکیں۔ لیڈر کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط بہاﺅ میں نہیں بہتا بلکہ راستہ بناتا ہے اور بہاﺅ کو تبدیل کرتا ہے۔ سی پیک سے پاکستان میں ترقی ہو سکتی ہے۔ سندھ میں پچھلے پانچ چھ سال میں 900 ارب روپیہ خرچ کیا گیا لیکن 9 ارب بھی کہیں لگا نظر نہیں آتا۔ اوپر سے کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو نیچے کرپشن حود ہی رک جاتی ہے۔ جے آئی ٹی سے بہت متاثر ہوا اس نے بڑا اچھا کام کیا اور بڑی دلیری سے کیا۔ ٹی وی چینلز تو ٹھیک چل رہے ہیں اصل میں سیاستدانوں کو ہی بولنے کی تعمیر نہیں ہے۔ شعیب منصور کی مدد نہ کرتا تو وہ فلم ”خدا کے لئے“ نہ بنا پاتا جو بڑی اچھی فلم تھی۔ ہمارے اداکار بھارتیوں سے زیادہ خوبصورت اور ٹیلنٹڈ ہیں جنید جمشید اور امجد صابری کی شہادت سے بہت نقصان ہوا۔ سابق صدر نے کہا کہ ابھی پاکستان جس راستے پر چل رہا ہے وہ برا ہے، معاشی طور پر بہتری کی جانب جانا ضروری ہے۔ معاشی بدحالی ملک کو تباہ کرے گی۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ترقی کہاں ہے، برآمد کم ہو رہی ہے انڈسٹری بند ہو رہی ہے۔ لاہور میں تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے۔ پاکستان میں وسائل بہت ہیں۔ سمت ٹھیک ہو تو تین چار سال میں ملک آگے جا سکتا ہے۔ اچھی لیڈر شپ کو آگے لانا عوام کے ہاتھ میں ہے ابھی تو سپریم کورٹ اور فوج کے ہاتھ میں ہے انہیں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ تبدیلی صرف جمہوری نظام سے آئے گی خوشی ہے کہ نوجوان باشعور ہو رہے ہیں جس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ ن لیگ اور پی پی سرکاری مشینری کو استعمال کرتے ہیں اس لئے الیکشن جیت جاتے ہیں۔ 2013ءکے الیکشن میں دھاندلی کے پیچھے افتخار چودھری تھے۔ دھاندلی کا سلسلہ بند ہونا ضروری ہے۔ آرمی کو الیکشن شفاف کرانے کی ذمہ داری کیوں نہیں سونپی جاتی۔ آئینی ترمیم ہونی چاہئے کہ الیکشن فوج کرائے گی پھر ہی شفاف الیکشن ہو سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان واپس جانے کا ارادہ ہے، لوگوں سے ملنا اور دنیا میں گھومنا پھرنا پسند ہے۔ اب دوسری کتاب لکھ رہا ہوں۔

نثار ،کلثوم تنازع ،معروف تجزیہ کار نے حقائق بیان کر دیئے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی و تجزیہ نے کہا ہے کہ مریم نواز شریف کو غیر سیاسی کہنے والے چوہدری نثار علی خان نے پچھلے سال مریم نواز شریف کیساتھ وزیراعظم ہاس میں ایک لمبی ملاقات کی تھی جس دوران دونوں نے شکوے شکایت کئے اور اس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے مجھے بتایا کہ اب میرا دل صاف ہو گیا ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے نے کہا کہ بیگم کلثوم نواز اور چوہدری نثار صاحب کے درمیان کافی پرانا تنازعہ ہے، بیگم کلثوم نواز کے چوہدری نثار کیساتھ 17 سال پہلے بھی معاملات ٹھیک نہیں تھے لیکن اب چوہدری نثار علی خان نے مریم نواز کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ان کی پہچان صرف یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی بیٹی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ مریم نواز اور بینظیر بھٹو میں بہت فرق ہے۔ لیکن انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ مریم نواز غیر سیاسی ہیں اور بچے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں، یہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ انہوں نے کیوں ایسا کہا ہے۔ مریم نواز شریف کافی دنوں سے این اے 120 میں سیاسی مہم چلا رہی ہیں۔ اگر ایک خاتون لاہور کے ایک حلقے میں ایک پارٹی کی مہم چلا رہی ہے اور روزانہ ریلی نکال کر تقریریں کر رہی ہے تو وہ غیر سیاسی کیسے ہو گئیں ۔ ان کا اصل میں مسئلہ نواز شریف ہیں لیکن مریم نواز کا وہ ویسے ہی نام لے رہے ہیں۔ صحافی نے کہا کہ چوہدری نثار نے بہت سی باتیں درست کی ہیں، جبکہ ان کا یہ بھی کہنا درست ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوج کا کوئی کردار نہیں لیکن انہوں نے مریم نواز شریف کو بھی غیر سیاسی کہا ہے اور اگر وہ غیر سیاسی ہیں تو پچھلے سال چوہدری نثار علی خان نے مریم نواز شریف کیساتھ وزیراعظم ہاس میں ایک لمبی ملاقات کیوں کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں نے شکوے، شکایات کیں، اور اس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے مجھے خود بتایا کہ ان کا دل صاف ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکوے یہ تھے کہ ہم سے پوچھا نہیں جاتا اور اس طرح کے دیگر معاملات تھے۔ پھر اس سارے معاملے میں طلال چوہدری اور مریم اورنگزیب پل کا کردار بھی ادا کرتے رہے کیونکہ ان دونوں کے مریم نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان، دونوں کے کیساتھ ہی اچھے تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ کافی عرصے تک پرویز رشید بھی پل کا کردار ادا کرتے رہے اور چوہدری نثار علی اور مریم نواز شریف کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں وہ بھی موجود تھے۔ بعد ازاں پرویز رشید نے خود مجھے بتایا کہ انہوں نے چوہدری نثار اور مریم نواز شریف کے درمیان ملاقات کروائی ہے۔

شیخ زائد ہسپتال کے فرش پر بچے کا جنم ،ذمہ دار کون؟

رحیم یارخان(ڈسٹرکٹ رپورٹر)شیخ زاید ہسپتال کے لیبر روم کے عملے کا حاملہ خاتون اور لواحقین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، دھکے دے کر نکال دیا،خاتون نے فرش پر بچے کو جنم دے دیا، متاثرین نے سیکرٹری ہیلتھ کو کارروائی کے لئے درخواست ارسال کردی ہے۔تفصیل کے مطابق سنجر پور کے رہائشی محمد یٰسین نے ہمشیرہ جویریہ بی بی اور والدہ زبیدہ بیگم کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یکم ستمبر کو وہ اپنی حاملہ بہن جویریہ بی بی کو ڈیلیوری کی غرض سے ایمرجنسی کے داخلہ نمبر 953172 کے تحت شیخ زاید ہسپتال کے لیبر روم لے کر پہنچا تو لیبر روم عملہ نے جویریہ بی بی کی ڈیلیوری کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے لیبر روم داخل نہ ہونے دیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ لیبر روم عملے کے ناروا سلوک اختیار کرنے کے بعد وہ اپنی ہمشیرہ کو تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے لیبر روم کے باہر فرش پربیٹھ گئے جہاںدو گھنٹے کی تکلیف کے بعد اس کی ہمشیرہ نے فرش پر ہی بچے کو جنم دے دیا۔انہوں نے بتایا کہ لیبر روم کے اندر ڈیوٹی پر موجود لیڈی ڈاکٹر مریم و دیگر سٹاف نے بچے کی فرش پر پیدائش کا معلوم ہونے پر انہوں نے اپنی غلطی چھپانے کے لئے فوری طور پر میری ہمشیرہ کو لیبر روم میں لے جا کر اس کاغیر ضروری آپریشن کردیا۔ بعدازاں لیبر روم کے عملہ نے مٹھائی کی مد میں پانچ ہزار روپے طلب کر لئے۔مٹھائی کی رقم نہ دینے پر نومولود بچہ ضبط کرنے کی دھمکی دی، منت سماجت کرنے کے بعد عملہ کو 600 روپے دے کر جان چھڑائی۔بعدازاں جویریہ بی بی کو وارڈ میں منتقل کردیا گیا جہاں معلوم ہوا کہ ہمشیرہ کا غیرضروری طور پر آپریشن کردیا گیا ہے۔انہوں نے سیکرٹری ہیلتھ پنجاب و ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان سے مطالبہ کیا ہے کہ شیخ زاید ہسپتال لیبر روم کے ڈاکٹر و عملہ نے اپنی نااہلی چھپانے کے لئے غیر ضروری آپریشن کرنے اور لیبر روم میں مریضہ کو داخل نہ کرنے کی بناءپر ان کےخلاف سخت کارروائی عمل میں لائیں اور ذمہ داران کو نوکریوں سے برخاست کیا جائے۔