اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس کے فیصلے میں قطری شہزادے کا خط بھی مسترد کر دیا ہے اور منی ٹریل سے متعلق تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیدیا ہے۔ وزیراعظم بال بال بچ گئے، سپریم کورٹ کا پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے 6 رکنی جے آئی ٹی بنانے، وزیراعظم ، حسن نواز اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم سپریم کورٹ ا?ف پاکستان نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دو کے مقابلے میں تین ججز کے اکثریتی فیصلے کے تحت وزیراعظم کو فی الحال نااہل قرار نہیں دیا ہے۔اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل دو سینئر ترین ججز جسٹس گلزار اور جسٹس ا?صف سعید کھوسہ نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا۔پاناما کیس کے 540 صفحات پر مبنی فیصلے میں فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس ا?صف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔فیصلے میں 7روز کے اندر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے ا?ئی ٹی) تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جو کہ 60روز کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کی پابند ہو گی اور ہر دو ہفتے بعد سپریم کورٹ کے ایک 3رکنی بنچ کو اپنی پیش رفت سے ا?گا ہ کرے گی۔عدالت نے کہا ہے کہ جے ا?ئی ٹی میں نیب، وفاقی تحقیقات ادارے (ایف ا?ئی اے)، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ا?ف پاکستان (ایس ای سی پی)، اسٹیٹ بینک، ا?ئی ایس ا?ئی اور ایم ا?ئی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہو گا۔فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو بھی جے ا?ئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔جسٹس کھوسہ نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) اپنا کام کرنے میں ناکام رہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا، جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ‘فتح’ قرار دیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا، جو رواں برس 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے، جسے جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول ‘دی گاڈ فادر’ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ‘ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے’۔فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم ہے، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے اتفاق کیا۔فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کے وکلائ کی جانب سے سماعت کے دوران بطور ثبوت پیش کیے گئے قطری خطوط کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ رقم قطر کیسے منتقل ہوئی، جبکہ گلف اسٹیل ملز کے معاملے کی بھی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے۔اپنے تفصیلی میں سپریم کورٹ نے لکھا، ‘ان پٹیشنز کی باقاعدہ سماعتوں کے دوران تمام پہلوو¿ں کا جائزہ لینے کے بعد اس عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ اس عدالت کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان درخواستوں کے محدود دائرہ کار کے اندر مدعا علیہ (وزیراعظم نواز شریف) اور ان کے خاندان کی کاروباری سرگرمیوں اور ذاتی زندگیوں کا جائزہ لے، یہ درخواستیں بنیادی طور پر، خاص طور پر نہیں، نواز شریف اور ان کے بچوں (مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز) کی جائیدادوں سے متعلق ہیں، جن کا انکشاف پاناما پیپرز کے ذریعے سے ہوا تھا’۔لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی، تاکہ اس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔ تین ججوں نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کی سفارش کی جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اختلافی نوٹ لکھے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، انہیں نااہل قرار دینا چاہئے، بچوں کی وضاحت بھی قبول نہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ وزیراعظم کی ذمہ داری تھی کہ لندن فلیٹس سے متعلق عدالت اور قوم کو مطمئن کرتے، وزیراعظم لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق ایسا کرنے میں ناکام رہے، ایسی صورت میں عدالت محض تماشائی نہیں بن سکتی۔ جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ نوازشریف قومی اسمبلی کی نشست اور وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیں۔ پانامہ کیس تفصیلی فیصلہ جسٹس اعجاز افصل کی طرف سے تحریر کئے جانے والے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب نے معاملے کی تحقیقات کیلئے غیر رضا مندی ظاہر کی جس پر جے آئی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ فیصلے پر دو ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے اختلافی نوٹ لکھا جن میں سے جسٹس آصف سعید نے لکھا کہ ہم حقائق کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اپنے دفاع میں خاطر خواہ ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں، قطری خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور قانون شہادت آرڈیننس 1898ءکے تحت خط ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ جسٹس کھوسہ نے مزید لکھا کہ وزیراعظم کی قوم اور پالیمنٹ سے تقریر میں تضاد پایا گیا ہے،لہٰذا عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے اور آرٹیکل 63 ون ایف کے تحت ان کو قومی اسمبلی کی نشست سے نااہل قرار دینے کا حکم دیتے ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تین ججز نے مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ پانامہ کیس کے تفصیلی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ لندن فلیٹس کے علاوہ بھی شریف خاندان کی کروڑوں پاﺅنڈ کی جایدادیں ہیں۔ وزیراعظم کے بیٹوں نے کروڑوں کی جائیداد بنائی مگران میں کسی نے بھی اس بات کا ثبوت نہیں دیا کہ انہوں نے جائیدادیں بنانے کے لئے ابتدائی پیسہ کہاں سے لگایا اور انہیں کس نے جائیداد بنانے کے لئے مدد فراہم کی۔تفصیلات کے مطابق عدالت کی جانب سے فیصلے میں لکھا گیا کہ یہاں ایک اور بات کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا کہ اس سماعت کے دوران ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے اندرون اور بیرون ممالک لندن فلیٹس کے علاوہ بھی کئی جائیدادیں اورکاروبار ہیں۔ جن کی مالیت کروڑوں روپے یاامریکی ڈالر ز ہے۔فیصلے میں بتائی گئی صرف 4 جائیدادیں لندن کے سب سے مہنگے علاقے میں ہیں جو کہ صرف حسین نواز شریف کی ملکیت ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہ وزیر اعظم کے دوسرے بیٹے حسن نواز شریف کے نام پر کئی کمپنیاں اورکاروبار ہیں،جن کی مالیت کروڑوں پونڈز ہیں، اور ان کے وہ بھی بلاشرکت مالک ہیں جبکہ وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز شریف جو مریم صفدر کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں ان کی الگ سے کئی جائیدادیں ہیں ۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ انہوں نے یہ کاروبار اور دولت اپنی ذاتی کمائی سے شروع کی ہیں ۔نہ ہی کیس کے دوران ان میں سے کسی نے اپنے کاروبار کے ابتدائی سرمایے کے بارے میں تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حدیبیہ پیپر ملز کے کیس کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیدیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو حکم دیا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کو دوبارہ کھولا جائے اور نیب 45 دن میں سپریم کورٹ کو رپورٹ دی جائے۔یاد رہے کہ حدیبیہ پیپر ملز منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم کے سمدھی اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے نے اعترافی بیان حلفی دیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔
Tag Archives: Panama Paper
پانامہ کیس ….لندن فلیٹس کاریکارڈ…. فلیٹس کس کس سے لئے اور کتنے میں
َاسلام آباد (ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے پاناما لیکس سے متعلق کیس کی گزشتہ سماعت میں لندن اپارٹمنٹس کے ریکارڈ جمع نہ کرانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں ان اپارٹمنٹس کی ملکیت کی دستاویزات جمع کیوں نہیں کرائی گئیں اور یہ کیوں عدالت سے چھپائی جارہی ہیں۔نمائندہ کے مطابق حسین نوازکے وکیل اکرم شیخ نے ایک اضافی درخواست کے ذریعے چاروں فلیٹس کی خریداری سے متعلق ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جس میں بتایا گیا ہے کہ نیسکول کمپنی نے فلیٹ ون سیون 1993 میں 5 لاکھ 85 ہزار پاو¿نڈ میں خریدا اور نیلسن کمپنی نے فلیٹ 16 اور 16 اے 10 جولائی 1995 کو 10 لاکھ 75 ہزار پاو¿نڈز میں خریدا جب کہ نیسکول کمپنی نے فلیٹ 17 اے 5 جولائی 1996 کو 2 لاکھ 45 ہزار پاو¿نڈ میں خریدا اور چاروں اپارٹمنٹس 19 لاکھ 5 ہزار پاو¿نڈز میں خریدے گئے۔ریکارڈ میں بتایا گیا ہےکہ جس وقت فلیٹ خریدے گئے اس وقت نیلسن اور نیسکول کمپنیاں الثانی خاندان کی ملکیت تھیں، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فلیٹس کی خریداری سے متعلق دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے کیونکہ دستاویزات کو ریکارڈ پر لانے سے انصاف ہوسکے گا۔دوسری جانب ترجمان شریف فیملی سے دستاویزات سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پارک لین اپارٹمنٹس کی دستاویزات سے متعلق خبر درست نہیں، 30 نومبر کے بعد کوئی بیان یا دستاویزات جمع نہیں کرائی گئیں، کاغذات فاضل عدالت کے استفسار پر مہیا کیے گئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ فلیٹس 2006 سے قبل لینے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔