کراچی (سیاسی رپورٹر) نئے گورنر جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی کی صحت بدستور خراب برائی جاتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے کچھ ضروری فائلوں پر دستخط بھی کئے۔ اہم اتنی سی مشقت سے بھی ان پر تھکن غالب آ گئی اور انہیں کچھ دیر آرام کرنا پڑا۔ اس صورت حال کے سبب سندھ کے صوبائی دارالحکومت میں ایک بار پھر قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ اگر وفاقی حکومت جسٹس صاحب کو فوراً تبدیل کرنے سے ہچکچا رہی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ وقتی طور پر صحت یابی کے بعد بھی وہ سرکاری کاموں کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے لہٰذا بڑی رازداری کے ساتھ ایک بار پھر نئے گورنر کی تلاش شروع کر دی گئی۔ نہال ہاشمی اگر خود کو اس دوڑ میں سب سے آگے سمجھتے ہیں جو سینئر ضرورہیں لیکن سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی اتنے سینئر نہیں ہوئے کہ گورنر بنایا جا سکے۔ موجودہ پیرپگاڑا کا نام بھی نئے گورنر کے طور پر لیا جا رہا ہے۔روایت کے مطابق سندھ میں وزیراعلیٰ عام طور پر سندھی اور گورنر بالعموم اُردو سپیکنگ مہاجر منتخب کیا جاتا ہے اس لئے نئے ناموں کے ضمن میں وفاقی حکومت میں بھی زیادہ مسلم لیگ ن کی صفوں میں کوئی موزوں نام دکھائی نہیں دیتا لہٰذا مجبوراً پھر پرانے ناموں پر غور جاری ہے سول حلقے حسین ہارون کا نام لے رہے ہیں جو روزنامہ ڈان کے چیف ایگزیکٹو حمید ہارون کے بڑے بھائی ہیں اور سابق گورنر محمود ہارون اور تحریک پاکستان کے رہنما اور قائداعظم کے قریبی ساتھی حاجی سر عبداللہ ہارون کے بیٹے یوسف ہارون کے سوتیلے سعید اے ہارون کے بیٹے ہیں تاہم انتظامی اور سابق فوجی حلقوں میں جنرل معین الدین حیدر کا نام بار بار سامنے آ رہا ہے جو سابق وزیر داخلہ بھی رہے ہیں اور سندھ کے سابق گورنر بھی۔ وزیراعظم نوازشریف اپنے غیر سیاسی دوستوں کی مدد سے کوئی موزوں نام تلاش کر رہے ہیں اور بعض حلقوں میں ایک بار پھر ممتاز بھٹو کا نام لیا جا رہا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے فرسٹ کزن ہیں تاہم پیپلزپارٹی کے حلقوں کو یہ نام قابل قبول نہیں۔ یوں بھی سندھی وزیراعلیٰ کے بعد سندھی گورنر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سابق ججوں، سابق جرنیلوں اور سابق بیورو کریٹس میں سے تلاش کا کام جاری ہے لیکن وفاقی حکومت کوئی رسک نہیں لینا چاہتی اور سو فیصد اپنے وفادار افراد سے باہر جانے کو تیار نہیں۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ زیادہ دنوں تک موجودہ گورنر یہ فریضہ انجام نہیں دے سکیں گے۔