کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کردیا اور فارن ایکسچینج فرم سے منسلک غیر قانونی طور پر افغانستان کو ڈالر بھیجنے والے 8 افراد کو گرفتار کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ایف آئی اے کے کمرشل بینکنگ سرکل نے صدر اور گلشنِ اقبال میں علاقوں میں واقع بسیٹ وے ایکسچینج کے دفتر پر چھاپہ مار کر حوالہ/ہنڈی میں ملوث عملے کے 8 افراد کو گرفتار کیا’۔
حکام کا کہنا تھا کہ چھاپے کے دوران موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور حوالہ /ہنڈی میں استعمال ہونے والا دیگر ساز و سامان قبضے میں لے لیاگیا۔
ایف آئی اے نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 75 لاکھ روپے اور 36 ہزار 394 ڈالرز و دیگر غیر ملکی کرنسی، جس کی مالیت کم از کم 30 لاکھ روپے ہے، ضبط کرلی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘یہ لوگ بغیر رسید اور انٹری کے افغانستان کے شہریوں کو غیر قانونی طور پر امریکی ڈالر فراہم کررہے تھے’، گرفتار 8 ملزمان میں سے 2 کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور یہ افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی ترسیل میں ملوث ہیں۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موجودہ سیاسی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان ڈالرز کی افغانستان میں غیر قانونی ترسیل کررہے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کی کرنسی کی قدر میں کمی آئی۔
گرفتار ملزمان نے کمپنی کے ڈائریکٹر محمد یٰسین، منیجر محمد عدنان اور عملے کے دیگر اراکین کی شناخت کی۔
ایف آئی اے کراچی کے ڈائریکٹر عامر فاروقی نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ عناصر نے ایک نیٹ ورک تشکیل دیا تھا جس میں فارن ایکسچینج کمپنیاں بھی ملوث تھیں اور یہ افغانستان کے حالات سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ایکسچینج فرم کے لیے لازم ہے کہ خریدار سے اس کی تصویر اور کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ لے لیکن اسے نظر انداز کیا جارہا تھا۔
ایک مثال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک شخص نے 29 افراد کے سی این آئی سی جمع کروا کر ایکسچینج کمپنی سے 2 لاکھ 45 ہزار ڈالر خریدے اور اس نے ہر شخص کو اس کی سی این آئی سی کی کاپی کی مد میں ایک ہزار روپے دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کراچی سے کوئٹہ منتقل کیے گئے اور منافع حاصل کرنے کے لیے اس کی ترسیل افغانستان میں کی گئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کسی بھی شخص کے 500 یا اس سے زائد ڈالر خریدنے پر ایکسچینج کمپنیوں کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی ہدایات سے متعلق ایکسچینج فرم کے کردار کو بھی مانیٹر کیا گیا تھا۔
رواں ماہ کے آغاز میں ایف آئی اے کی جانب سے غیر قانونی کرنسی کے کاروبار، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی تجویز کردہ خفیہ رپورٹس کے بعد ملک بھر میں کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا تھا، یہ کرنسی غیر قانونی طور پر فروخت کی جارہی تھی اور جعلی بینک اکاؤنٹس میں رکھی گئی، جس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ادارہ مرکزی بینک سے تعاون کر رہا ہے، مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اسٹیک ہولڈرز رجسٹرڈ کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی ہیرا پھیری پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور مجرموں کو پکڑا جارہا ہے۔
ایف آئی اے اب تک فارن ایکسچینج کمپنی کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث متعدد ملزمان کو گرفتار کر چکا ہے اور ان سے 3 لاکھ ڈالرز، 3 لاکھ یورو اور دیگر کرنسیز برآمد ہوئی ہیں اور 2 کروڑ روپے کیش بھی تحویل میں لیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کراچی ڈائیریکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ فارن ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے دو ہفتوں کے دوران ڈالر کی قدر میں کمی آئی ہے ڈالر 174 سے 171 کی سطح پر آگیا ہے۔
تاہم انٹر بینک مارکیٹ میں پیر کو ڈالر 170 روپے 74 پیسے پر بند ہوا تھا، جو اب بھی بہت زیادہ قیمت ہے۔
چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ملک بوستان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حال ہی میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی اور وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو ذخیرہ اندوزی اور کرنسیز کی غیر قانونی اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔