واشنگٹن(ویب ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تمام کاروبار سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے ۔جس کے بعد پورے امریکہ اور بیرونی ممالک میں اُن کے کاروبار سے وابستہ افراد اور کمپنیوں میں کھلبلی مچ گئی ہے ۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بطور صدر و ہ اپنے تمام کاروبار سے دستبرداری کا اعلان اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ اب اُن کے کندھوں پر ملک کی بھارتی ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں ۔
Tag Archives: trump
ٹرمپ کی دھمکی ….اہم انکشاف
واشنگٹن (ویب ڈیسک) ایک ٹویٹ پیغام میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر کیوبا نے کسی بہتر ڈیل پر رضامندی ظاہر نہیں کی تو وہ پرانی ڈیل ختم کر دیں گے۔ خیال رہے کہ تقریبا نصف صدی تک امریکی پابندیوں کو شکار کیوبا کے اوپر لگی معاشی پابندیاں حال ہی میں امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ کیوبا کے دوران اٹھائی گئی تھیں۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔
ٹرمپ کے سرپر خطرے کی گھنٹی …. خبر سے ہل چل مچ گی
نیو یار ک(ویب ڈیسک)نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی خطرے میں پڑ گئی ، امریکہ میں گرین پارٹی کی رہنما نے تین ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست دیدی ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکہ میں گرین پارٹی کی رہنما اور صدارتی امیدوار جل اسٹین نے رواں ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈالی جانے والی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیلئے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی تین ریاستوں وسکونسن، مشی گن اور پنسلوینیا میں دوبارہ سے گنتی کرائی جائے جس پر الیکشن کمیشن نے وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دیدیا ہے ۔انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ حامیوں نے وسکونسن، مشی گن اور پنسلوینیا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دیگر اخراجات کے لیے پچاس لاکھ ڈالر جمع کیے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تینون ریاستوں میں دوبارہ گنتی کے لیے 70 لاکھ ڈالر تک اخراجات آ سکتے ہیں۔وسکونسن ریاست کے الیکشن کمیشن ایڈمنسٹریٹر مائیک ہاس کہتے ہیں کہ سٹین اور ایک دیگر گروپ نے جمعہ کو دوبار گنتی کے لیے درخواستیں جمع کروائیںجس کے بعد ہم نے دوبارہ گنتی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور 13 دسمبر تک ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل مکمل کرنا ہے۔سٹین نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ وسکونسن میں ووٹنگ کے لیے استعمال ہونے والی مشین ہیکنگ کے انتہائی خطرے کی شکار ہو سکتی تھیں اور ان میں سکیورٹی کی بھی کمی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کو 8 نومبر کے انتخابات میں ان تینوں ریاستوں میں اپنی حریف ہلری کلنٹن کے کامیابی بہت معمولی برتری حاصل ہوئی تھی۔تاہم اگر ان تینوں ریاستوں میں دوبارہ گنتی کے بعد نتائج تبدیل بھی ہوں تو بھی ٹرمپ کی مجموعی پر اس کے قابل ذکر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔جل اسٹین نے کہا ہے کہ وسکونسن میں دوبارہ گنتی سے ہیلری کلنٹن صدر منتخب نہیں ہو سکتیں ۔
ٹرمپ کی بیٹی ٹرمپ سے ہی الگ…. اہم انکشاف
واشنگٹن (ویب ڈیسک )نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد اپنا بزنس اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹس والد سے الگ کر لئے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد اپنا بزنس اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹس والد سے الگ کر لئے ہیں۔ایوانکا کثرت کے ساتھ اپنے والد نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نظر آرہی تھیں جس کے بعد تنقید ان پر بڑھ گئی تھی۔علیحدگی کا یہ بیان ان کے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر ظاہر ہوا جس میں ایوانکا کی ٹیم نے کہا کہ اب یہ صرف ذاتی استعمال کے لئے ہو گا۔
ٹرمپ کی اہلیہ اور بیٹا وائٹ ہاﺅس سے باہر ….اہم وجہ سامنے آگئی
نیویارک (سپیشل رپورٹر سے) امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیہ ٹرمپ اور بیٹے بیرن ٹرمپ وائٹ ہاو¿س کے مکین ہونے کے باوجود وائٹ ہاو¿س سے باہر رہیں گے۔برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیہ ٹرمپ اوربیٹے بیرن ٹرمپ وائٹ ہاو¿س کے مکین ہونے کے باوجود وائٹ ہاو¿س سے باہر رہیں گے،میلانیا اور ان کا 10سال کا بیٹا بیرن ٹرمپ ٹاور میں رہیں گے،بیرن فورتھ گریڈ مکمل ہونے تک نیویارک کے سکول میں پڑھیں گے۔
ٹرمپ مخالف مظا ہرے ….مختلف امریکی ریاستوں میں پھیل گئے
واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تیسرے دن بھی مظاہرے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس میں بھی ڈونلڈٹرمپ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔ نیویارک کے شہر فلرسنٹر میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مظاہرے۔ پولیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ میامی میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج۔ میامی میں مظاہرین نے مک آرتھر کازوے کو بند کردیا۔ فلاڈیلفیا کے سٹی سنٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
واشنگٹن+ نیویارک (خصوصی رپورٹ)امریکہ میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف تیسرے روز بھی مختلف ریاستوں میں ہزاروں افراد نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے سڑکیں بلاک کر دیں اور ٹرمپ صدر نامنظور سمیت دیگر نعرے لگاتے ہوئے قومی پرچم نذرآتش کئے۔ کئی مقامات پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے شیلنگ بھی کی اور مزید 59 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ادھر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ یہ پیشہ ور مظاہرین ہیں اور انہیں میڈیا نے بھڑکایا۔ ملک میں شفاف انتخابات ہوئے۔ میڈیا کا پیشہ ور مظاہرین کو بڑھاوا دینا نامناسب ہے احتجاج غیرمنصفانہ ہے۔ دوسری طرف انتخابی مہم کے دوران تعصبانہ بیان دینے والے ٹرمپ کے صدر بنتے ہی کئی شہروں میں مختلف واقعات کے دوران غیرملکیوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ تعصب اور نفرت انگیز وال چاکنگ بھی کی گئی جبکہ سان ڈیاگو میں تو تعصب پسند امریکیوں نے روایتی مسلم لباس میں ملبوس خاتون پر حملہ تک کر دیا اور پرس، گاڑی چھین کر فرار ہو گئے۔ کیلیفورنیا کی سین جوز یونیورسٹی میں ایک شخص نے مسلمان خاتون کا سکارف چھین لیا۔ نارتھ کیرولینا، لوزیانا اور فلاڈلفیا میں نفرت انگیز وال چاکنگ کی گئی ہے۔ منی سوٹا کے ہائی سکول اور دیگر عمارات کی دیوار پر افریقہ واپس چلے جا، امریکہ کو عظےم بنا، سفید فام افراد نے اقتدار سنبھال لیا جیسی تحاریر لکھی گئی ہیں۔ نیویارک کے ٹینڈم سکول آف انجینئرنگ میں نماز کی جگہ پر بھی نفرت انگیز تحریر لکھی گئی ہے۔ مسلمان طلباکا کہنا ہے کہ امریکہ میں پھیلنے والے تعصب سے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں۔ واشنگٹن، نیویارک، اوکلینڈ، شکاگو، لاس اینجلس، سان فرانسسکو، بوسٹن، برکلے سمیت دیگر شہروں میں مظاہرین نے شدید نعرے بازی کی اور ہائی ویز کو بلاک کر دیا۔ ہزاروں افراد پھر ٹرمپ ٹاور کے گرد جمع ہو گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ احتجاج کے باعث پہلی بار وائٹ ہاس کے باہر تمام لائٹس کو بند کر دیا گیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین کا کہنا ہے ٹرمپ کی صدارت نسلی اور صنفی تقسیم پیدا کرے گی۔ دوسری جانب واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر پال رائن اور سینٹ کے قائدِ ایوان میچ میکونل سے ملاقات کی۔ اس مختصر ملاقات میں ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنھبالنے کے بعد اپنی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امیگریشن، ہیلتھ کیئر اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ان کی اولین ترجیح ہیں۔رپبلکن سینیٹر پال رائن کانگریس میں اہم عہدے پر ہیں اور انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ٹرمپ کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پال رائن کے ساتھ میڈیا سے مختصر بات چیت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی عوام کے لیے شاندار اقدامات متعارف کروائیں گے۔ بہت سی ترجیحات ہیں جن سے عوام خوش ہوں گے۔ ہم امیگریشن کے معاملے کو بہت سختی سے لیں گے۔ سرحدوں پر نظر رکھیں گے اور ہم ہیلتھ کیئر نظام کا بھی بہت کڑی نظر سے جائزہ لیں گے۔ ٹرمپ نے مظاہروں پر ردعمل میں کہا ہے کہ ان کے خلاف ہونے والے منظم مظاہرے میڈیا کے اکسانے پر کیے جا رہے ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والے مظاہرے ناانصافی پر مبنی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ریاست ایوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں مظاہروں نے پرتشدد صورتحال اختیار کر لی۔ پورٹ لینڈ میں سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے دکانوں اور گاڑیوں کے شیشے توڑے مظاہرین نے ایک بڑے کوڑا دان کو نذر آتش کر دیا جبکہ پولیس پر کریکرز پھینکے۔ پولیس نے ٹرمپ مخالف احتجاج کو ہنگامے قرار دیا ہے۔ زیادہ تر مظاہرین نوجوان ہیں۔ دریں اثنانومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر انتخاب کے ایک دن بعد ہی ان کے مواخذے کے منصوبے بننے لگے ہیں۔ ایک برطانوی اخبار ڈیلی سٹار نے رپورٹ دی ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ارکان نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور مختلف مواد جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے اساتذہ اور طلبا سمیت ہزاروں افراد ڈونلڈ ٹرمپ کی بدعنوانیوں بدزبانیوں اور بداعمالیوں کے خلاف متحد ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف آن لائن پٹیشن پر 30ہزار تین سو بائیس افراد نے دستخط کر دئیے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے مواخذے کا کیس انتہائی مضبوط ہے۔ قانون کے ایک پروفیسر کے مطابق ٹرمپ کے خلاف کافی شواہد موجود ہیں اور فراڈ امریکی آئین میں مجرمانہ فعل ہے۔ دریں اثناڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف فراڈ کیس میں ٹرائل موخر کرنے کی درخواست کر دی۔ ٹرمپ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے رئیل اسٹیٹ سیمینارز میں فراڈ کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے موقع پر ٹرمپ کے وکیل نے کہا ٹرمپ 28 نومبر کو شیڈول ٹرائل کو جنوری میں اپنا عہدہ سنبھالنے تک موخر کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے صدر بننے کے بعد امریکی صدر کو اس سے قبل کے مقدمات میں ٹرائل سے استثنی حاصل ہو جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے پر امریکی خواتین نے انکے عورتوں سے متعلق خیالات پر ملین مارچ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اب تک35ہزار خواتین نے مارچ میں شرکت پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
ٹرمپ / مظاہرے
نو منتحب امریکی صدر کی دولت بارے اہم ترین انکشاف
واشنگٹن(آن لائن)ڈونلڈ ٹرمپ متنازعہ ترین شخصیت ہونے کے باوجود امریکی صدر بن گئے ،ڈونلڈ ٹرمپ 14 جون 1946 کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1968 میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا سے اکنامکس میں گریجویشن کیا۔ 1970 کی دہائی میں، محکمہ انصاف نے ٹرمپ آرگنائزیشن پر فیئر ہازنگ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جس کے ذریعے اقلیت کو ان کی عمارتیں کرائے پر لینے سے روکا گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس مقدمے کا فیصلہ عدالت سے باہر طے کیا۔بعد میں، ایک اہم قدم کے طور پر، ٹرمپ نے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن کے ساتھ والا ایک ہوٹل خریدا، جو دیوالیہ قرار دیا جا چکا تھا۔ انھوں نے سات کروڑ ڈالر ادھار لیے اور نیو یارک سٹی سے ٹیکس کی مراعات مانگیں، اور تعمیر نو کے بعد انھوں نے اسے گرینڈ ہائٹ ہوٹل کا نام دیا۔1971 میں انہوں نے اپنے والد فریڈ ٹرمپ کی رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کمپنی کا کنٹرول سنبھالا جس کا نام بعد میں بدل کر دی ٹرمپ آرگنائزیشن رکھا۔ڈونلڈ ٹرمپ دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے صدر اور چئیرمین ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی دولت کا اندازہ 4ارب ڈالرز تک لگایا گیا ہے۔دیگر کمپنیوں کے تعمیراتی منصوبوں کی اشتہاری مہم میں اپنا نام بطور فرنچائز استعمال کرنے کا معاوضہ بھی لیتے رہے ہیں۔”ٹرمپ ٹاور”بھی ان کی پہچا ن بنا جو بیس کروڑ ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ اور آڑھت کے کاروبار پر مشتمل ایک تنصیب ہے، جس کی تعمیر میں گلابی رنگ کا سنگ مرمر استعمال ہوا، جس کی 58 منزلیں ہیں، جب کہ آبشار 18 میٹر بلند ہے۔نیو جرسی میں ایٹلانٹک سٹی میں کیسینوز کی تعمیر کی وجہ سے بھی، ٹرمپ کو شہرت ملی۔ پہلے ٹرمپ پلازا، پھر ٹرمپ کیسل اور پھر، تاج محل تعمیر کیا جس پر ایک ارب ڈالر خرچ آئے۔ لیکن، بعد میں دیوالیہ پن کا شکار ہوئے۔ 1990 میں جب جائیداد کی مارکیٹ کریش ہوئی، تو ان کی ملکیت 1.7 ارب ڈالر سے گِر کر 50 کروڑ ڈالر رہ گئی۔قرقی سے بچنے کے لیے، انھوں نے رقوم ادھار لیں، اور نئے سرمایہ کار تلاش کیے۔لیکن گھر کے محاذ پر، طلاق کے معاملے سے نہ بچ سکے اور ذرائع ابلاغ میں انھیں “دی ڈونالڈ” سے پہچانا جانے لگا۔
ٹرمپ پاکستان کے کس شہر میں پیدا ہوئے …. جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے ٓ
اسلام آباد (ویب ڈیسک) نو منتحب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے شہر شمالی وزیرستان میں 14 جون 1964 کو پیدا ہوئے۔ نجی ٹی وی کا کہنا ہے کہ ڈونلذ ٹرمپ دراصل پاکستانی اور پٹھان ہیں۔ پیدائش کے بعد نام داﺅد ابراھیم رکھا گیا۔ ابتدائی تعلیم ایک مدرسے میں حاصل کی۔ ان کے والد ایک ٹریفک حادثے میں مارے گئے تھے جس کے بعد برٹش آرمی سے ریٹائرڈ ایک آرمی آفیسر نے گود لیا اور امریکہ لے آئے جہاں ان کا نام ڈونلذ ٹرمپ رکھا گیا۔
ٹرمپ کی فتح ، اربوں ڈالر ڈوب گئے
واشنگٹن (سپیشل رپورٹر سے) امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخاب میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع جیت کے باعث دنیا بھر کی منڈیوں میں شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا اور سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح اور ہیلری کلنٹن کی شکست کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر کی اسٹاکس مارکیٹس، کرنسی ریٹ اور سونے کی قیمتوں میں غیر یقینی کی صورتحال دیکھنے میں آئی‘ دنیا کے بہترین حصص بازاروں میں شامل پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس ایک وقت میں 700 پوائنٹس نیچے چلا گیا، اسی طرح ممبئی، ٹوکیو، شنگھائی اور سڈنی اسٹاک ایکسچینج میں بھی شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا۔امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج نے حصص بازاروں کے علاوہ کرنسی مارکیٹس کو بھی متاثر کیا اور ڈالر کے مقابلے میں دیگر کرنسیوں کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا، ایکسچینج کرنسی ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں یورو 2.30 روپے مہنگا ہوگیا جس کے بعد یورو کی قیمت 116.70 سے بڑھ کر 119روپے پر آگئی ¾اوپن مارکیٹ میں برطانوی پاونڈ کی قیمت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا اور برطانوی پاﺅنڈ 131.80 سے بڑھ کر 132.80 روپے پر آگیا ¾ جاپانی ین 4 فیصد مہنگا ہوکر 1.03 روپے پر آگیا۔امریکی انتخابات نے عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں کو بھی متاثر کیا جس کے باعث عالمی مارکیٹ میں سونا فی اونس 51 ڈالر مہنگا ہوگیا ¾ ایشیائی سیشن میں لائٹ سوئیٹ کی قیمت میں ایک ڈالر 66 سینٹ کی کمی کے بعد خام تیل کی فی بیرل قیمت 43 ڈالر 32 سینٹ ہوگئی۔
امریکی عوام خاتون کو بطور صدر دیکھنے کو تیار نہیں تھے….تجزیہ :امتنان شاہد
میں بطور پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر بالکل حیران یا پریشان نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو تھوڑے مارجن سے نہیں بلکہ بڑے مارجن سے شکست دی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل جب دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تھی تو میں نے عالمی ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کیں اور امریکہ میں میرے ذرائع نے بھی تصدیق کی تھی یہی میرا ذاتی مشاہدہ بھی تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی سمجھداری کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے اور انہوں نے امریکہ کی سفید فام آبادی کو فوکس کیا اور وہی ان کا ہدف رہے۔ جن لوگوں نے امریکہ دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکی گوروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے ان کو صرف دو وقت کی روٹی، صحت کی سہولیات اور تعلیم چاہیے ان کا اپنی صحت کی سہولیات سے مطلب ہوتا ہے یا انہیں اپنی نوکریوں کی فکر ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم کی یہی خاص بات رہی کہ انہوں نے اسی آبادی کو فوکس کیا، ہیلری کلنٹن کی شکست کی دوسری سب سے بڑی وجہ جو سامنے آئی وہ ان کا خاتون ہونا تھا، ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جس نے ہیلری کے ہارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی ذہنی طور پر کسی خاتون کو بطور صدر دیکھنے کیلئے اپنے آپ کو تیار ہی نہیں کر پائے، اگر آپ پولنگ کے اعدادو شمار پر نظر دوڑائیں تو اس میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ نقل مکانی کرکے آٓنے والے امریکیوں جن کی کل تعداد امریکی آبادی کا 35 فیصد ہے جس میں سے 19 فیصد ایشیائی ہیں جبکہ اس 19فیصد میں سے 4 فیصد صرف پاکستانی نژاد امریکن ہیں، ہم یہ بھی بڑی خوشی سے کہتے ہیں کہ ہیلری پاکستان کی بڑی دوست ہیں اور پاکستان آتی جاتی بھی رہی ہیں اور پاکستانی مسائل سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان سے بڑا اچھا سلوک کرینگی، یہ پاکستانیوں کی غلط فہمی تھی، ہے اور رہے گی، ان کی سوچ میں پاکستانی سٹیبلشمنٹ ہمیشہ اس وقت سہولت میں ہوتی ہے جس وقت امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کا صدر ہوتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ تمام پاکستانی نژاد امریکیوں نے یہ سوچا شاید ڈیموکریٹ ان کے لیے بہتر ثابت ہوں اور انہوں نے یہی سوچ پر ہیلری کو ووٹ دیا لیکن اگر ہم الیکشن کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو کاسٹ کیے گے ووٹوں میں سے کالے امریکیوں میں سے 90 فیصد نے ٹرمپ کوووٹ دیا اور صرف10فیصد ووٹ ہیلری کے حصے میں آئے۔ امریکی بطور قوم بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں وہ ابھی تک اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار نہیں کر پائے کہ وہ کسی خاتون کو بطور صدر قبول کریں۔ امریکی پوری دنیا میں این جی اوز کے ذریعے یا اپنی تعلیمات اور تبلیغ کے لیے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرد اور خاتون میں برابری ہونی چاہیے، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں لیکن اس الیکشن کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قوم خواتین کوحقوق دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ان کی برابری کے دعوے ایک ڈھکونسلہ ہیں امریکی صرف این جی اوز کو پیسے دیکر انسانی حقوق کی آوازیں اٹھا کر یا ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین کو اپنے مطلب کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں۔ ملالہ پر حملہ ہوا جو ایک بری بات ہے، اللہ تعالی نے ان کی جان بچائی اور بطور پاکستانی خوشی ہے کہ وہ صحت یاب ہوئیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ امریکی اپنے مطلب کے لیے استعمال بھی ضرور کرتے ہیں۔ اگر امریکی اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو بطور قوم اور سٹیبلشمنٹ ہیلری کو صدر بنانے میں ان کے مددگار ضرور ثابت ہوتے جو کہ نہیں ہوا۔ ڈیڑھ سال سے جب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام لگا رہے تھے تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ انہوں نے امریکیوں میں موجود ڈر کو ایڈریس کیا اور ٹارگٹ بنایا۔ امریکی ایک ڈرپوک سی قوم ہے جو زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے اور جو بھی اس بات کو پن پوائنٹ کرے گا تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے، ٹرمپ نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا اور اپنی پوری انتخابی مہم میں امریکی عوام میں موجود اسی خوف کو ہلکی سے آگ لگانے کی کوشش کی۔ شروع میں سب سمجھتے رہے کہ وہ ان کا منفی پوائنٹ ہے لیکن آخر کار یہی ان کا مثبت پوائنٹ ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے کسی سرکاری دفتر میں کام نہیں کیا وہ واشنگٹن میں بھی مشیر نہیں رہے وہ ایک عام آدمی کے طور پر سامنے آئے لیکن ان کے مقابلے میں ایک کہنہ مشق سیاستدان تھی جو دو دفعہ وزیر خارجہ رہ چکی تھیں، نتیجہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی عوام نے جہاں ایک خاتون کو ووٹ نہیں کیا وہیں انہوں نے روایتی سیاست کو بھی مسترد کیا ہے۔ امریکی عوام ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لائے ہیں جو بظاہر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے رنگ میں بیٹھ کر لوگوں سے کشتیاں بھی کرتا ہے، وہ لوگوں کی حجامت بھی بناتا ہے اوراپنے چہرے پر رنگ ڈال کر ٹی وی پروگرامز میں بھی آتا ہے اور وہ جو کہہ رہا ہے اسے صحیح سمجھتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس پر لوگوں نے اسے ووٹ کیا ہے چاہے اس سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، ٹرمپ کی آٓئندہ پالیسیوں کے حوالے سے میری ذاتی رائے ہے کہ اگلے دو سے اڑھائی سال کے اندر دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ایک بڑی جنگ ہوگی، جس میں براہ راست امریکہ کی مداخلت ہوگی۔ جنگ جنوبی چین میں سمندری حدود کے تنازع پر بھی ہوسکتی ہے اور کوریا اورشمالی کوریا کی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان کے ساتھ پرابلمز بھی ہو سکتی ہیں پاکستان کے مقابلے میں ٹرمپ کی طرف سے بھارت کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ پھر ترکی یا شام کے اندر داعش کا معاملہ جنگ کا باعث بن سکتا ہے اگر ہم یہ سب ملا کر دیکھیں تو ٹرمپ کے ہوتے ہوئے دنیا پر ایک بڑا سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کے اپنی پالیسیوں پر یوٹرن لینے کے امکان یا خود ٹرمپ کی طرف سے کوئی پالیسیاں بنانے کے حوالے سے میں یہ نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا، امریکہ کی 70فیصد پالیسیاں سٹیبلشمنٹ، پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بناتا ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جب بھی ری پبلکن اقتدار میں آئے چاہے وہ بش سینئر کا دور ہو یا بش جونیئر کا ان کے دورِ اقتدار میں جنگیں ہوئیں، عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر جنگ ہوئی، افغانستان میں نائن الیون کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، جب کچھ نہ نکلا تو امریکی سٹیبلشمنٹ نے بڑی خوبصورتی سے کہہ دیا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا ہمارے ایک صدر صاحب آئے تھے جو بڑے بے وقوف تھے انہوں نے 70سے80 ہزار افراد قتل کیے جس کے بعد کچھ نہ نکلا، چلیں اب کمیٹی بنا دیں تو انہوں نے کمیٹی بنا دی جس کی انکوائری تاحال چل رہی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں جب بھی ایسے صدور آتے ہیں جن کا کوئی بیک گراﺅنڈ نہیں ہوتا تو سٹیبلشمنٹ ان کو اپنے فیصلوں کے لیے استعمال کرتی ہے امریکی سٹیبلشمنٹ اور قومی سلامتی کے ادارے بھی بالکل اسی طرح سوچتے ہیں جس طرح باقی دنیا کے ادارے اپنے اپنے قومی مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے نئے یو پوائنٹ پر جب کوئی ملک، معاشرہ ، ادارہ یا شخص بہت طاقتور ہوتا ہے تو اسے اپنی امیج کی کوئی فکر نہیں ہوتی وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے وہ بھارت کو صرف اس لیے سپورٹ کرتا ہے کیونکہ بھارت ان کے بہت سے مسائل حل کرتا ہے۔ آپ دونوں ممالک کے معاشی تعلقات پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صرف کمپیوٹر انڈسٹری یا انٹرنیٹ، سافٹ ویئر کی تجارت دیکھ لیں تو اس کا حجم پاکستان جیسے کئی ملکوں کی معیشت سے بھی زیادہ ہوگا، انٹرنیٹ اور سافٹ ویئر کی تجارت کے ساتھ ان کا فوکس ہے کہ چائنہ کے مقابلے میں کمپیوٹر کی ہائیکنگ کو کیسے روکنا ہے یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی ایک مثال ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اگلے دو سالوں کے اندر پاکستان، چائنہ، روس ایک طرف کھڑے ہونگے جبکہ ان کے ساتھ ترکی اور تین چار خلیجی ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب آپ کو بھارت امریکہ، افغانستان اور بنگلہ دیش کھڑے نظر آئینگے انہیں بھی تین چار عرب ممالک کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، جو کہ شیعہ سنی وکٹ پر کھیلیں گے لہٰذا یہ کہہ دینا کہ صرف پاکستان کے لیے یا باقی دُنیا کے لیے یہ پیغام دیا ہے we dont care، امریکی عوام اور سٹیبلشمنٹ کو کوئی پروا نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی اور کیا کہتی ہے کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہیں، ان کی جیب میں پیسے ہیں، ان کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے صرف اپنے لوگوں کے بارے میں سوچا ہے ان کو باقی دنیا کی سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔