لندن (وجاہت علی خان سے) ایم کیو ایم لندن کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ نے اپنے قومی مفاد کےلئے ا لطاف حسین کے خلاف چل رہی منی لانڈرنگ کی تفتیش ختم کر کے تمام ملزموں کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ کیا، اس ذریعے نے وثوق سے ”خبریں“ کو بتایا کہ پاکستان دشمن قوتوں نے الطاف حسین کو کراچی میں ایک دفعہ پھر بدامنی کے ایک بڑے منصوبے کی تکمیل کےلئے منی لانڈرنگ کے اس ”اوپن سیکرٹ“ کیس سے صاف بری کر دیا ہے جس کے ٹھوس اور مکمل ثبوت سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے پاس موجود ہیں لیکن بھارت کی طرف سے واضح دباﺅ اور امریکہ کے بے انتہا اصرار پر حکومت برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ ہمارا بھی نیشنل انٹرسٹ اسی میں ہے کہ اپنے دیرینہ مہرے سے ہاتھ نہ دھویا جائے چنانچہ 13 اکتوبر کو برطانوی تاریخ کے اس سیدھے سادے کیس کے ملزموں کو معصوم قرار دے دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا اور یہ کیس عدالت میں آ جاتا اور مقدمہ شروع ہوتا تو پاکستان میں بھارت کی طرف سے دہشتگردی کروانے کے واضح اور ٹھوس شواہد اقوام عالم کے سامنے آ جاتے اس لئے نئی دہلی نے اپنی زبردست سفارتی کوششوں سے برطانیہ کے نظام انصاف پر دھبہ لگایا، ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے بعض اعلیٰ عہدیدار اپنی حکومت کی اس پالیسی پر سخت نالاں ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کے ان ملزموں کو چھوڑ کر قانون انصاف کے وہ تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس کےلئے برطانوی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے معروف ہیں، ان عہدیداروں کے مطابق دنیا کے کئی ممالک ہماری پولیس کو اپنے ممالک میں حل طلب کیس کی تفتیش کےلئے بلاتے ہیں لیکن یہ کیس ہماری پولیس کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگائے گا۔ بتایا گیا ہے 13اکتوبر کی شام الطاف حسین کو لندن کے ہیمر سمتھ پولیس سٹیشن بلوایا گیا اور منی لانڈرنگ کیس کے خاتمے کا بتایا گیا اس کے اگلے روز پولیس نے اپنی ایک ای میل کے ذریعے میڈیا کو اس کیس کے خاتمے کی خبر سے آگاہ کیا، اس کیس میں دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ 2012ءسے 2014ءکے درمیان پولیس نے ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکرٹریٹ اور الطاف حسین کے گھر سے جو پانچ لاکھ پاﺅنڈ سے زائد کی رقم برآمد کی اس ضمن میں اس کیس سے جڑے دوسرے ملزم محمد انور اور طارق میر دوران تفتیش پولیس کو یہ واضح بیان دے چکے تھے کہ ایم کیو ایم کو ”را“ سے رقوم کی شکل میں فنڈنگ ہوتی ہے اور برآمد ہونے والی رقم بھی اسی فنڈنگ کا حصہ تھی متحدہ کے مذکورہ ذریعے کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند مہینے کے دوران بعض بھارتی اور امریکی حکام کی الطاف حسین سے تواتر کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جن میں الطاف حسین کا ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ میں تب تک کراچی کے معاملہ میں کچھ نہیں کر سکتا جب تک مجھے اس کیس سے باہر نہیں نکالا جاتا جس پر یہ حکام یقین دلاتے کہ یہ کام جلد ہو جائے گا چنانچہ یہ اسی ریلیف کا نتیجہ ہے کہ الطاف حسین نے یہ نعرہ لگایا کہ میں کل بھی ہندوستانی تھا آج بھی ہوں اور قیامت تک ہندوستانی رہوں گا، ذرائع کے مطابق آئندہ چند دنوں اور ہفتوں کے دوران کراچی میں ڈرامائی ہلچل ہو سکتی ہے جس کےلئے جنوبی افریقہ اور انڈیا سے لانچوں اور دیگر ذرائع سے جرائم پیشہ افراد کراچی پہنچنا شروع ہو چکے ہیں اس ذریعے نے خاص طور پر بتایا کہ کراچی کے بعض خاص قبرستانوں کو چیک کرنے کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ خطرناک اسلحہ کے بڑے ذخیرے یہاں دفن ہیں دوسری طرف منی لانڈرنگ کیس کے ایک ا ور اہم کردار سرفراز مرچنٹ کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو برطانوی حکومت نے ریسکیو تو کر لیا لیکن اس میں بڑا کردار حکومت پاکستان کا بھی ہے جس نے اس کے باوجود برطانوی حکومت اور عالمی سطح پر بھی اس بڑی بات کو بھی کیش نہیں کروایا کہ الطاف حسین پاکستان میں بدامنی پھیلانے کےلئے ”را“ سے فنڈنگ لیتے ہیں جس کا اعتراف ان کے ساتھیوں نے اپنے اقبالی بیانات میں کیا اگر پاکستان ان بیانات کو عالمی فورمز پر لے جاتا تو لندن کی سکاٹ لینڈ پولیس کو دئیے گئے ان بیانات کو کسی طرح بھی رد نہیں کیا جا سکتا تھا سرفراز مرچنٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس کیس کے ریویو کےلئے عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔