لاہور (تجزیہ : ضیا شاہد) باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان نے محرم کے فوری بعد اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا ہے، اس لئے پانامہ لیکس کے سلسلہ میں حکومتی ٹیم اور اپوزیشن ٹیم کے مابین ٹی او آرز طے کرنے کے بارے میں رکے ہوئے مذاکرات کو پھر سے شروع کیا جائے گا تا کہ اگر کوئی قابل عمل فارمولا طے ہو سکے تو عمران خان کے دھرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ واضح رہے کہ لاہور میں اخباری ایڈیٹروں سے ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے انکشاف کیا تھا کہ چین کی حکومت 36 ارب ڈالر کے بعد مزید 8 ارب ڈالر ریلوے ٹریک جدید اور تیز ترین گاڑیوں کے لئے بنانے کے اخراجات برداشت کرے گی۔ بلکہ چین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر آپ پاکستان کے اندر سیاسی جماعتوں کے اختلافات پر قابو پا لیں تو پاکستان کے لئے مزید منصوبوں کی تکمیل کی خاطر بے شمار فنڈز فراہم کئے جائیں گے، لیکن چینی قیادت کے بقول پاکستان کے علاقائی رہنماﺅں کی طرف سے اسلام آباد کی مخالفت اور سیاسی جماعتوں کی باہم سر پھٹول پر اسے گہری تشویش ہے، اسلام آباد کے سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بڑھ کر باہر رہ جانے والوں سیاستدانوں سے مشاورت کو یقینی بنانے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ضروری ہے، ادھر حکومتی پالیسی سازوں نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ سیاستدانوںکے علاوہ بھارت کی طرف سے جنگی دباﺅ کے پیش نظر سوسائٹی کے دیگر طاقتور حلقوں اور اداروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے کہ وہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ثمر آور بات چیت کے لئے راستہ ہموار کرے اس ضمن میں مختلف پریشر گروپوں، ملک گیر تنظیموں اور مضبوط اداروں سے رابطے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ سی پیک منصوبے کی حفاظت سے لے کر اندرون ملک سیاسی انتشار کو قومی اتحاد میں تبدیل کیا جائے اور پانامہ لیکس سمیت تمام اختلافی امور کو طے کرنے کے لئے راستے تلاش کئے جائیں جو دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول ہوں، اس ضمن میں محرم کے آخری ہفتہ تک ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ عمران خان نے رائیونڈ یہ اعلان کیا ہے کہ اگر اداروں نے احتساب نہ کیا تو ہم اسلام آباد کو بند کر دیں گے، حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بھی طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد کا گھیراﺅ کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے، لیکن اس میں دونوں کو خاطر خواہ کامیابی نہی ںملی تھی، اور آج بھی ان کا یہ اعلان کہ محرم کے بعد وہ تن تنہا اسلام آباد کو بند کر دیں گے، اگرچہ وفاقی حکومت کے لئے یہ تشویش کی بات نہیں ہے اور وہ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ تاہم باخبر حلقوں کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ وہ آخری کوشش کے طور پر اس صورتحال کو پیدا نہ ہونے دیں واضح رہے کہ پولیس اور زیادہ سے زیادہ رینجرز اور ضرورت پڑنے پر فوج حکومت کے احکام پر عملدرآمد کرے گی اور کسی بھی آئینی اور قانونی بحران کے موقع پر جمہوریت کو بچانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرے گی، لیکن یہ کوشش بھی ساتھ ساتھ جاری ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے علاوہ بھارت کی طرف سے جنگی جنون کے پیش نظر اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ پاک فوج پر اندرونی انتشار کو ختم کرنے کے لئے کوئی ذمہ داری نہ ڈالی جائے تا کہ وہ اندرون ملک دہشت گردوں اور سرحدوں پر غیر ملکی جارحیت کے مقابلے میں پورا وقت اور توجہ دے سکے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومتی حلیف جماعتوں کے سربراہوں محمود اچکزئی، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن اور بچی کھچی ایم کیو ایم کی مدد سے پارلیمنٹ کے باہر حکومت کی تبدیلی کی کوشش کرنے والی قوتوں کو باہر رکھا جا سکے، وزیراعظم نوازشریف کی پیپلزپارٹی کے اصل سربراہ آصف زرداری سے ٹیلی فونک گفتگو اس سلسلے کی کڑی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ جمہوری طرز حکومت کو بچانے کیلئے زرداری نے گرین سگنل دیدیا ہے اور نوازشریف حکومت کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔ تا کہ پیپلزپارٹی کی سینٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت یہ چاہتی ہے کہ وہ عمران خان کی تحریک انصاف کی جس قدر حمایت کر چکے ہیں اس کے بعد انہیں حکومتی بنچوں کی حمایت میں سرگرم عمل ہونے کے لئے کوئی سیاسی جواز چاہئے تا کہ ان کی فیس سیونگ ہو سکے، توقع ہے کہ جلد ہی حکومتی پارٹی کی طرف سے اسحاق ڈار، پرویز رشید، احسن اقبال اور خواجہ آصف سرگرم نظر آئیں گے، اور اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص پیپلزپارٹی سے مل کر کوئی ایسا راستہ تلاش کریں گے جس سے پیپلزپارٹی کو عمران خان کے مطالبہ پر کھل کر ساتھ دینے یا کوئی سرگرمی دکھانے کے بجائے پارلیمنٹ کی طرف لوٹنے اور حکومت کی حمائت کا جواز مل سکے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ریٹائر فوجی جرنیلوں کے ذریعے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں، اس ضمن میں بلوچستان کے سابق گورنر اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ جو ایک مدت سے عملاً سیاست سے الگ اور گوشہ نشین نظر آتے ہیں کے علاوہ جنرل (ر) عبدالقیوم اور راجہ ظفر الحق کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی جو جنرل ضیاءالحق کے دور صدارت میں فوج کے اوپننگ بیٹسمین کہلواتے تھے واضح رہے کہ چودھری نثار علی خاں اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی کوشش اور پے درپے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتوں کے بعد سیاسی حلقے مطمئن ہیںکہ کسی بھی بحران میں پاک فوج ہر گز سیاست میں حصہ نہیں لے گی اور اپنا پورا وقت اور قوت دہشت گردوں کے علاوہ سرحدوں پر غیر ملکی جارحیت کیلئے صرف کرے گی۔ محرم کے 30 دنوں میں کیا سیاسی طورپر اپوزیشن پارٹیوں سے پانامہ لیکس کے مسئلہ پر عمران خان کو تنہا کرنے کی کوشش کامیابی حاصل کر سکے گی یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے دو ہفتوں میں ہو جائے گا، حکومتی حلقے اس بات پر مطمئن ہیںکہ پہلے ہی وہ عمران خان سے طاہرالقادری کو الگ کر چکے ہیں جنہوں نے رائیونڈ جلسہ میں علامتی طور پر چند افراد بھجوانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ مسلم لیگ ن سے اگرچہ مسلم لیگ ق الگ ہو چکی اور اس نے 8 برس تک نوازشریف کی منتخب حکومت ختم کرنے والے جنرل پرویز مشرف کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد دھرنوں کے دوران ہر اہم اجلاس میں شریک چودھری شجاعت نے اپنے پرانے دوستوں کا ساتھ دینے کے لئے رائیونڈ جلسہ میں ٹوکن شمولیت سے بھی انکار کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اعلیٰ حلقوں میں کوئی زیادہ تشویش نہیں پائی جاتی تاہم چین کے مشورہ کے علاوہ پاک فوج کو اندرونی اتحاد کا تحفہ دینے کیلئے حکومتی پارٹی اس بات کی بھرپور جدوجہد کر رہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لئے سابقہ موقف سے راہ فرار حاصل کرنے کا کوئی جواز مہیا کر سکے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، آل پارٹیز کانفرنس اور بعض دیگر قومی پریشر گروپس کی مدد سے کیا وفاقی حکومت اپنا یہ ٹارگٹ حاصل کر لے گی اس کے نتائج بھی محرم کے دوران ہی سامنے آ جائیں گے۔ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اگرچہ انہیں اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پیپلزپارٹی سے کچھ زیادہ امید نہیں ہے کہ ان کے لیڈر کسی نہ کسی بہانے عمران خان کی سیاست سے حود کو الگ ظاہر کر رہے ہیں لیکن عمران خان کے ساتھی ذاتی مجالس میں تو یہ بات زیر بحث لاتے ہیں لیکن آن ریکارڈ اب تک یہی کہہ رہے ہیں کہ پانامہ لیکس پر پوری اپوزیشن ان کے ساتھ ہے۔ کیا ہمیشہ کی طرح ان کی یہ خوش فہمی جلد دور ہو جائے گی یا نہیں محرم کا مہینہ اس سوال کا جواب بھی ٹھوس زمینی حقائق کی شکل میں اُن کے سامنے لے آئے گا، بہرحال محرم کے بعد کیا ہو گا، اس کا فیصلہ اگلے دو ہفتہ میں متوقع ہے۔