ابوظہبی(سپورٹس ڈیسک) پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کا دوسرا میچ(آج)پیر کو کھیلا جائے گا ، سیریز میں قومی ٹیم کو1-0کی برتری حاصل ہے۔ دوسرا ڈے نائٹ ون ڈے میچ پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر 4 بجے شروع ہوگا۔دوسرے ون ڈے سے قبل قومی ٹیم نے بیٹنگ اور بولنگ کے علاوہ فیلڈنگ کی بھرپور پریکٹس کی۔تفصیلات کے مطابق پاکستان اور سری لنکا(آج) ابوظہبی کے میدان میں مدمقابل ہوں گے۔ چیمپئنز ٹرافی کی فاتح سرفراز الیون کے حوصلے بلند، میزبان ٹیم کو سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل ہے۔ شاہینوں نے دبئی کے افتتاحی میچ میں لنکن ٹائیگرز کو تراسی رنز سے دھول چٹائی۔ پہلے میچ میں بابر اعظم کی فارم لوٹ آئی اور مڈل آرڈر بلے باز نے کیرئیر کی چھٹی سنچری بنائی۔ حسن علی نے مسلسل پانچویں میچ میں تین شکار کر کے دھاک بٹھائی۔ ایک انٹرویو میں حسن علی کا کہنا تھا کہ وہ عمر گل کا مسلسل چھ بار یہ کارنامہ انجام دینے کا ریکارڈ توڑنے کے لیے پرعزم ہیں اور ورلڈ کپ میں بہترین بولر بننا ان کا ہدف ہے۔دبئی میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان دوسرے ون ڈے میچ کے لئے دونوں ٹیمیں نے بھرپور پریکٹس کی۔پہلے میچ میں کامیابی کے بعد ابوظہبی کے شیخ زید اسٹیڈیم میں (آج) کھیلے جانے والے دوسرے میچ میں کامیابی کے لئے قومی ٹیم پرعزم ہے۔کھلاڑیوں نے بیٹنگ اور بولنگ کے علاوہ فیلڈنگ کی پریکٹس کی جب کہ فاسٹ بولر محمد عامر کی غیر موجودگی میں حسن علی پر قومی ٹیم کا انحصار ہوگا۔ دوسرا ڈے نائٹ ون ڈے میچ پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر 4 بجے شروع ہوگا۔
Tag Archives: dubai
نام کا مطلب اگر یہ ہو تو دبئی میں ایک رات قیام مفت
دبئی (خصوصی رپورٹ)دبئی میں ایک ہوٹل کی انتظامیہ نے ایسے افراد جن کے نا م کا مطلب ”خوشی“ ہو گا کیلئے ایک رات کی مفت رہائش دینے کی پیشکش کا علان کیا ہے ۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے کی گئی پیشکش میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جن کا نام فرح،سعید یافرحت ہے جس کا مطلب خوشی بنتا ہے ان کے لیے ہوٹل میں ایک رات کا قیام بلکل مفت ہو گا ۔واضح رہے یہ آفر رابطہ کرنے والے پہلے 20افراد حاصل کر سکیں گے۔
سنگا پور ،دبئی ،شکاگو کو بھول جائیں….پاکستان بازی لے گیا
کوئٹہ(بیورو رپورٹ)وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ اورنیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹرمیر حاصل خان بزنجو نے کہاہے کہ دنیا میں اگر کوئی اہم جگہ ہے تو وہ گوادر ہے، اس کی اہمیت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں سٹریٹجی بنانا ہوگی کہ دنیا ہمیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے، ان کے مسائل کیا ہیں اور چین کے ساتھ دنیا کے کیسے روابط ہیں۔ان خیالات کااظہارانہوں نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کیا۔میر حاصل بزنجو کاکہناتھاکہ جن حالات میں پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوا اور جس طرح ہم مالی مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے، ان میں سی پیک ایک نعمت ہے جو پاکستان کے حصے میں آئی ہے۔ ہمیں چین کا شکر گزار ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ اندازہ بھی ہونا چاہیے کہ ہم سٹرٹیجک لحاظ سے دنیا کی سب سے اچھی اور سب سے خطرناک جگہ پر ہیں۔کسی دور میں سنگاپور، دبئی، شکاگو دنیا کیلئے اہم تھا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی اہم جگہ ہے تو وہ گوادر ہے، اس کی اہمیت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں سٹریٹجی بنانا ہوگی کہ دنیا ہمیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے، ان کے مسائل کیا ہیں اور چین کے ساتھ دنیا کے کیسے روابط ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور سیاسی قیادت کو ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ سی پیک پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، اگر کسی کو اس کی بعض چیزوں پر کوئی اعتراض ہو تو اس پر بات ہوسکتی ہے لیکن اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے بڑے بڑے منصوبوں کو متنازعہ بنا دیتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ گوادر سے سکھر روڈ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس وقت ایک بڑی سڑک جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے وہ زاہدان کو گوادر سے ملا رہی ہے، جہاں سے ملک کے مختلف حصوں میں جانا ممکن ہوسکے گا۔ سی پیک خودبخود پھیلتا جارہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ گوادر بننے سے چابہار کو نقصان ہوگا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چا بہار بندرگاہ کازیادہ تر انحصار گوادر بندرگاہ پر ہوگا اور اس کے بغیر چابہار چل ہی نہیں سکتا۔میری رائے ہے کہ ہمیں گوادر اور چابہار کے درمیان ایک سڑک بنانی چاہیے اور اس سڑک کا فاصلہ صرف 80سے 85کلومیٹر ہے، اس سے بہتری آئے گی۔ سی پیک کے حوالے سے ایک اہم چیز منرلز ہیں کیونکہ دنیا کے دوسرے بڑے منرل کے ذخائر پاکستان میں ہیں۔اس لحاظ سے گوادر پورٹ بہت اہم ہوجائے گا اور ہمیں گوادر میں دیگر ٹرمینلز کے ساتھ ساتھ منرل ٹرمینل بھی بنانا پڑے گا۔سی پیک کو صرف چین کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ وسطی ایشیا کے پاس سی پیک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لہذا یہ سب سی پیک کا حصہ بنیں گے۔ ہمیں سی پیک کی سٹرٹیجک اور کمرشل اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ ہمارے پاس بہت اچھا موقع ہے لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس کے ثمرات سمیٹنے کیلئے کیسے پلاننگ کرتے ہیں۔
مصباح الحق کس کھلاڑی کو ”داد “اور کس کو” مِس“ کرتے رہے
دوبئی(نیو زڈیسک)قومی ٹیسٹ کپتان مصباح الحق نے کہا کہ جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی۔گلابی گیند اور وکٹ کے بارے میں اندازے غلط نکلے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میچ بے نتیجہ ختم ہوگا لیکن آخری دو دن کافی دلچسپ کرکٹ ہوئی جس طرح کے ٹف میچز ہو رہے ہیں یہ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی اچھے ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کےلئے پریشر میچزان کے کرکٹ کیرئیر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ 400ویںاور پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں جیت یادگار لمحہ ہے۔ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں ، ذوالفقار بابر کی کمی محسوس ہوئی۔ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ٹف ہوگی، بیٹنگ پیچز پر 20 وکٹیں لینا ہمارے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔ان خیالات کا اظہار مصباح الحق نے میچ کے بعد غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی ہمارے لیے خوشی کی بات ہے پہلے دو تین دنوں میں لگ رہا تھا کہ میچ کا کوئی نتیجہ نہیں آئے گا،میچ بے نتیجہ ہی ختم ہو جائےگا لیکن جس طرح کا میچ ہوا خاص کر آخری دو دن کافی دلچسپ کرکٹ ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ جس صورتحال میں میچ کا نتیجہ آیا اس پرمیں خوش ہوںکہ پاکستان یہ میچ جیت گیا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح کافی مشکل سے حاصل ہوئی ۔جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی اور جب اس طرح کی کامیابی حاصل ہوتی ہے ایسی جیت پر خوشی بھی بہت ہوتی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح کے ٹف میچز ہو رہے ہیں یہ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی اچھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم میں جتنے بھی نئے کھلاڑی ہیں جو ایسے پریشر میچز میں کھیلیں گے تو ان کے کھیل میں مزیدنکھار آئے گااور ان کے کرکٹ کیرئیر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کے بارے میں سوال کے جواب میں مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ٹف ہوگی،خاص طور پر جس طرح سے ویسٹ انڈیز نے پہلے ٹیسٹ میچ میں بیٹنگ کی ہے اور ایسی پیچز جوبیٹنگ کے لیے سازگار ہیں ان پیچز پر 20 وکٹیں لینا ہمارے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔مصباح الحق نے کہا کہ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے400ویں ٹیسٹ اور گلابی گیند کے ساتھ پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں جیت کو وہ یادگار لمحہ سمجھتے ہیں لیکن اس جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی۔مصباح الحق نے کہا کہ چونکہ پاکستانی ٹیم پہلی بار گلابی گیند کے ساتھ ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی، لہذا دونوں کے رویے کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے وہ مختلف ثابت ہوئے۔مصباح الحق نے کہا کہ دبئی کی پچ عام طور پر دوسرے دن سپنرز کی مدد کرنا شروع کر دیتی ہے لیکن گلابی گیند اور نائٹ ٹیسٹ میں شام کو اوس پڑنے کی وجہ سے گیند کی سلائی کا پھول جانا یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ میچ بولرز کے لیے آسان نہ تھا۔انھوں نے کہا کہ خاص کر اوس پڑنے کی وجہ سے پچ دوبارہ جڑ جاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بولرز ویسٹ انڈین بیٹسمینوں کو جلد آﺅٹ نہ کر سکے۔مصباح الحق نے یونی ویژن نیوز سے کہا کہ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں جنھوں نے اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کیں۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ یہ بات ان کے لیے خاصی تکلیف دہ تھی کہ آپ تین دن تک حریف ٹیم پر حاوی رہیں اور پھر ایک سیشن میں حریف ٹیم ہم پر حاوی رہی۔انھوں نے کہا کہ اگر پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں مزید پندرہ اوورز کھیل کر 400 رنز کی برتری حاصل کر لیتی تو ہو سکتا تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کو جلد آﺅٹ کر لیتے۔انھوں نے کہا کہ جب حریف ٹیم کو بھی جیتنے کا موقع ملنے لگے تو آپ دبا ﺅمیں آجاتے ہیں تاہم پاکستانی بولرز نے سخت محنت کی اور اچھی بولنگ کر کے ویسٹ انڈیز کو آﺅٹ کیا۔مصباح الحق کو امید ہے کہ ابوظہبی میں چونکہ ٹیسٹ میچ دن میں کھیلاجائے گا تو نہ صرف ان کے سپنرز بلکہ تیز بولرز کو بھی مدد ملے گی خاص کر وہ ریورس سوئنگ کر سکیں گے جو ان کی خصوصیت ہے۔انھوں نے بتایا کہ ڈے نائٹ ٹیسٹ میں گیند اوس کی وجہ سے گیلی ہونے کی وجہ سے بولر ریورس سوئنگ بھی نہیں کر سکے۔مصباح الحق نے تسلیم کیا کہ انھیں اس میچ میں لیفٹ آرم سپنر ذوالفقار بابر کی کمی محسوس ہوئی۔دبئی ٹیسٹ میں تین تیز بولر کھلانے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں جو میچ گلابی گیند کے ساتھ کھیلا تھا اس میں رات کے وقت سیم بولرز بہت موثر ثابت ہوئے تھے لیکن دبئی ٹیسٹ میں تیز بولرز کو اس طرح کی مدد نہیں ملی۔مصباح نے کہا کہ محمد نواز اگرچہ ذوالفقار بابر کی طرح میچ ونر کا کردار تو ادا نہیں کر سکے لیکن انھوں نے اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کیں۔