لاہور (مکرم خان سے) 29 نومبر کو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ یا بصورت دیگر توسیع وغیرہ کے حوالے سے قیاس آرائیاں ختم ہو رہی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ مقررہ تاریخ کو اپنی تاریخی خدمات سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں چیف آف آرمی سٹاف یا ماضی میں کمانڈر انچیف کی تعیناتی کے حوالے سے مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ سے 2روز قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا تھا جس پر صدر پاکستان بحیثیت سپریم کمانڈر دستخط کرنے کے مجاز تھے۔ اس سے قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی کو 29نومبر 2007ءکو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا تھا تو وہ پہلے ہی فل جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر وائس چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جنہیں قریباً 40 روز کے بعد آرمی چیف تعینات کر دیا گیا جو 29نومبر 2013ءتک اس عہدے پر فائز رہے اور 3سال کی دو مدتیں آرمی چیف رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ واحد آرمی چیف ہیں جنہیں ایک منتخب حکومت نے ایک مکمل دورانیے کے لیے توسیع دی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کو 6اکتوبر 1998ءکو جنرل جہانگیر کرامت کی قبل از ریٹائرمنٹ پر وزیراعظم نواز شریف نے دیگر سینئر جرنیلوں پر فوقیت دے کر آرمی چیف مقرر کیا تھا جو 28 نومبر 2007ءتک اس عہدے پر فائز رہے ان کا دورانیہ بطور آرمی چیف 9سال ایک ماہ 27 دن رہا۔ جنرل جہانگیر کرامت 12جنوری 1996ءکو سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کی بنا پر وزیراعظم بے نظیربھٹو کے ہاتھوں چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے جنہیں اس عہدے کے لئے پہلے ہی وزیراعظم کی جانب سے عندیہ دیا جا چکا تھا۔ ان کی مدت بطور آرمی چیف 12 جنوری 1999ءکو اختتام پذیر ہونا تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اصولی اختلاف کی بنا پر 6اکتوبر 1998ءکو قبل از وقت ریٹائر کر دئیے گے، جنرل عبدالوحید کاکڑ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے باعث 11جنوری 1993 کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 12جنوری 1996ءکو 3سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوئے انہیں صدر غلام اسحق خان نے 4 دیگر جرنیلوں پر ترجیح دیکر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ اختیارات کی رو سے صدر پاکستان کے ہاتھوں آرمی چیف مقرر ہونے والے آخری فرد تھے۔ بعض آئینی ترامیم کے نتائج میں آرمڈ فورسز چیفس مقرر کرنے کے اختیارات وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہو گئے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ 16اگست 1991ءکو سینئر موسٹ جنرل ہونے کی بنا پر آرمی چیف مقرر کئے گئے اور 8 جنوری 1993ءتک اپنی اچانک وفات تک فائز رہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 11جون 1991ءکو ہی تقریباً 2ماہ قبل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف کے عہدے کے لئے نامزد کر دئیے تھے جو عسکری روایات کے منافی بھی نہیں تھا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ جنرل ضیاءالحق کے فضائی حادثے میں اچانک وفات سے 17اگست 1988ءکو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 16 اگست 1991ءتک فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا عرصہ تعیناتی 3سال تھا۔ اس سے قبل وہ وائس چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر قریباً ایک سال سے زائد عرصہ خدمات انجام دے چکے تھے۔ جنرل محمد ضیاءالحق یکم مارچ 1976ءکو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سات سینئر لوگوں کو سپرسیٹ کر کے جونیئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر ہوئے جو 17اگست 1988ءکو اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے ان کا عرصہ کمان 11سال سے زائد اور انہیں طویل ترین آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جنرل ٹکا 3 مارچ 1992ءکو وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔ اس عہدے کو اس سے قبل کمانڈر انچیف کہا جاتا تھا جو یکم مارچ 1976ءتک عہدہ پر فائز رہے ان کا دورانیہ کمان 4سال ہے یاد رہے کہ وہ اپنے پیشرو لیفٹیننٹ جنرل گل حسن سے سینئر ہونے کے باوجود ملازمت جاری رکھے ہوئے تھے اور پاکستان کی تاریخ میں واحد آرمی چیف تھے جو سپرسیٹ ہونے کے باوجود اس عہدے پر فائز رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان پاکستان کی عسکری تاریخ کے آخری کمانڈر انچیف تھے جنہوں نے 20 دسمبر 1971ءکو آرمی کی کمان سنبھالی انہیں فل جنرل عہدے پر ترقی نہیں دی گئی تھی۔ انہیں 3مارچ 1972ءکو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ جنرل محمد یحییٰ خان جو مارچ 1966 سے ڈپٹی کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں 18 جون 1966ءکو کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا اور 20دسمبر 1971ءتک کمانڈر انچیف رہے ان کا عرصہ کمان 5سال تین ماہ اور 2 دن تھا۔ جنرل محمد موسیٰ خان 27 اکتوبر 1958ءکو کمانڈر انچیف مقرر ہوئے اور 17جون 1966ءتک اس عہدے پر فائز رہے جن کا عرصہ کمان 7سال 11ماہ پر محیط تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب 16 جنوری 1951ءکو کمانڈر انچیف مقرر کئے گئے۔ 26 اکتوبر 1958ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے صدر مملکت کا عہدے سنبھالنے کے بعد بھی عسکری کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ چیف آف آرمی سٹاف کی نامزدگی کو خاص تاریخ تک مو¿خر کیا جانا عسکری روایت نہیں۔ ماضی میں کسی ابہامی صورتحال کے پیش نظر متوقع آرمی چیف کے نام کا اعلان قبل از وقت ہونا غیر متوقع نہیں تھا۔ بعض صورتحال میں عین موقع پر نام فائنل کیا جاتا رہا ہے عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال ماضی کی نسبت زیادہ ابہامی ہے قیاس آرائیاں جاری ہیں اور مختلف آراءپائی جاتی ہیں۔ حکومت اگر اگلے آرمی چیف کااعلان یا توسیع کی وضاحت بروقت کر دے تو گو مگو کی کیفیت سے نکلا جا سکے۔