یونیورسٹی آف ورجینیا کے سائنسدانوں نے 14 ایسے جین شناخت دیکھے ہیں جو براہِ راست چربی لاتے اور موٹا کرتے ہیں تاہم تین ایسے جین بھی ملے ہیں جنہیں سلا کر خود موٹاپے کو ٹالا جاسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا ہیلتھ سسٹم کی سائنسداں پروفیسرایلین او رورکے اور پروفیسر رابٹ ایم برنے کے ماہرین نے یہ اہم کام سرانجام دیا ہے۔ انہوں نےموٹاپے کی براہِ راست وجہ بننے والے 14 جین معلوم کئے ہیں۔
ماہرین نے لکھا ’ ہم سینکڑوں ایسے جین سے ’بظاہر واقف‘ ہیں جو انفرادی طور پر موٹاپے اور دیگر بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔ لیکن اس ظاہری کیفیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہی اس بیماری کی وجہ بھی ہیں۔ اب اس تحقیق میں ہم نے اس غیریقینیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے ازخود سینکڑوں جین ٹیسٹ کرنے والا ایک ’پائپ لائن‘ نظام بنایا گیا،‘۔
اس ضمن میں کئی جین سامنے آئے جن پر مزید تحقیق موٹاپے کے علاج یا اس کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتےہیں۔
ماہرین کے مطابق زائد حراروں والی غذا، بےعملی، ورزش نہ کرنے اورشکرخوری کا پیچیدہ نظام آپس میں مل کر موٹاپے کی وجہ بنتے ہیں۔ لیکن ان میں جین کا کردار اہم ہوتا ہے جس سے جسمانی چکنائیاں جمع ہوتی رہتی ہیں اور لوگ فربہ ہوتے رہتے ہیں۔
ماہرین نے انسانی 70 فیصد جین شریک کیڑوں سینو ریبڈائٹس ایلیگنز پر غور کیا۔ یہ کیڑے گلے سڑے پھلوں میں پیدا ہوتے اور پلتے ہیں۔ کیڑوں پر تحقیق سے انسانی امراض کے معالجے کی راہ کھلی ہیں اور اس پر نوبیل انعام بھی دیئے گئے ہیں۔ ہم نے اپنی نئی ادویہ بھی ان کیڑوں میں انڈیلی ہیں جس کا احسان خود سائنس بھی مانتی ہے۔
جینیاتی تحقیق کے لیے کیڑوں کو تختہ مشق بنایا گیا جس میں پہلے 293 جین کا انتخاب کیا اورمشین لرننگ کی مدد سے ان میں سے 14 جین الگ کئے گئے۔ ایک ایک کرکے کیڑوں میں یہ جین داخل کئے گئے یا ان کا سوئچ آن یا آف کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ تین جین کی سرگرمی روک دی جائے تو کیڑے موٹاپے سے محفوظ رہے۔ بعض کیڑوں میں نیورو لوکومیشن یعنی عصبی حرکت بھی بہتر ہوئی۔
بعد ازاں چوہوں پر تجربات شروع کئے گئے اور ایک جین بلاک کیا گیا تو ان کا وزن بڑھنا بند ہوگیا اور خون میں شکر کی مقدار معمول پر آنے لگی۔ اس طرح ایک اہم جین سامنے آیا جو موٹاپے اور شوگر کو کنٹرول کرسکتا ہے۔