اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)موجودہ حکومت کے قبل از وقت ختم ہونے کے حوالے سے اگرچہ کچھ عرصے سے افواہوں کی چکی بہت تیز چلتی آرہی ہے، یہ پلاٹ اب کافی پیچیدہ ہوچکا ہے اور اس کی وجہ سے اقتدار کے ایسے سویلین کھلاڑیوں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے جو پہلے ایسی رپورٹس پر ہنس دیا کرتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے اگرچہ ہفتے کی پریس کانفرنس میں کسی غیر آئینی اقدام کی افواہوں کو مسترد کر دیا ہے لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دو روز قبل اس یاددہانی کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں ہے۔ وہ ایک ہفتے میں تین مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں۔ وزیراعظم جیسے عہدے کے حامل شخص کی طرف سے ایسی بات ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال معمول کے مطابق نہیں ہے۔ پردے کے پیچھے جو جاری ہے اس سے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ معاملات کس طرح ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کا جمہوریت پر لیکچر شروع ہونے سے کچھ قبل ایک ہائی پروفائل اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک بااثر رکن اور سویلین سیٹ کے ایک اہم عہدے دار کے مابین ہوا تھا۔ سویلین کو بتایا گیا تھا کہ کھیل ختم ہوچکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے بااثر رکن نے وضاحت کی کہ اتنی زیادہ گڑبڑ کے ساتھ حکومت جاری نہیں رہ سکتی۔ موجودہ سیٹ اپ کے خلاف معاشی اعداد و شمار چارج شیٹ میں سب سے اوپر ہیں۔ قومی خزانے کا خالی ہونا تشویش کی وجہ بتایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا آنے والا منصوبہ ہے۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے قادیانی کمیونٹی کے خلاف کی جانے والی تلخ تنقید پر ناپسندیدگی بھی پہنچائی گئی جس میں مخصوص افراد کو ہدف بنانے کی نیت کارفرما تھی۔ پارلیمنٹ کی جانب سے فوج اور عدلیہ کو بھی قومی احتساب بیورو کے تحت لانے کو بھی متعلقہ حلقوں کی جانب سے تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ مزید یہ بھی بتایا گیا کہ عدلیہ کے خلاف بے رحمانہ مہم اور اسے اسٹیبلشمنٹ سے جوڑنے کی کوشش کہ یہ نواز شریف کو نکالنے کے لئے کی گئی تھی، اس پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح قانون میں ترمیم کے ذریعے نااہل وزیراعظم کو پارٹی سربراہ کے طور پر واپس لانے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی بااثر شخصیت نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کی ساکھ کیا ہوگی جسے عدالت سے ایک نااہل شخص ریمورٹ کنٹرول سے چلا رہا ہو۔قبل ازیں قومی اسمبلی میں الیکشن بل 2017 کی منظوری کو وقت سے پہلے روکنے کی کوشش کی گئی، یہ بات الگ سے معلوم ہوئی ہے۔ سرکاری پارٹی کے ارکان کو پرائیوٹ نمبرز سے کالیں موصول ہوئیں جن میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ اس قانون کی منظوری کا حصہ بننے سے باز رہیں، اس کوشش کو اعلی سیاسی سطح پر رابطوں کے ذریعے ناکام بنایا گیا۔ اپنے والد کی سیاسی وارث کے طور پر مریم نواز کے ابھرنے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی بااثر شخصیت اور سویلین عہدے دار کے مابین ملاقات میں سوال اٹھایا گیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس منصوبے پر مسلم لیگ ن کی بھاری بھرکم شخصیات نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ان کی شکایت ہے کہ خاندان سے باہر کے پارٹی ممبران کی تو بات ہی الگ ہے، نواز شریف تو پارٹی کے اندر اتفاق رائے پائے جانے کے باوجود اپنے بھائی کو اپنا جانشین بنانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ کو گھر بھیجنے کے منصوبے پر غور ہورہا ہے، یہ کس طرح ہوگا؟ کسی کے پاس بھی مکمل تصویر نہیں ہے۔ اس سازش کے محرم راز حکام سے پس پردہ تبادلہ خیال سے ظاہر ہوتا ہے کہ براہ راست مداخلت کے آپشن کو ترجیح دینے پر غور نہیں کیا جارہا۔ آرمی چیف کسی غیرآئینی قدم کے حق میں نہیں ہیں، یہ وہ نکتہ ہے جس کی توثیق ڈی جی، آئی ایس پی آر نے ہفتے کے روز پریس کانفرنس میں کی، جب انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہوگا۔ اس کے بجائے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عدلیہ ثالثی کا کردار ادا کرے۔ تبدیلی کے لئے دو ممکنہ منصوبے زیر غور ہیں۔ ایک، حکمران جماعت میں فارورڈ بلا ک کی تشکیل اور دوسرا، اسلام آباد کی جانب مارچ۔ پہلا منصوبہ اسی وقت روبہ عمل آسکتا ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لئے حکمران جماعت میں سے کافی تعداد میں انحراف کرنے والے دستیاب ہوں۔ ایک کامیاب کوشش سے آخرکار نئے انتخابات کا مطالبہ پھوٹ سکتا ہے لیکن احتساب کے بعد، جس سے پارلیمنٹ کی منظوری سے قومی اتفاق رائے پر مبنی حکومت کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ یہ منصوبہ کس قدر قابل عمل ہے اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ سرکاری ارکان پارلیمنٹ نے پارٹی سربراہ کے بارے میں قانون میں ترمیم پر رائے شماری سے روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا لیکن حکمران جماعت کے لئے جو اشارے باہر آرہے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ چار منحرفین کو مختلف محاذوں پر اپنا راستہ بنانے کا کام تفویض کیا گیا تھا اور ان کی کوششوں کے نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسکور کو 50 تک لانے کا دعوی کیا ہے۔ کون اس گروپ کی قیادت کرے گا، اسے ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔دوسرا منصوبہ جس پر غور کیا جارہا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی کا ہے جیسا کہ 2014 میں ہوا تھا یا جس طرح 2016 میں محاصرے کی کال کے ذریعے کوشش کی گئی تھی۔ کوئی بھی ایشو احتجاج کا نکتہ بن سکتا ہے۔ شریف خاندان کی جانب سے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے مبینہ تاخیری حربے، پولیس اور وکلا میں ہاتھا پائی یا اگلی سماعت پر کوئی بھی مہم جوئی بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر عدلیہ پر تنقید بھی ایک وجہ بن سکتی ہے اور یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ ن لیگ کی موجودہ حکومت کی موجودگی میں احتساب ممکن نہیں ہے۔ اس مطالبے کو مزید آگے بڑھانے کے لئے کوئی درخواست دائر کر سکتا ہے، جس میں عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ دفعہ 190 کو لاگو کیا جائے جس کے تحت تمام ایگزیکٹو اور جوڈیشل حکام سپریم کورٹ کی معاونت کریں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کس طرح ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ یا قومی اتفاق رائے سے بننے والی حکومت ان آپشنز کو استعمال کرکے قائم کی جائے گی۔ اس کا جواب اس منصوبے کے معمار کے پاس ہے۔ اس وقت آئین کے بجائے کنفیوژن بالاتر ہے۔ دی نیوز کو قابل بھروسہ ذرائع سے پتہ چلا ہے،مشرق وسطی کے دو ممالک نے نئے سیٹ اپ کے قیام کی صورت میں بیل آوٹ پیکج پیش کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ آدمی یہی نتیجہ نکا ل سکتا ہے کہ ممکنہ تبدیلی کا منصوبہ نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی جہات بھی رکھتا ہے۔ نواز شریف کی جانب سے یمن کے لئے فوجی دستوں کی فراہمی سے انکار کو ابھی تک بھلایا نہیں گیا ہے۔ یہ اتفاقی مطابقت ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اچانک بہتر تعلقات سے ہوئی ہے۔ افغان صدر پاکستان آر ہے ہیں جبکہ را اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کی لندن میں ملاقات اس عزم پر ختم ہوئی ہے کہ نفرت سے گریز جائے۔ کیا خطے میں تاریخی موقعے کو گرفت میں لینے کےلئے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے؟ پاکستان کو لوڈ شیڈنگ فری قرار دے کر سی پیک کے صلے کا آئندہ ماہ اعلان کیا جارہا ہے۔ کیا پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس کا سہرا اپنے سر باندھ سکے؟ آنے والا وقت دلچسپ ہے۔
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ بینظیر کی حکومت گرانے کےلئے شریف خاندان نے اسامہ بن لادن سے پیسے لیے، الیکشن لڑنے کےلئے نوازشریف نے آئی ایس آئی سے مہران بینک کے ذریعے پیسے لئے،، آصف زرداری شکل سے ہی بڑا ڈاکو لگتا ہے،خواجہ آصف امریکہ میں کہتا ہے کہ نوازشریف کو بھارت سے دوستی پر نکالا گیا، اگر باہر مقیم پاکستان 20ارب ڈالر نہ بھیجیں تو ہمارے پاس ملک چلانے کےلئے پیسہ ہی نہیں ہے ،سینما کے ٹکٹ بیچنے والے کے اربوں روپے باہر پڑے ہیں،قتدار میں آکر اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کو کرپشن کہتے ہیں ۔وہ ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ عمران خان نے کہا کہ جو قائداعظم کی جدوجہد تھی وہی تحریک انصاف کی جدوجہد ہے ، میں پاکستان میں ایک ہی لیڈرقائداعظم محمد علی جناح کو مانتا ہوں ، قائداعظم سمجھ گئے تھے کہ کانگریس کا مقصد ہندوﺅں کی آزادی تھی ، قائداعظم نے مسلمانوں کےلئے الگ وطن کے حصول کےلئے جدوجہد کی ، کئی لوگ ابھی بھی کہتے ہیں کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا ۔انہوں نے کہا کہ اگر باہر مقیم پاکستان 20ارب ڈالر نہ بھیجیں تو ہمارے پاس ملک چلانے کےلئے پیسہ ہی نہیں ہے ، 9ستمبر کے بعد پوری دنیا میں پاکستانیوں کےساتھ براسلوک کیا گیا ، مجھے امریکہ میں ایک دفعہ 4گھنٹے اور دوسری دفعہ 6گھنٹے روکا گیا ،پاکستان ایک مقروض ملک ہے اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ، بمبینوسینما کے ٹکٹ بیچنے والے کے اربوں روپے باہر پڑے ہیں ۔عمران خان نے کہا کہ اقتدار میں آکر اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کو کرپشن کہتے ہیں ، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، پی ٹی آئی میں وہ لوگ آگے آئیں گے جو اپنے آپ سے بالاتر ہو کر ملک کا سوچیں گے ، ملک کو نئی سیاست کی ضرورت ہے ، آج دنیا میں پاکستان پاسپورٹ کی کوئی عزت نیہں ہے ، نوازشریف اور زرداری کبھی سسٹم نہیں بننے دیں گے ، ٹیلنٹ کو استعمال کرنے کےلئے ملک میں سسٹم نہیں ہے ، اگر سسٹم ٹھیک ہو وت ساری دنیا سے پاکستانی پاکستان آکر کام کرنے کو تیار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں ، عوام کی فلاح وبہبود اور تعلیم پر پیسہ خرچ نہیں کیا گیا ، یہ چار دن جی ٹی روڈ پر لگا دیتے ہین کہ مجھے کیوں نکالا ، جے آئی ٹی کے باہر کہتے ہیں کہ میرے سوالوں کا جواب نہیں دیا ، کرپٹ سیاستدانوں کے ایل این جی پر چار سال ضائع کر دیے ۔ ہماری خیبرپختونخوا میں سٹیٹس کو سے یہ جنگ چل رہی ہے کہ ہم خیبرپختونخوا میں اسپتالوں کا نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ، وہاں پر میرٹ لانا چاہتے ہیں اور سٹیٹس کو والے وہاں میرٹ نہیں چاہتے ،پرائیویٹ اسپتال اس لئے سرکاری اسپتالوں سے آگے ہیں کہ وہاں پر میرٹ ہے ۔انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کے اوپر کرپٹ لوگ بٹھا دیے ہیں ۔عمران خان نے کہا کہ آج پختونخوا کی پولیس مثالی بن چکی ہے ، ہم کے پی کے میں بہترین آئی جی لائے اور پولیس کو ٹھیک کیا ، حکمرانوں نے سول سروس کو تباہ کردیا ہے ، ہم عوام کو غربت سے نکالنے کےلئے طرز پر پالیسی بنائیں گے ، کے پی کے میں کسی سیاسی مخالف پر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب پولیس والے بھی کے پی کے والا نظام چاہتے ہیں ، خوشحالی ایک منظم قانو کے رائج ہونے سے آئے گی ، یہ ساری میگا پراجیکہٹس پیسہ بنانے کےلئے ہیں ، آج پاکستان میں غریب تڑپ رہے ہیں ، ہمیں دوستوں اور رشتہ داریوں پر نہیں میرٹ کا نظام لانا ہے ، تمام اداروں میں کرپٹ لوگوں کو بٹھایا گیا ہے ،وزیرخزانہ منی لانڈرنگ میں ملوث اور ایف بی آر میں کرپٹ لوگ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے پاکستان میں سیاست کا کلچر تبدیل ہوگیا ہے ، حکمران پیسہ باہر لے گئے ہیں ، (ن) لیگ کے جلسے میں قیمے کے نان کا لالچ دے کر بلایا جاتا ہے ، تحریک انصاف حقیقی جمہوریت بڑھ رہی ہے ، شریف خاندان کا تکبر دیکھنے والا تھا ، شریف مافیا ہر قسم کی کوشش کرے گا کہ ان پر فردجرم عائد نہ ہو، ریاست کا شریف خاندان کے خلاف کیس چل رہا ہے اور ریاست ہی شریف خاندان کو بچانے کےلئے لگی ہوئی ہے ، یہ جسٹس قیوم جیسے ججز چاہتے ہیں ، احسن اقبال سب سے بڑا فراڈ ہے، اس نے جنرل ضیاءکے دور سے اپنے سیاسی کیئرئر کا آغاز کیا ۔بینظیر کی حکومت گرانے کےلئے شریف خاندان نے اسامہ بن لادن سے پیسے لیے ۔ لیکشن لڑنے کےلئے نوازشریف نے آئی ایس آئی سے مہران بینک کے ذریعے پیسے لئے،۔ انہوں نے 1996میں فاروق لغاری کےساتھ مل کر بینظیر بھٹو کی حکومت گرائی ۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی سے باہر آکر مریم نواز آسکر ونگ پرفارمنس دکھانے کی کوشش کرتی ہیں ، شریف خاندان ڈاکے مار کر معصوم شکلیں بناتا ہے ، آصف زرداری شکل سے ہی بڑا ڈاکو لگتا ہے، آصف زرداری اور اس کی بہن نے میرے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے اس کے علاوہ شہباز شریف، نجم سیٹھی اور اسحاق ڈار کے بچوں نے بھی میرے خلاف اربوں روپے کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کررکھا ہے ۔عمران خان نے کہا کہ لگتا ہے کہ ایک دفعہ پھر سڑکوں پر آنا پڑے گا ، ہماری ہر طرح کی پریکٹس ہوگئی ہے ، پاک فوج خود کہہ رہی ہے کہ ہم آئین اورجمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں ، خواجہ آصف امریکہ میں کہتا ہے کہ نوازشریف کو بھارت سے دوستی پر نکالا گیا ۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے حسین حقانی کےساتھ مل کر امریکہ میں پروپیگنڈا کیا ، بات کچھ اور ہوتی ہے اور ڈیزل درمیان میں آجاتا ہے۔