تازہ تر ین

لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کی قبل از وقت ریٹایرمنٹ کا امکان،لیفٹیننٹ جنرل رمدے شاید سروس جاری رکھیں

لاہور (سیاسی رپورٹر سے) جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف مقرر کئے جانے کے بعد قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ جن چار لیفٹیننٹ جنرل حضرات کو ”سُپرسیڈ“ کر کے لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا گیا ہے، کیا پیچھے رہ جانے والے لیفٹیننٹ جنرل حضرات سروس جاری رکھیں گے یا ماضی کی مثالوں کی طرح قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔ کیونکہ ماضی میں اس طرح کی دونوں روایات موجود ہیں۔ یہ خبریں گردش میں ہیں کہ ملتان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے امکانات موجود ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خاں 13 جنوری 2017ءکو اپنی چار سالہ معینہ مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے تاہم جنرل اشفاق ندیم اور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے کا دورانیہ8 اگست 2017ءکو پورا ہو گا۔ چونکہ چاروں اعلیٰ افسران کا تعلق 62 ویں لانگ کورس سے ہے اس ناطے چیئرمین اور آرمی چیف کی تاریخ کمیشن ایک ہی ہے۔ تاہم پی اے نمبر (پرسنل آرمی نمبر) کی رو سے واجد حسین، نجیب اللہ خاں، اشفاق ندیم اورجاوید اقبال رمدے حالیہ نامزد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سینئر ہیں۔
پاکستانی فوج کی تاریخ میں فیلڈ مارشل ایوب خاں پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف مقرر ہوئے جن کا عرصہ کمان 16 جنوری 1951ءسے 26 اکتوبر 1958ءتک ہے۔ انہیں کمانڈر انچیف نامزد کیا گیا تو میجر جنرل اکبر خاں، میجر جنرل محمد رضا، میجر جنرل محمد اشفاق المجید کو سپر سیڈ کر کے ایوب خاں لائے گئے تھے۔ یاد رہے کہ محمد اشفاق المجید پہلے بنگالی میجر جنرل تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی شورش میں مکتی باہنی کی تنظیم میں دیگر منحرف بنگالی افسروں کے ہمراہ بغاوت میں حصہ لیا۔
دوسرے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کا دورانیہ 27 اکتوبر 1958ءسے 17 جون 1966ءتک تھا۔ ان کو آرمی چیف نامزد کرتے وقت میجر جنرل شیر علی خاں پٹودی، میجر جنرل لطیف خان اور میجر جنرل آدم خان کو سپر سیڈ کیا تھا۔ یاد رہے کہ جنرل شیر علی خاں بعد ازاں یحییٰ دور میں پاکستان کے وزیراطلاعات بھی رہے۔ وہ انڈین کرکٹ ٹیم کے منصور علی خاں پٹودی کے رشتہ دار تھے پٹودی کی بیوی مشہور اداکارہ شرمیلا ٹیگور ہیں اور بیٹا سیف علی خاں اور بیٹی سوہا علی بھی اداکارہ ہے۔ تیسرے پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خاں 18 جون 66 سے 20 دسمبر 1971ءتک کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائز رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر اور لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا پر ترجیح دے کر یحییٰ خاں کو کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا تھا۔
چوتھے کمانڈر انچیف جنرل گل حسن 20 دسمبر 1971ءسے 3 مارچ 1972ءتک مختصر دورانیہ کے آرمی چیف رہے۔ جنہیں فل جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خاں کو سپر سیڈ کر کے جنرل گل حسن کو بھٹو صاحب نے آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن جنرل ٹکا خاں نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ اپنے سے جونیئر افسر کی ماتحتی میں ملازمت کرتے رہے۔ پانچویں کمانڈر انچیف جنرل ٹکا خاں 3 مارچ 1972ءسے یکم مارچ 1976ءتک چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر رہے جنہیں بھٹو صاحب نے مقرر کیا تھا۔ یاد رہے کہ جنرل ٹکا خاں عسکری تاریخ کی واحد مثال ہیں جو سپر سیڈ ہونے کے باوجود اگلی بار پھر آرمی چیف مقرر کئے گئے۔ انہوں نے سینئر موسٹ ہونے کے ناطے کسی بھی افسر کو سپر سیڈ نہیں کیا۔
چھٹے چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاءالحق کو یکم مارچ 1976ءکو بھٹو صاحب ہی نے مقرر کیا جو 17 اگست 1988ءتک تا دم شہادت اس عہدے پر فائز رہے یاد رہے کہ بہاول پور کے حادثے میں ان کا طیارہ پھٹ گیا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے آرمی چیف نامزدگی کے وقت لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف سینئر موسٹ تھے جنہیں چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے نئے عہدے پر نامزد کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خاں، لیفٹیننٹ جنرل اکبر خاں، لیفٹیننٹ جنرل عظمت بخش اعوان، لیفٹیننٹ جنرل آغا ابراہیم اکرم، لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان اور لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک، جنرل ضیاءالحق سے سینئر تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خاں نے اپنے جونیئر افسر کے ماتحت کام جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ دیگر تمام افسران اپنے عہدوں سے قبل از وقت ریٹائر ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ جنرل عبدالمجید ملک بعد ازاں سیاست میں آئے اور نوازشریف صاحب کی پہلی وزارت عظمیٰ میں وفاقی وزیر رہے۔ دوسری طرف کام جاری رکھنے والے جنرل غلام جیلانی خاں دو اسباب کی بنیاد پر یاد رکھے جائیں گے۔ اول نیپ پر پابندی کا سارا کیس انہوں نے تیار کر کے سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کے ایما پر داخل کیا تھا۔ دوم جنرل ضیاءالحق کے دور میں انہیں پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا اور میاں محمد نوازشریف کو سیاست میں لانے والے بھی وہی تھے۔
ساتویں آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے 17 اگست 1988ءکو جنرل ضیاءالحق کے حادثے کے بعد آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ اسلم بیگ اس وقت وائس چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے۔ اور سینئر موسٹ ہونے کے باعث کسی نے استعفیٰ نہیں دیا۔ وہ 17 اگست 88ء16 اگست 1991ءتک آرمی چیف رہے۔
آٹھویں آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ 16 اگست 1991ءکو آرمی چیف نامزد ہوئے جس وقت بے نظیر بھٹو، وزیراعظم تھیں اور جنرل جنجوعہ کو سینئر موسٹ ہونے کی وجہ سے دو ماہ قبل ہی آرمی چیف بننے کا اشارہ دیدیا گیا تھا۔
8 جنوری 1993ءکو جنرل جنجوعہ کی اچانک وفات کے بعد عہدہ خالی ہو گیا۔ یہ الزام لگا کہ وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف کے مابین چپقلش تھی اور ان کی اچانک وفات سے چہ میگوئیوں کے نتیجے میں قبر کھول کر ان کی میت نکالی گئی اور اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا لیکن الزام ثابت نہ ہو سکا۔
نویں سربراہ ”جنرل عبدالوحید کاکڑ“ کو وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری جو صدر غلام اسحاق خاں کو بھیجی گئی، پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود 11 جنوری 93ءکو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ فہرست میں دیگر ناموں میں لیفٹیننٹ جنرل رحمدل بھٹی، لیفٹیننٹ جنرل محمد اشرف، لیفٹیننٹ جنرل فرخ خاں اور لیفٹیننٹ جنرل عارف بنگش شامل تھے۔ ان میں سے جنرل رحمدل بھٹی اور جنرل محمد اشرف نے سپرسیڈ ہونے کی بنا پر قبل از وقت ریٹائر ہو گئے۔ جنرل فرخ خاں اور جنرل عارف بنگش، جنرل عبدالوحید کاکڑ کے کورس میٹ تھے اور کاکڑ صاحب کی خواہش کے احترام میں اپنی ملازمت جاری رکھی اور مستعفی نہیں ہوئے۔ اس دور میں آئین کی رو سے صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہونے کی وجہ سے سروسز چیفس اور اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر کرنے کے مجاز تصور کئے جاتے تھے۔ وزیراعظم کا منصب مشاورت تک محدود تھا جسے تسلیم کرنا صدر کے لئے ضروری نہ تھا۔ عبدالوحید کاکڑ کے دور کمان میں وزیراعظم نوازشریف اور صدر مملکت غلام اسحاق خان کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے تھے کیونکہ آرمی چیف نے دونوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ اقتدار سے الگ ہو کر نئے الیکشن کے لئے راستہ ہموار کریں جنرل عبدالوحید کاکڑ کا عرصہ کمان 11 جنوری 1993ءسے 12 جنوری 96ءتک ہے۔
دسویں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سنیارٹی کے اصول کے مطابق سربراہ مقرر کئے گئے اس وقت بھی وزیراعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔ جہانگیر کرامت کے آرمی منصب مقرر کئے جانے کے وقت کسی کو سپر سیڈ نہیں کیا گیا تھا۔ 6 اکتوبر 1998ءکو وزیراعظم نوازشریف نے ان سے قبل از وقت استعفیٰ طلب کر لیا کیونکہ جنرل جہانگیر کرامت نے آئی ایس پی آر کے ذریعے ایک تجویز شائع کروا دی تھی کہ ملکی سکیورٹی کی دیکھ بھال کے لئے مستقل سکیورٹی کونسل وجود میں لائی جائے جس میں صدر، وزیراعظم، دفاع، خارجہ، داخلہ امورکے وزراءکے ساتھ تینوں سروسز چیفس اور لیڈر آف اپوزیشن بھی شامل ہوں۔ اس تجویز کو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے جمہوری حکومت کے آئینی اختیار میں مداخلت تصور کیا اور جہانگیر کرامت سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ جنرل جہانگیر کرامت کا دورانیہ کمان 12 جنوری 1996ءسے 6 اکتوبر 1998 تک ہے۔ گیارھویں آرمی چیف بننے کا منفرد اعزاز ڈرامائی طور پر جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہوا جو اپنے تئیں ریٹائر ہو کر گھر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت کے قبل از وقت استعفیٰ کے باعث وزیراعظم نوازشریف کو آرمی چیف کا انتخاب کرنے میں مسائل درپیش تھے۔ موجودہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں کے بڑے بھائی لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار علی خاں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سیکرٹری ڈیفنس کے اہم عہدے پر فائز تھے۔ انہیں وزیراعظم کا اعتماد حاصل تھا اور انہی کی سفارش پر لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خاں اور لیفٹیننٹ جنرل خالد نواز کو سپر سیڈ کر کے وزیراعظم نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا۔ آئینی ترمیم نافذ ہونے کی وجہ سے اختیارات کا توازن وزیراعظم کی طرف منتقل ہو چکا تھا اور صدر مملکت رفیق تارڑ وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری پر دستخط کرنے کے پابند تھے۔ صرف ایک سال بعد بغاوت یا جوابی بغاوت کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کر کے منتخب وزیراعظم نوازشریف کی حکومت ختم کر دی۔ کیونکہ وزیراعظم نوازشریف نے سری لنکا کے دورے سے واپسی سے پہلے ہی جنرل پرویز مشرف کے دوران سفر انہیں برخاست کر کے لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین بٹ کو جو آئی ایس آئی کے چیف تھے کو آرمی چیف مقرر کر دیا تھا۔ جو سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر تھے۔ جنرل ضیاءالدین بٹ کی کمان سنبھالنے سے پہلے ہی منظر الٹ گیا اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کے علاوہ خود ہی چیف ایگزیکٹو بن گئے اور وزیراعظم نوازشریف کو جیل بھیج کر ہائی جیکنگ کا مقدمہ قائم کر دیا۔ نتیجے میں کچھ عرصہ بعد نواز شریف اہلخانہ سمیت سعودی حکومت کی مداخلت پر جیل میں سے براہ راست جدہ سعودی عرب پہنچ گئے۔
بارھویں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت صدر مملکت اور آرمی چیف، اپنا جانشین مقرر کیا جو پہلے ہی سے وائس چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے 29 نومبر 2007 کو جنرل کیانی کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ ملکی سیاست میں غیر متوقع تبدیلی ہوئی جنرل پرویز مشرف کو وردی سے ہاتھ دھونا پڑے اور انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی پر اعتماد کرتے ہوئے ازخود بری فوج کی کمان سونپی۔ کچھ عرصہ بعد ہی جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو قصر صدارت سے فارغ کر دیا گیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دور کمان نومبر 2007ءمیں ختم ہو رہا تھا کہ انہیں پیپلزپارٹی کی حکومت نے تین سالہ مدت کی توسیع دے دی جس کی کوئی مثال سول حکومت میں نہیں ملتی۔ 29 نومبر 2013ءتک جنرل اشفاق پرویز کیانی بری فوج کے سربراہ رہے۔ ان کے بطور آرمی چیف ترقی پانے سے لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی سپر سیڈ ہوئے لیکن وہ پہلے ہی 1 سالہ توسیع پر تھے اور سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن کے انچارج کے طور پر کام کر رہے تھے جس کے تحت نیو کلیئر نظام کام کر رہا ہے۔ تیسرے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو 29 نومبر کو 2013ءکو آرمی چیف مقرر کرنے کا اعزاز بھی وزیراعظم نوازشریف کو جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کل 29 نومبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں انہیں آرمی چیف مقرر کیا گیا تو سنیارٹی فہرست میں وہ تیسرے نمبر پر تھے۔ سب سے اوپر لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم سپر سیڈ ہونے پر قبل از وقت ریٹائر ہو گئے تھے۔ دوسرے نمبر پر جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا گیا تھا جو جنرل راحیل شریف کے ساتھ ہی ریٹائر ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر ہونے والے جنرل زبیر محمود حیات سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہیں۔ نامزد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مجموعی طور پر سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر تھے۔ دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور تیسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان کو کسی لڑاکا کور کی کمان کا تجربہ نہ ہونے کے باعث آرمی چیف کے لئے قابل غور نہیں سمجھا گیا۔ چوتھے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم، پانچویں نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے تھے۔ یاد رہے کہ ان تمام افسران کا تعلق 62 ویں لانگ کورس سے ہے اور لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اس فہرست کے آخر میں آتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل واجد حسین اور لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خاں ویسے بھی دو ماہ بعد 13 جنوری 2017ءکو ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کے بارے میں اتوار کا سارا دن یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ وہ اگلے 24 گھنٹے میں اپنے عہدے سے قبل از وقت ریٹائر ہو رہے ہیں۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے کے بارے میں جو اشفاق ندیم ہی کی طرح سپر سیڈ ہوئے ہیں ابھی تک خاموشی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے جونیئر کی ماتحتی میں سروس جاری رکھیں گے یا نہیں۔ ماضی کی روایات میں کورس میٹ آرمی چیف کی خواہش کے احترام میں سروس جاری رکھنے کی مثالیں بھی موجود ہیں جن کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں۔ لہٰذا اگلے چند روز میں توقع ہے کہ نئے آرمی چیف نے اگر اپنے کورس میٹ جنرل جاوید اقبال رمدے سے یہ درخواست کی وہ اپنے فرائض ادا کرتے رہیں تو عین ممکن ہے کہ جنرل رمدے مان جائیں جن کا سابق جسٹس سپریم کورٹ خلیل رمدے، سابق اٹارنی جنرل چودھری محمد فاروق اور مسلم لیگی ایم این اے اسد الرحمان تینوں بھائیوں سے قریبی عزیز داری ہے تاہم یہ فیصلہ انہیں کرنا ہے کی تاریخ ریٹائرمنٹ 8 اگست 2017ءہے اور وہ چاہیں تو اس تاریخ تک فوج میں خدمات کو انجام دے سکتے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain