Tag Archives: dileep-kumar

اشوک کمار اور دیویکا کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میں اور راج شناسا تھے

قسط نمبر24
کیا تمہارا باپ جانتا ہے؟اس نے شرارت بھرے انداز میں مجھ سے پوچھا…. میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ اشوک بھیا اور دیویکارانی دونوں ہمارے قریب کھڑے تھے اور انہیں خوشگوار حیرت ہوئی یہ جان کر کے راج کپوراور میں ایک دوسرے کو جانتے تھے…. راج نے خالصہ کالج میں ہمارے فٹ بال کے دنوں کا مختصر سا تذکرہ کیا۔
راج مسلسل باتیں کر رہا تھا اور خالصہ کالج میں ہماری احمقانہ آوارہ گردیاں بیان کر رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس راز کو راز ہی رہنے دے تو بہتر ہے کہ میں نے آغا جی کے علم میں لائے بغیراسٹوڈیو جوائن کیا تھا…. یہ ایسی بات تھی جس کی بابت میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ اسٹوڈیو کے علم میں آئے کیونکہ اس طرح میرا یہ تاثر ابھرتا کہ میں خفیہ طور پر کام کرنے کا عادی ہوں…. خوش قسمتی سے وہ اس موضوع پر نہ آیا اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔
زندگی کے اس مرحلے پر بمبئی ٹاکیز ایک بہترین چیز تھی جو مجھے میسر آئی تھی۔
لہٰذا اولین دو ماہ تک…. دیویکارانی نے یہ یقین دہانی حاصل کی کہ میں تمام شوٹنگز پر حاضر رہتا تھا…. میں روزانہ صبح سٹوڈیو پہنچ جایا کرتا تھا اور سیدھا ان سیٹوں کا رخ کرتا تھا جہاں پر شوٹنگ ہو رہی ہوتی تھی….
اشوک بھیاکی ان دنوں فلم ”قسمت“ (1943ءمیں نمائش کیلئے پیش کی گئی) کے آخری حصوں کی شوٹنگ میں مصروف تھے…. اور بے تحاشا کارگزاریاں سرانجام دی جا رہی تھیں۔
اشوک بھیا ایک بے حد کامیاب سٹار تھے جیسا کہ مجھے معاونین نے بتایا تھا…. ان کی 1941ءمیں نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلم ”جھولا“ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے اور وہی ڈائریکٹر ”قسمت“ بنا رہے تھے…. لہٰذا جوش و خروش دیدنی تھا اور یہ سب کچھ میرے لئے نیا تھا کیونکہ مجھے کچھ علم نہ تھا کہ فلم کیسے کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہے اور کیسے سٹوڈیو اور پروڈیوسر کیلئے مال کماتی ہے۔
اشوک بھیا نے جلد ہی مجھے ششدھر مکھرجی سے متعارف کروایا جو ان کے بہنوئی تھے ( اشوک بھیا کی ہمشیرہ ستی دیوی ششدھر مکھرجی سے بیاہی ہوئی تھی) …. اشوک بھیا کی فطرت ایسی تھی کہ اجنبیوں کے ساتھ بھی دوستی استوار کر لیتے تھے اور سٹوڈیو میں موجود ہر فرد کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے کوشاں رہتے تھے…. ان میں کینٹین بوائے سے لے کر ٹیکنیشن اور ساتھ کام کرنے والے اداکار بھی شامل تھے…. میری ان سے روزانہ ملاقات ہوتی تھی اور وہ میرے ساتھ ایک چھوٹے بھائی جیسا سلوک کرتے تھے جس کی رہنمائی اور تحفظ جیسے ان کا فریضہ تھا…. میرے شرمیلے پن اور کم گوئی میں اب کمی واقع ہونی شروع ہو گئی تھی اور اس کی وجہ اشوک کمار کی محبت اور دوستی تھی اور ان کے وہ محبت بھرے جذبات تھے جن کے وہ میرے لئے حامل تھے اور یہ سب کچھ ”قسمت“ کی شوٹنگ کے دوران منظرعام پر آیا تھا۔
اب تک میں ایس۔ مکھرجی صاحب کے ساتھ کافی گھل مل چکا تھا‘ وہ ایک اچھے شریف النفس شخص تھے اور ایک دوپہر انہوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا میں اردو شاعری کا کلام بھی بخوبی پڑھ سکتا ہوں…. میں نے جواب دیا کہ میں فارسی کلام بھی بڑی آسانی سے پڑھ سکتا ہوں۔
میں فطری طور پر تیار تھا اور میں نے انہیں وہ کلام سنایا جو میں اکثر اپنے بھائی ایوب صاحب کو اس وقت سنایا کرتا تھا۔ جب وہ کشمیر میں حادثاتی طور پر گھوڑے سے گرنے کے بعد ریڑھ کی ہڈی زخمی ہونے کی وجہ سے محض بستر تک ہی محدود ہوکر رہ گئے تھے۔
جب میں کلام سنانا ختم کرچکا تب اشوک بھیا کرسی سے اٹھے اور کھڑے ہوکر مجھے خراج تحسین پیش کیا اور میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ایس مکھرجی صاحب بھی اپنی کرسی سے اٹھے اور میری تعریف کرنے لگے…. انہوں نے کہا کہ وہ ایک سودے بازی کرنے کے لئے تیار تھے…. وہ فرانسیسی اور جرمنی اور جو کچھ بھی وہ جانتے تھے وہ سب کچھ مجھے سکھائیں گے اور اس کے جواب میں میں انہیں اردو سکھاﺅں گا۔
انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ”میں چاہتا ہوں ہمارے تمام سٹوری اجلاسوں میں تم وہاں پر موجود رہو اور ہماری رائٹنگ ٹیم (لکھاریوں کی ٹیم) کا حصہ بنو…. تمہیں زبان پر عبور حاصل ہے جس کی ہماری بنگالی لکھاریوں کو ضرورت ہے۔
میرا باقاعدگی کے ساتھ شوٹنگ دیکھنے کا عمل اور اشوک بھیاکے ساتھ میرے باہمی روابط مجھے پہلے پہل
فلم کے میدان میں اترنے کے لئے تیار کررہے تھے…. میں نے اس وقت اشوک بھیا کا قریبی مشاہدہ کرنا شروع کردیا تھا جب وہ ریہرسل کررہے ہوتے تھے یا کیمرے کا سامنا کررہے تھے ….میں نے محسوس کیاکہ وہ کیمرے کے سامنے سوچی سمجھی حرکات کرتے تھے…. مثال کے طور پر وہ ایک سگریٹ سلگائے بغیر اپنے ہونٹوں میں پکڑتے تھے اور متلاشی نظروں سے اردگرد دیکھتے تھے….اس کے بعد وہ سگریٹ اپنے ہونٹوں سے نکال باہر کرتے تھے…. دو قدم چلتے تھے….تب سگریٹ واپس اپنے ہونٹوں کے درمیان رکھتے تھے اور اسے سلگاتے تھے اور کیمرے میں جھانکتے ہوئے دئیے گئے ڈائیلاگ ادا کرتے تھے۔ (جاری ہے)
(جاری ہے)