میلبورن (ویب ڈیسک) پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے آسٹریلیا کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں بدترین کاکردگی تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اتنا مایوس کن پرفارم کریں گے۔ میلبورن ٹیسٹ میں جیت کا کریڈٹ پوری آسٹریلین ٹیم کو جاتا ہے۔تفصیلات کے مطابق میچ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ہم دباﺅ میں تھے اور یہ ایک دلچسپ کھیل تھا اور ہمیں اچھا کھیلنا چاہئے تھا۔ اظہر علی نے پہلی اننگز میں بہترین بلے بازی کی جس کے باعث ہم نے اچھا سکور کیا لیکن باﺅلنگ کر کے آسٹریلیا کو کنٹرول نہ کر سکے۔انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ میچ میں بلے بازی اور باﺅلنگ دونوں ہی اچھی کرنا پڑتی ہیں۔ اس میچ میں جیت کا کریڈٹ پوری آسٹریلین ٹیم کو جاتا ہے جنہوں نے ہم سے زیادہ اچھا کھیل پیش کیا۔انہوں نے ایک موقع پر ریٹائر منٹ کا اشارہ دیدیا ہے کہتے ہیںکہ اس حوالے سے فیصلہ 2سے 3 روز میں کرونگا ۔میلبورن ٹیسٹ میں شکست کے بعد گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پر فارم نہیں کررہا تو ٹیم میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔اب مستقبل کے حوالے سے سوچنے کا وقت آگیا ہے۔
Tag Archives: misbah-ul-haq
آئی سی سی کا منفرد ایوارڈ….مصباح کے نام
دبئی (ویب ڈیسک) انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے سال 2016 کے لیے کرکٹ ایوارڈز کا اعلان کر دیا، جس میں مصباح الحق کو آئی سی سی اسپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ دیا گیا۔خیال رہے کہ مصباح الحق پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں جبکہ ان کی قیادت میں ہی رواں برس ٹیم نے نمبر ون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔اسپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ ہر سال کھیل میں بہترین کارکردگی کے ساتھ مخالف ٹیم کے ساتھ بہترین برتاو¿، اپنی ٹیم میں اچھا کردار، منصفین کے ساتھ رویہ اور کھیل کے روایتی اقدار کو برقرار رکھنے پر دیا جاتا ہے۔2015 میں اسپرٹ آف کرکٹ کا ایوار نیوزی لینڈ کے بریند مکلم کو دیا گیا تھا۔مصباح الحق پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے یہ ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد مصباح الحق کا کہنا تھا کہ بطور ٹیم ہماری کھیل کے حوالے سے مثبت روایات اور سوچ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آئی سی سی کی جانب سے ایمپائر آف دی ائیر ماریس ایرسموس کو قرار دیا گیا۔اریس ایرسموس کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے جبکہ 52 سالہ ایمپائر فرسٹ کلاس کرکٹر بھی رہ چکے ہیں۔گزشتہ تین سال سے ایمپائر آف دی ائر کا ایوارڈ انگلینڈ کے 43 سالہ رچرڈ ایلن کو ملتا رہا ہے۔2012 میں یہ ایوارڈ سری لنکا کے ایمپائر کمار دھرما سینا کے نام ہوا تھا جبکہ 2009، 2010 اور 2011 میں پاکستان کے علیم ڈار ایمپائر آف دی ایئر قرار دیئے جاتے رہے ہیں۔
جینٹل مصباح الحق کا …. اہم راز فاش
لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کی ڈھلتی عمر کے ساتھ داڑھی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور مصباح الحق زیبِ داستاں کے لیے اسے مزید بڑھانا بھی چاہتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کرکٹ جینٹل مین گیم کے ساتھ گلیمرس کھیل بھی کہا جاتا ہے اور پاکستان کی بات ہو تو کرکٹرز کے مداح فیشن کے حوالے سے بھی انہیں سامنے رکھتے ہیں۔زندگی کا سکون کس چیز میں ہے جگہ جگہ گھوم کر مصباح الحق کو یہ حقیقت سمجھ آئی۔ مصباح الحق کرکٹ میں تو نمبر ون کپتان بنے ہی ہیں۔ اب زندگی کی وکٹ پر دین اور دنیا دونوں کی کامیاب پارٹنرشپ کی مثال بھی بن رہے ہیں۔
مصباح الحق کس کھلاڑی کو ”داد “اور کس کو” مِس“ کرتے رہے
دوبئی(نیو زڈیسک)قومی ٹیسٹ کپتان مصباح الحق نے کہا کہ جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی۔گلابی گیند اور وکٹ کے بارے میں اندازے غلط نکلے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میچ بے نتیجہ ختم ہوگا لیکن آخری دو دن کافی دلچسپ کرکٹ ہوئی جس طرح کے ٹف میچز ہو رہے ہیں یہ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی اچھے ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کےلئے پریشر میچزان کے کرکٹ کیرئیر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ 400ویںاور پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں جیت یادگار لمحہ ہے۔ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں ، ذوالفقار بابر کی کمی محسوس ہوئی۔ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ٹف ہوگی، بیٹنگ پیچز پر 20 وکٹیں لینا ہمارے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔ان خیالات کا اظہار مصباح الحق نے میچ کے بعد غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی ہمارے لیے خوشی کی بات ہے پہلے دو تین دنوں میں لگ رہا تھا کہ میچ کا کوئی نتیجہ نہیں آئے گا،میچ بے نتیجہ ہی ختم ہو جائےگا لیکن جس طرح کا میچ ہوا خاص کر آخری دو دن کافی دلچسپ کرکٹ ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ جس صورتحال میں میچ کا نتیجہ آیا اس پرمیں خوش ہوںکہ پاکستان یہ میچ جیت گیا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح کافی مشکل سے حاصل ہوئی ۔جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی اور جب اس طرح کی کامیابی حاصل ہوتی ہے ایسی جیت پر خوشی بھی بہت ہوتی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح کے ٹف میچز ہو رہے ہیں یہ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی اچھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم میں جتنے بھی نئے کھلاڑی ہیں جو ایسے پریشر میچز میں کھیلیں گے تو ان کے کھیل میں مزیدنکھار آئے گااور ان کے کرکٹ کیرئیر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کے بارے میں سوال کے جواب میں مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ٹف ہوگی،خاص طور پر جس طرح سے ویسٹ انڈیز نے پہلے ٹیسٹ میچ میں بیٹنگ کی ہے اور ایسی پیچز جوبیٹنگ کے لیے سازگار ہیں ان پیچز پر 20 وکٹیں لینا ہمارے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔مصباح الحق نے کہا کہ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے400ویں ٹیسٹ اور گلابی گیند کے ساتھ پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں جیت کو وہ یادگار لمحہ سمجھتے ہیں لیکن اس جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی۔مصباح الحق نے کہا کہ چونکہ پاکستانی ٹیم پہلی بار گلابی گیند کے ساتھ ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی، لہذا دونوں کے رویے کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے وہ مختلف ثابت ہوئے۔مصباح الحق نے کہا کہ دبئی کی پچ عام طور پر دوسرے دن سپنرز کی مدد کرنا شروع کر دیتی ہے لیکن گلابی گیند اور نائٹ ٹیسٹ میں شام کو اوس پڑنے کی وجہ سے گیند کی سلائی کا پھول جانا یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ میچ بولرز کے لیے آسان نہ تھا۔انھوں نے کہا کہ خاص کر اوس پڑنے کی وجہ سے پچ دوبارہ جڑ جاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بولرز ویسٹ انڈین بیٹسمینوں کو جلد آﺅٹ نہ کر سکے۔مصباح الحق نے یونی ویژن نیوز سے کہا کہ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں جنھوں نے اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کیں۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ یہ بات ان کے لیے خاصی تکلیف دہ تھی کہ آپ تین دن تک حریف ٹیم پر حاوی رہیں اور پھر ایک سیشن میں حریف ٹیم ہم پر حاوی رہی۔انھوں نے کہا کہ اگر پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں مزید پندرہ اوورز کھیل کر 400 رنز کی برتری حاصل کر لیتی تو ہو سکتا تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کو جلد آﺅٹ کر لیتے۔انھوں نے کہا کہ جب حریف ٹیم کو بھی جیتنے کا موقع ملنے لگے تو آپ دبا ﺅمیں آجاتے ہیں تاہم پاکستانی بولرز نے سخت محنت کی اور اچھی بولنگ کر کے ویسٹ انڈیز کو آﺅٹ کیا۔مصباح الحق کو امید ہے کہ ابوظہبی میں چونکہ ٹیسٹ میچ دن میں کھیلاجائے گا تو نہ صرف ان کے سپنرز بلکہ تیز بولرز کو بھی مدد ملے گی خاص کر وہ ریورس سوئنگ کر سکیں گے جو ان کی خصوصیت ہے۔انھوں نے بتایا کہ ڈے نائٹ ٹیسٹ میں گیند اوس کی وجہ سے گیلی ہونے کی وجہ سے بولر ریورس سوئنگ بھی نہیں کر سکے۔مصباح الحق نے تسلیم کیا کہ انھیں اس میچ میں لیفٹ آرم سپنر ذوالفقار بابر کی کمی محسوس ہوئی۔دبئی ٹیسٹ میں تین تیز بولر کھلانے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں جو میچ گلابی گیند کے ساتھ کھیلا تھا اس میں رات کے وقت سیم بولرز بہت موثر ثابت ہوئے تھے لیکن دبئی ٹیسٹ میں تیز بولرز کو اس طرح کی مدد نہیں ملی۔مصباح نے کہا کہ محمد نواز اگرچہ ذوالفقار بابر کی طرح میچ ونر کا کردار تو ادا نہیں کر سکے لیکن انھوں نے اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کیں۔