All posts by Khabrain News

کب تک انتخابات آگے کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ سپریم کورٹ

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے الیکشن نظر ثانی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کب تک انتخابات آگے کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟
سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل تھے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کے دلائل
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پرآ گئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولزآئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ رولزعدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟، اب تک کے نکات نوٹ کر چکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے، تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم از کم ٹارگٹ کر کے فائرکریں، پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے زیادہ بڑا کر دیا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کیلئے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے، نگراں حکومت کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، آئین میں انتخابات کی شفافیت کے پیش نظریہ پابندی لگائی گئی۔
صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہوجائے تو کیا ساڑھے 4 سال تک نگراں حکومت کام کرتی رہے گی؟ جسٹس اعجازالاحسن
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہوجائے تو کیا ہوگا، کیا ساڑھے 4 سال تک نگراں حکومت کام کرتی رہے گی، ساڑھے 4 سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟
وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ساڑھے 4 سال نگراں حکومت ہی صوبے میں کام کرے گی، آئین کے ایک آرٹیکل پرعمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی، آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے، انتخابات میں90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے نئی منتخب حکومت آسکتی ہے، آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے۔
نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے: سپریم کورٹ
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکومت90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے، نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں، آئین کی منشاء منتحب حکومتیں اور جمہوریت ہی ہے، ملک منتحب حکومت ہی چلا سکتی ہے، جمہوریت کو بریک نہیں لگائی جا سکتی، 1973میں آئین بنا تو نگران حکومتوں کا تصور نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگران حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کے لیے آئین میں شامل کی گئیں، شفاف انتحابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن فنڈز اور سیکورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتے، کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں 90دن کی نگران حکومت ساڑھے چار سال کیسے رہ سکتی ہے، آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پنجاب اور کے پی کے دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا پنجاب انتحابات کا فیصلہ چیلنج ہوا تھا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس پر آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کے پی کے اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میرے کہنے کا مطلب تھا کے پی کے اور پنجاب پورے ملک کا 70 فیصد ہیں۔
حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے: جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر بلوچستان اسمبلی وت سے پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہوگا، نشستیں جتنی بھی ہوں ہر اسمبلی کی اہمیت برابر ہے، حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا منتحب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن تو کہتا تھا فنڈز اور سکیورٹی دیں تو انتحابات کروا دیں گے، آئین کے حصول کی بات کر کہ خود اس سے بھاگ رہے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 8 اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی۔
جسٹس مینب اختر نے استفسار کیا اور کہا کہ 8 ستمبر کو الیکشن کمیشن مجھے کہے کہ الیکشن ممکن نہیں تو کیا ہوگا، الیکشن کمیشن دو سال کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں، انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں۔
کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے، تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتایج بھگتے، عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا، الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہوگیا، انتخابات ہر صورت ہوں گے، اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کررہا ہے، بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آوٹ 60 فیصد تھا، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا۔
انتخابات تاخیر کا شکار ہوں تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں: جسٹس عمر عطاء بندیال
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوں تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی، آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا، ایک ساتھ انتخابات میں پانچ جنرل الیکشن ہوتے ہیں، وزیر اعظم اور وزاء اعلی 6 ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو کمیشن کیا کرے گا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم اور وزاء اعلی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی ویٹو پاور ہے، وزیر اعظم اور وزیر اعلی جب چاہیں اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، آئین کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں الیکشن کمیشن کا موقف کیا ہے، نگراں حکومت اس لئےآتی ہے کہ کسی جماعت کوسرکاری سپورٹ نہ ملے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نگراں حکومت جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نگراں حکومت کی مدت کا تعین حالات کے مطابق ہوگا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نےانتخابات سےمعذوری ظاہرنہیں کی، سپریم کورٹ کوبھی کہاکہ وسائل درکارہیں، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے انتخابات ممکن نہیں ہیں، پہلےکیوں نہیں کہاکہ وسائل ملنے پر بھی انتخابات ممکن نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اپنے تحریری مؤقف میں بھی یہ نقطہ اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے صدر اور گورنر کو بھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا، 2 دن تک آپ مقدمہ دوبارہ سننے پر دلائل دیتے رہے، ایک دن انتخابات سے آئین کی کون سی شق غیر مؤثر ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لیڈر آف ہاؤس کو اسمبلی تحلیل کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، نظام مضبوط ہو تو شاید تمام انتخابات الگ الگ ممکن ہوں، فی الحال تو اندھیرے میں ہی سفر کر رہے ہیں جس کی کوئی منزل نظر نہیں آ رہی۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی ماحول کو دیکھ کر ہی اٹھ اکتوبر کی تاریح دی تھی، 9 مئی کو جو ہوا اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن کو نو مئی پر بات کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ ایسے نہیں ہوسکتا جو آپ کو سوٹ کرے وہ موقف اپنا لیں، کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی، پھر کہتے ہیں الیکشن ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمیشن نیا مؤقف اپنا لیتا ہے، آپ ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں،آج کے حالات میں فرق ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں انتحابات ممکن نہیں۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر آئینی اصولوں سے موجودہ حالات پر آگئے ہیں، آپ جواب دیں کہ کیا پانچوں اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات ہوسکتے ہیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ نگراں حکومتیں ہوں توالگ الگ انتحابات ممکن ہیں، موجودہ حالات میں الگ الگ انتحابات ممکن نہیں، الیکشن کمیشن تمام سرکاری مشینری حکومت سےلیتاہے، نیوٹرل انتظامیہ نہیں ہوگی تو شفاف انتحانات کیسے ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی منتق مان لیں تو ملک میں منتخب وفاقی حکومت نہیں ہو گی
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہونے کی بات کر رہے ہیں، ارکان قومی اسمبلی صوبائی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس آئینی اصول کی بات آپ کرر ہے ہیں اس کے مطابق تو اسمبلی تحلیل ہی نہیں ہونی چاہیئے، اگر قومی اسمبلی پہلے تحلیل ہو جایے تو کیا صوبائی اسمبلی کو الیکشن کمیشن تحلیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کی منتق مان لیں تو ملک میں منتخب وفاقی حکومت نہیں ہو گی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف پیش کیا کہ ایسی صورت حال میں آرٹیکل 224 حل دیتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 ہر اسمبلی کے لیے ہے صرف وفاق کے لیے نہیں۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پنجاب میں 20 ضمنی انتخاب ہوئے جو مکمل شفاف تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلی پنجاب اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے عدالت نے حکم دیا تھا، قومی اسمبلی کے انتخاب میں صوبائی حکومت کی مداخلت روکی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہو سکتی، الیکشن کمیشن نے خود حل نہیں نکالا اب عدالت کو یہ اصول وضح کرنا ہوگا، یہ مسئلہ انتظامی طور پر حل ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہئیں، الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے، کل ارکان اسمبلی کے لیے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے، ارکان اسمبلی کو فنڈ ملنا اچھی بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود غیر فعال ہے، الیکشن کمیشن کے استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن نے 4 لاکھ 50 ہزار سیکیورٹی اہلکار مانگے، ساڑھے چار لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے، الیکشن کمیشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہیے، فوج کی سیکیورٹی کی ضرورت کیا ہے؟ فوج صرف سیکیورٹی کے لیے علامتی طور پر ہوتی ہے، فوجی اہلکار آرام سے کسی کو روکے تو لوگ رک جاتے ہیں، جو پولنگ سٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہوم ورک کرکے آئیں، پتہ تو چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے، الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے، کارروائی کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو کوئیک رسپانس فورس کی پیشکش کی تھی، میرے خیال سے یہ نفری کافی ہے، آئین کی منشاء ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہیئے، بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی، حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ سرکاری اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے، دہشت گردی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کس بنیاد پر کہہ رہے کہ 8 اکتوبر تک سکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے، یہ موقف 22 مارچ کو تھا الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ہدایت لے کر آگاہ کر سکتا ہوں، 9 مئی واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔
9 مئی کا واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے، ان واقعات کا کچھ کرنا چاہیے، لیکن 9 مئی کا واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کے واقعہ کے چکر میں آپ آئین کی منشاء جو بھلا رہے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔

آئندہ بجٹ میں گاڑی مالیت پر ایڈوانس ٹیکس لگنے کا امکان

لاہور: (ویب ڈیسک) آئندہ بجٹ میں گاڑیوں کی رجسٹریشن پر بھی ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے ریسورس اینڈ ریونیو موبلائزیشن کمیشن کی سفارش پر بجٹ میں گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھانے اور گاڑیوں پر انجن کے بجائے گاڑی کی مالیت پر ایڈوانس ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
گاڑیوں کی قیمت کی بنیاد پر نان فائلرز کیلئے ایڈوانس ٹیکس کی شرح 10 سے 35 فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ ٹینکرز کنٹریکٹرز اور ٹرانسپورٹرز پر بھی بتدریج ڈھائی فیصد اور 3 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ایف بی آر ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ 3 سال سے ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ کارپوریٹ سیکٹر کیلئے ایک کروڑ روپے مالیت تک کی گاڑی پر 2 فیصد اور نان کارپوریٹ سیکٹر کیلئے ایک کروڑ روپے مالیت تک کی گاڑی پر 3 فیصد ایڈوانس ٹیکس کی تجویز زیر غور ہے۔
اسی طرح گزشتہ 3 سال سے ایکٹو پیئر لسٹ میں انفرادی ٹیکس دہندگان کیلئے 1 کروڑ روپے سے 3 کروڑ روپے مالیت تک کی گاڑی پر 4 فیصد اور نان کارپوریٹ سیکٹر کی انفرادی ٹیکس دہندگان کیلئے 1 کروڑ روپے سے 3 کروڑ روپے مالیت تک کی گاڑی پر 5 فیصد ایڈوانس ٹیکس کی تجویز زیر غور ہے۔

میں کہیں نہیں گیا، اِدھر ہی ہوں، محمود خان

پشاور : (ویب ڈیسک) سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے نجی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں کہیں نہیں گیا،اِدھر ہی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اورعمران خان کے ساتھ ہوں اور رہوں گا،میرے متعلق پارٹی چھوڑنے اورگرفتاری کی افواہیں پھیلائی گئیں۔
سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ میرے خلاف جتنے کیسز بنانے ہیں بنالیں۔

خیبرپختونخوا کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے لکڑیاں بیچنے پر غور

پشاور : (ویب ڈیسک) خیبرپختونخوا کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے اب لکڑیاں بیچ کر قابو پانے پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔
صوبے کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے جنگلات میں پڑی ونڈ فال ٹمبر فروخت کرنے پر غور کیا گیا، کل جماعتی کانفرنس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ ونڈ فال ٹمبر فروخت کرنے سے صوبے کو 150 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
ٹمبر فروخت کرنے سے صوبائی حکومت کے پاس خاطر خواہ آمدن آ جائے گی، بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا کا وفاق کے ذمے 180 ارب روپے واجب الادا ہے، ضم اضلاع کے لیے بھی فنڈز ابھی تک جاری نہیں کیے گئے،جبکہ این ایف سی، آئل اینڈ گیس رائلٹی اور بجلی کے خالص منافع کے حوالے سے بھی غور کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں سراج الحق، اکرم خان درانی، آفتاب شیر پاؤ، امیر مقام، ایمل ولی خان اور دیگر نے شرکت کی، اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل جرگہ تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا، جرگہ ممبران صوبے کے مالی مشکلات سے متعلق وزیر اعظم سے ملاقات اور مسائل پر بات کریں گے۔

خواجہ قطب نے پی ٹی آئی اور چودھری جہانزیب نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا

رحیم یار خان: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی خواجہ قطب فرید کوریجہ نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ قطب کوریجہ نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، ایم ایم عالم کے جہاز کو جلانا اور کرنل شیر خان کے مجسمے کی بے حرمتی ہر پاکستانی کیلئے ناقابل برداشت ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اور ٹکٹ ہولڈر چودھری جہانزیب رشید نے بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرکے سیاست کو خیرباد کہہ دیا۔

پی ٹی آئی گلالئی کی سربراہ عائشہ گلالئی کا ق لیگ میں شمولیت کا اعلان

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف گلالئی کی سربراہ عائشہ گلالئی نے مسلم لیگ ق میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
چودھری شجاعت اور چودھری سرور کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عائشہ گلالئی نے پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چودھری شجاعت نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی کو مقدم رکھا، آج میں چودھری شجاعت صاحب کی شاگردی اختیار کر رہی ہوں۔
اس موقع پر رہنما ق لیگ چودھری سرور نے عائشہ گلالئی کو ق لیگ میں خوش آمدید کہا جبکہ چودھری شافع حسین کا کہنا تھا کہ ہم عزت اور رواداری کی سیاست کو لے کر آگے چلیں گے۔
یاد رہے کہ عائشہ گلالئی 2017ء میں تحریک انصاف سے راہیں جدا کر لی تھیں جس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی گلالئی کے نام سے ایک جماعت بھی بنائی تھی۔

پی ٹی آئی کے ایک اور سابق ایم این اے اور ایم پی اے پارٹی کو خیرباد کہہ گئے

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق رکن پنجاب اسمبلی نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔
پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی نے سندھ ہاؤس اسلام آباد میں رہنما پیپلزپارٹی فیصل کریم کنڈی کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر حیدر علی نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی، ڈاکٹر حیدر علی 2018 کے الیکشن میں این اے ٹو سوات ون سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔
اس موقع پر فیصل کریم کنڈی نے ڈاکٹر حیدر علی کو پارٹی میں شمولیت پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگر آپ آصف زرداری کے انٹرویو دیکھیں تو ان کا خلاصہ یہ تھا کہ عمران خان سیاسی رہنما نہیں وہ کھلاڑی ہیں ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے، انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے وزن سے خود گرے گی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی جاوید اختر انصاری نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، ہم پر کوئی دباؤ نہیں، بس 9 مئی کے واقعات سے بہت تکلیف ہوئی، پاک فوج ہمارا فخر ہے اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جاوید اختر انصاری کا کہنا تھا کہ دوستوں کی مشاورت سے آئندہ کا فیصلہ کروں گا، وہ کام کریں گے جس سے ملک کی بہتری ہو۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی 9 مئی کی پرتشدد پالیسی کیخلاف پارٹی چھوڑنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آرمی چیف کی طلبہ اور شہدا کے بچوں سے ملاقات، سر پر دست شفقت رکھا

راولپنڈی: (ویب ڈیسک) آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شہداء کے بچوں سے بھی ملاقات کی، جنرل عاصم منیر نے سکولز اور شہداء کے بچوں کے سر پر دست شفقت بھی رکھا۔
اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج شہداء کے بچوں کی وارث ہے، شہداء کی لازوال قربانیوں کی بدولت آپ سے ہمارا رشتہ مثالی اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مزید کہا ہے کہ پاک فوج ہمیشہ آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہے گی۔

9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کوقانون وآئین کے مطابق سزا ملے گی: وزیراعظم شہباز شریف

پشاور: (ویب ڈیسک) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کوقانون وآئین کے مطابق سزا ملے گی۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر پشاور پہنچے جہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت پر حملے سے ہم سب دکھی ہیں، یہ وہ تاریخی عمارت ہے جس میں پاکستان بننے سے قبل ریڈیو کا نظام موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسی عمارت سے 14 اگست 1947 کو آزادی کی صدائیں بلند ہوئیں، ریڈیو پاکستان پشاور نے ہی مملکت خداداد کی آزادی کا اعلان کیا، 9 اور 10 مئی کو دلخراش واقعات نے پاکستانی عوام کو رنجیدہ کیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تاریخی اور قومی ورثے کو جلا دینا کہاں کی حب الوطنی ہے؟ چاغی کی یادگار کو بھی راکھ بنا دیا گیا، قومیں اپنی تاریخی ورثے اور شناخت کی حفاظت کرتی ہیں، یہاں جلا دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 100 سال کے ریکارڈ اور تاریخی ورثے کو تباہ کر دیا گیا، جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ان میں اور دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں، آج عہد کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی جرات کوئی نہ کر سکے۔
ریڈیو پاکستان پشاور کے ملازمین کی تنخواہیں فی الفور ادا کرنے کا اعلان
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے حوصلے کو داد دیتا ہوں، فنڈز 48 گھنٹوں میں فراہم کر دئیے جائیں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپریل اور مئی کی تنخواہوں کی فی الفور ادائیگی کا اعلان کرتا ہوں، 48 گھنٹوں میں وزارت اطلاعات کے ذریعے مئی کی تنخواہ مل جائے گی۔
تقریب میں وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، گورنر خیبرپختونخوا غلام علی اور نگران وزیرِ اعلیٰ کے پی محمد اعظم خان بھی موجود تھے۔
مریم اورنگزیب
اس موقع پر مریم اورنگزیب نے کہا کہ مسلح جتھوں کو بالکل بھی رعایت نہیں دی جائے گی، 9 مئی دہرائی نہیں جا سکتی، ملوث افراد کو سخت سزا دیں گے، منصوبہ بندی کے تحت ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت پر حملہ کیا گیا۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ شرپسندوں نے 10 مئی کو دوبارہ انتظامات کے ساتھ حملہ کیا، تاریخی آرکائیوز جس کی کوئی قیمت نہیں تھی جلا دیا گیا، عمارت کو بچاتے ہوئے عملے کے کئی افراد شدید زخمی ہوئے۔

آرٹیکل 245 اور پارٹی ورکرز کی گرفتاریاں: عمران خان کا سپریم کورٹ سے رجوع

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آرٹیکل 245 اور پارٹی ورکرز کی پکڑ دھکڑ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سابق وزیراعظم نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کا آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کا اقدام بھی چیلنج کر دیا۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ حامد خان کی وساطت سے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتے ہوئے وفاقی حکومت، نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب، اعظم خان سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ سارا ڈرامہ نواز شریف اور مریم نواز کا رچایا ہے، نوازشریف اور مریم نواز نے پروپیگنڈا کیا کہ عمران خان اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، حالانکہ میں نے ہمیشہ اداروں کا احترام کیا اور ساتھ کھڑا رہا، پلوامہ واقعے پر 27 فروری 2019 کو پاک فوج کو سپورٹ کیا۔
انہوں نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 245 کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دے، سپریم کورٹ تحریک انصاف کے کارکنان کو فوری رہا کرنے کا حکم دے، سپریم کورٹ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل غیر قرار دے اور 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے۔
عمران خان نے مزید استدعا کی کہ عدالت تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں کو غیر آئینی قرار دے۔