لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی اپنی پالیسی بھی تھی کہ وہ آخری وقت تک خاموش رہیں گے۔ متنازعہ خبر کے معاملہ پر حکومت نے جب کمیٹی تشکیل دی سربراہ اور ارکان کے نام دیئے تو سربراہ اور کئی ارکان کے ناموں پر میڈیا پر بڑی بحث شروع ہو گئی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی یہ سن کر کے فوج نے اس کمیٹی کو تسلیم کر لیا۔ اس وقت بخوبی اندازہ ہو گیا
تھا کہ جنرل راحیل جانے کی تیاریوں میں ہیں اور اپنے تمام معاملات کو سمیٹ رہے ہیں۔ متنازعہ خبر یہ کمیٹی کی رپورٹ کو اب ان کے جانے کے بعد ہی آئے گی کور کمانڈر کانفرنسز میں متنازعہ خبر پر سخت لہجہ اپنایا گیا حکومت کو پہلے 5 دن پھر 11 دن دیئے گئے پھر اچانک سے پیچھے ہٹ جانا سمجھ سے بالا تھا ضیا شاہد نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کی عوام میں مقبولیت کی دو وجوہات تھیں پہلی یہ کہ ان کی شکل میں پہلی بار ایسا فوجی سربراہ سامنے آیا جس نے دہشتگردی کیخلاف کامیاب آپریشن ضرب عضب کیا، کراچی آپریشن سے امن بحال کیا اور بڑی تعداد میں پہلی بار ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو پکڑا گیا۔ ان کامیابیوں کے باعث وہ عوام کی نظر میں ہیرو بن گئے۔ جنرل راحیل کے کارناموں پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان کی درازی عمر کیلئے دُعا گو ہوں۔ جنرل راحیل پہلے آرمی سربراہ تھے جنہیں ہر آفت پرچاہے وہ دہشتگردی کا واقعہ ہو یا پانی کی کمی، قحط کا مسئلہ، آگ لگ جانے یا زلزلہ پر انہیں سب سے پہلے جائے وقوعہ پر دیکھا جاتا تھا۔ ان کی انہی صفات کے باعث عام پاکستانی نے بڑی توقعات وابستہ کر لیں اور عام رائے بن گئی کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہئے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے جنرل راحیل شریف نے بہت سے معاملات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی۔ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کور کمانڈر کانفرنسز میں کہا جاتا رہا کہ پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ حکومت پر اس حوالے سے زور دیا جاتا رہا جس پر وزیراعظم نوازشریف نے ٹاسک فورس بنا کر جنرل ناصر جنجوعہ کو سربراہ بنا دیا تھا۔ آخری دو اڑھائی ماہ میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی خاموشی اختیار کر لی گئی اس سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ جنرل صاحب جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت حالات بڑے غیر معمولی ہیں ملک کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے نہیں جانتا کہ عدالت کیا فیصلہ دے گی لیکن جو بھی فیصلہ ہو گا صدق دل سے قبول ہو گا۔ سابق صدر زرداری آرمی چیف کو ڈرا دھمکا کر بیرون ملک چلے گئے۔ پہلی بار یہ دیکھا کہ جنرل راحیل شریف کام ادھورا چھوڑ کر جا رہے ہیں جس حوالے سے انہیں تاریخ میں جوابدہ ہونا پڑے گا اور بتانا ہو گا کہ کس وجہ سے انہوں نے پاکستان کو گالیاں دینے، فوج کو برا بھلا کہنے، ”را“ کی مدد طلب کرنے، رینجرز سربراہ کو ذاتی طور پر دھمکیاں دینے والے الطاف حسین کے خلاف کیوں کوئی کارروائی نہ کی جا سکی۔ جواب دینا ہو گا کہ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آرمی نے کورٹ مارشل کیوں نہ کیا جبکہ وطن دشمنوں کے خلاف جنرل اکبر خان کے دور میں فوج نے کارروائی کی تھی۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اگر کوئی سویلین ملوث ہے تو فوج کا کام ہے کہ اسے روکے۔ جنرل راحیل شریف تمام تر خوبیوں کے باوجود دہشتگردی کے سہولت کاروں اور ان کے ساتھیوں کو پکڑ سکے نہ ان لوگوں کیخلاف ہی ایکشن لے سکے جنہیں میڈیا پر بھی ”را“ سے تربیت لینے کا اعتراف کرتے دکھایا جا سکا ہے۔ تاریخ کے سامنے سول حکمرانوں کے ساتھ فوجی جرنیل بھی جواب دہ ہوں گے۔ لاہور میں تقریب کے دوران آرمی چیف سے ایک نوجوان افسر نے پوچھا تھا کہ آپ نے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑنے کا بیڑا اٹھایا ہے جبکہ آپ کے دو ماہ باقی ہیں یہ سارا کام کیسے انجام دیں گے تو جواب دیا کہ فکر نہ کریں جانے سے قبل یہ سارے کام کر کے جاﺅں گا۔ آج جنرل راحیل شریف سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے یہ سارے کام کر لئے ہیں تو کیا جواب دیں گے۔ قوم کے ساتھ کئے وعدوں پر کیا کہیں گے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے جس طرح دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی اسی وجہ سے پوری دنیا نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور نمبر ون قرار دیا۔ عوام کو انہی صلاحیتوں کے باعث ہی تو جنرل راحیل شریف سے توقعات تھیں اگر عوام کو سول حکومت سے توقع ہوتی تو وہ ان کی جانب کیوں دیکھتے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بہت ضروری تھا۔ حکومت کے حلیف مولانا فضل الرحمن نے تو مدارس کے طلبہ کو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ان سے کوئی سوال پوچھے تو جواب میں قہقہے لگاﺅ۔ اس وقت بھی فوج خاموش رہی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ فوج ایک مستقل ادارہ ہے جو دفاع کے فرائض انجام دیتا ہے۔ آرمی چیف کیلئے چار یا پانچ نام لئے جا رہے ہیں کہ ان میں سے چناﺅ ہو گا۔ وزیراعظم کو استحقاق حاصل ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کا نام فائنل کریں۔ اگلا آرمی چیف کوئی بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ فوج کا ٹارگٹ واضح ہے جو دہشتگردوں کی سرکوبی اور سرحدوں کی حفاظت ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ میڈیا میں بونوں، بزدلوں اورڈرپوک افراد کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے سچی بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ آصف زرداری نے جنرل راحیل شریف کیخلاف دھمکی آمیز بات کی تھی اور بیرون ملک چلے گئے وہ بالکل صحت مند ہیں۔ ان کی ایک ہی بیماری تھی جس کا نام جنرل راحیل شریف ہے جو 29 نومبر کو چلے جائیں گے تو بیماری بھی بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ پیپلزپارٹی سے تو کئی معاملات پر اختلاف رکھتا ہوں لیکن بلاول بھٹو سے کوئی اختلاف نہیں ہے جس کی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک حکومت میں نہیں رہے دوسرا وہ پاکستان کا سیاسی مستقبل ہیں۔ پیپلزپارٹی جو وفاق کی علامت ہے اسے صرف سندھ کے بجائے تمام صوبوں میں مضبوط ہونا چاہئے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو چاہے وہ پیپلزپارٹی، ن لیگ یا تحریک انصاف صوبائی سطح پر نہیں وفاقی سطح پر فعال ہونا چاہئے یہ ملک کی مضبوطی کے لئے بہت ضروری ہے۔ تجزیہ کار کرنل (ر) مکرم خان نے کہا کہ دنیا بھر میں چیف آف آرمی یا دیگر جرنیلوں کا معاملہ سنیارٹی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ شازوناظر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی جونیئر افسر کو آرمی چیف مقرر کیا جائے۔ پاکستان میں عوام ووٹ تو سول قیادت کو دیتے ہیں جبکہ توقعات فوج سے وابستہ کر لیتے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بھی فوج کرائے، دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑے اور ان تمام عناصر کے خلاف آناً فاناً مقدمات درج ہوں اور سزائیں دی جائیں۔ عوام اصل میں کچھ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کار ظفر نواز نے کہا کہ پاکستان آرمی کا اپنا آرگنائزیشن سٹرکچر ہے اس میں کسی ایک جنرل کے چلے جانے یا دوسرے سے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بھارت کا حالیہ اشتعال انگیزی کی تین وجوہات ہیں ایک پاکستان پر دباﺅ رکھنا دوسرا بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت اور مسائل سے توجہ ہٹانا اور تیسرا عالمی سطح پر اس کی ناکامیوں نیو کلیئر سپلائر گروپ میں ممبر شپ میں ناکامی پر سے توجہ ہٹانا اس کا مقصد ہے۔ مودی ایک بار پھر ہندو ووٹ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
