ناصر قریشی ….اظہار خیال
پاکستان کے دفاع سے متعلقہ افراد سے لے کر ایک عام کسان تک یہ جانتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کا راز اس کے مضبوط اور مربوط نظام کاشت میں مضمر اور چھپا ہواہے۔
جتنا زیادہ پاکستان کا زرعی شعبہ ترقی کرے گا اتناہی پاکستان مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔بھارت نے ”اڑی“ واقعے کے بعد جن چند اقدامات پر غورکیا کہ جن سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ان اقدامات میں ایک پاکستان کی طرف آنے والے دریاﺅں کا رخ تبدیل کرنا،ان پر ڈیم بنانا، ان سے نہروں کا جال نکالنا اور بالآخر پاکستان کو بنجر بنانا شامل ہے۔ یہی بات گزشتہ دنوں نریندر مودی نے پنجاب میں اپنے جلسے میں دہرائی۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت اور بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ایک ایسی مملکت کہ جس کا وجود دریا کے ابتدائی سرے یا کنارے پر ہو، وہ نچلی مملکت کو بنجرکرنے کے اقدامات نہیں کرسکتی اور ان اقدامات میں ڈیموں کا قیام اورنہروں کا نظام بنانا شامل ہیں۔
چونکہ بھارت پانی کے پاکستان آنے والے آبی خزانوں یعنی دریاﺅں کے ابتدائی کنارے پر موجود ہے اس لئے سفارتی سطح پر جگ ہنسائی سے بچنے کےلئے اس نے اب تک تو ایسا نہیں کیا مگر خود ایسا نہ کرنے کے باوجود وہ افغانستان سے پاکستان آنے والے آبی ذخائر پر ڈیموں کا ایک جال بنانے کے درپے ہے جس میں شامل 12ڈیم پاکستان آنے والے افغانستان سے آئے دریاﺅں کا رخ بدل کر رکھ دیں گے اور پاکستان میں خشک سالی جیسی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے۔
ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات میں قربت، پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں کے جال کی ایک گرہ ہے۔اپنے حجم کے اعتبار سے افغانستان دنیا کا 40واں بڑا ملک ہے جس میں صرف 11فیصد زمین کاشت کےلئے استعمال ہوسکتی ہے اور پاکستان اس کا وہ ہمسایہ ملک ہے کہ جس کے ساتھ اس کی طویل ترین یعنی 2670 کلومیٹر لمبی پٹی لگتی ہے۔ جس میں مشہور زمانہ ڈیورنڈ لائن بھی شامل ہے جو کہ 1893ءمیں بنائی گئی اور جس سے افغانستان اور پاکستان کے پشتون قبائل کی تقسیم ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ اس تنازع کی ابتداءبھی جوکہ پاکستان کے قیام ہی سے اس کا مقدر بن گئی۔اس بنیادی مسئلہ کو سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئندہ سطور میں افغانستان کی جانب سے ممکنہ بھیانک اقدامات کا ایک پس منظر معزز قاری تک پہنچ جائے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کو حاصل اس سفارتی قوت کا بھی کہ جس کا ا ستعمال وہ پاکستان کیخلاف کرنے جارہا ہے۔
دریائے کابل 515 کلومیٹر تک افغانستان میں بہتا ہے اور اس کے بعد یہ زور آور، منہ زور دریا، دریائے سندھ میں اٹک کے مقام پر آکر شامل ہوجاتا ہے۔ کوہ،ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں پر ہونے والی برف باری سے پیدا ہوتا ہے اور کل 700کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ افغانستان کے صدرمقام کابل کو بھی پانی مہیا کرتا ہے اور پاکستان کے دریائے سندھ میں اور پاکستانی معیشت میں بھی حصہ ڈالتا ہے اس دریا پر نغلو، سروبی،دارنتہ ڈیم موجود ہیں جو کابل اور ننگر ہار صوبوں میں موجود ہیں اور وارسک ڈیم پاکستان میں اس سے فیضیاب ہوتاہے اور پاکستان کو MW243 بجلی دینے کی صلاحیت رکھنے والا ڈیم ہے۔
یہ 12ڈیم 515 کلومیٹر کے فاصلے پر بنانا مقصود نہیں بلکہ ان کو ان چھوٹے دریاﺅں پر بنایا جائے گا کہ جن سے دریائے کابل مل کر بنتا ہے۔ورلڈ بینک کے ساتھ جاری مذاکرات میں طے یہ پایا ہے کہ ان ڈیموں کو بنانے کےلئے ورلڈ بینک قریباً 7ارب ڈالر فراہم کرے گا۔دوسری جانب امریکی آشیرباد پر ناچتا بھارت پہلے ہی کئی ڈیم افغانستان میں بناچکا ہے جس میں سے کچھ میں افغان حکومت مچھلی پال پروگرام بھی شروع کرچکی ہے۔ 2011ءمیں بھی یہ منصوبہ بنایا گیا تھا مگر کسی نہ کسی وجہ سے یہ سرد خانے میں پڑا رہا۔اب پھر سے بھارتی سرکار نے پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کےلئے اس پراجیکٹ پر کام تیز کردیا ہے جبکہ امریکہ صرف پاکستان کو افغانستان کے ساتھ معاہدہ طے کروانے میں مدد دینے کے ”لارے“ پر لے کر چل رہا ہے۔
اگر پاکستان میں فوری طور پر ڈیموں کاجال نہ بنانا شروع کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان‘ افغانستان سے بجلی درآمد کررہا ہوگا اور اس کی ترقی کا وسیلہ بھارتی پنجوں میں ہوگا۔افغانستان سے تعلقات میں بہتری ”را“ کی افغانستان میں پٹائی، دریاﺅں کے استعمال پر مضبوط معاہدے اورافغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ کی بحالی وہ اقدامات ہیں کہ جن کی فوری ضرورت ہے ورنہ منگلاڈیم سے 25گنا زیادہ پانی محفوظ رکھنے کی استعداد والے یہ ڈیم پاکستان کومنہ چڑاتے رہیں گے اور موجودہ حالات میں افغانستان سے بجلی برآمد کرنا ایسا ہی ہے جیسے بھارت سے بجلی درآمد کرنا اور بھارت‘ پاکستان کی ترقی تو کیا،اس کے وجود سے بھی نفرت کرتا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا؟٭٭