سینٹ پیٹرزبرگ(خصوصی رپورٹ) روسی سائنسدانوں کی جانب سے کی گئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈولفن مچھلیاں انسانوں کی طرح آپس میں گفتگو کرتی ہیں لیکن انسان ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے۔روسی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ڈولفنیں بھی آپس میں انسانوں کی طرح سے باتیں کرتی ہیں یعنی وہ بھی انسانوں کی طرح الفاظ اور باقاعدہ زبان کا سہارا لیتی ہیں لیکن فی الحال اس زبان کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔روس میں کاراداگ نیچر ریزرو کے ماہرین نے وہاں رکھی گئی یاشا اور یانا نامی دو بلیک سی بوٹل نوز (Bottlenose) ڈولفنوں کی آوازیں کئی مہینوں تک ریکارڈ کیں اور صوتی تجزیہ کرنے والے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ڈولفنوں کے درمیان نہ صرف یہ کہ دو طرفہ گفتگو ہورہی تھی بلکہ یہ تبادلہ خیال ہمارے سابقہ تصورات کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ بھی تھا۔صوتی اشاروں کی بناوٹ، تسلسل اور تکرار کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ ڈولفنوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نہ صرف باقاعدہ الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے بلکہ وہ ممکنہ طور پر زبان کے قواعد و ضوابط (گرامر اینڈ کمپوزیشن) کی پابند بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ وہ ان میں سے ایک لفظ بھی سمجھ نہیں سکے اور نہ ہی انہیں یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ڈولفن گرامر کس طرح سے ترتیب دی گئی ہے۔اس دریافت کا تمام تر انحصار صوتی اشاروں کے ان ایک جیسے نمونوں پر ہے جو ڈولفنوں کی آوازوں میں بار بار مشاہدے میں آئے۔ سائنسدانوں نے یہاں تک اندازہ لگایا ہے کہ ڈولفنوں کی باہمی گفتگو میں ایک جملہ اوسطا 5 الفاظ پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ انسانوں کے برعکس جب ایک ڈولفن کچھ بول رہی ہوتی ہے تو دوسری ڈولفن خاموشی سے سنتی ہے اور اس کے چپ ہوجانے کے بعد بولنا شروع کرتی ہے۔ یعنی ڈولفنوں کے یہاں ایک دوسرے کی بات کاٹنے کا کوئی تصور نہیں۔چینی سٹنٹ مین زمین سے تیرہ سو میٹر بلندی پر محو رقص