تازہ تر ین

وجنتی ایک اہل اداکارہ تھی جسے میں نے” گنگا جمنا“ کی دھنو کیلئے موزوں قرار دیا

رہے تھے کہ پنڈت جی وجنتی کے ساتھ نمستے کریں ا ور وہ ان کی آنکھوں کے عین سامنے تھی……اچکانک پنڈت جی کی متلاشی آنکھوں کو میری ایک جھلک دکھائی دی…..میں قطار کے آخری سرے پر دور کھڑا تھا……وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے یہ کہتے ہوئے میری جانب بڑھنے لگے:…….
” میں نے سنا تھا تم یہاں پر موجود تھے اور میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔“
وسن صاحب تیزی سے ان کے پیچھے بھاگے…. اور ……ایک لمحے میں ……پنڈت جی وہاں پہنچ چکے تھے جہاں پر میں کھڑا تھا….انہوں نے ا پنا بازو پھیلا کر محبت بھرے انداز میں میرے کندھے پر رکھا……انہوں نے مجھے جو شرف قبولیت بخشی میں اس کے لیے ہرگز تیار نہ تھا اور فوری طور پر مجھے محسوس ہوا کہ میں ملک کے اس قائد کے ہمراہ چل رہا تھا جس کے بے حد تعریف کی جاتی تھی اور جس سے بے حد محبت بھی کی جاتی تھی…..
ایس….ایس وسن ایک شریف النفس انسان تھے….ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور ہم دونوں بہت جلد آپس میں دوست بن گئے….وہ اسٹوڈیو کے مالک تھے اور جنوبی انڈین فلم انڈسٹری کی معزز ہستی تھے….وہ میرے ساتھ گپ شپ لگانا پسند کرتے تھے اور مجھے وہ داستانیں سنایا کرتے تھے….جنہوں نے ان کی زندگی پر اثرات مرتب کئے تھے یا نہیں کئے تھے۔
انہوں نے مجھے ایک چھوٹے لڑکے کی داستان سنائی جو اپنے ایام اپنی ماں کے ساتھ ریلوے پلیٹ فارم پر گزارتا تھا جو مسافروں کو اخبارات اور رسائل فروخت کرتا تھا۔
وسن صاحب کے پاس ہر چیز کے لئے یا ہر کام کے لئے عظیم علم موجود تھا اور ایک تصور جو اس وقت سامنے آیا جب ہم نے ” پیغام“ کے سینوں کے بارے میں بحث کی…..
مجھے ہینوز یاد ہے میں ان کے ہمراہ ریل گاڑی میں مادھوری کا سفر طے کر رہا تھا جہاں ہم نے ایک چھاپہ خانہ کا معائنہ کرنا تھا جو وہ خریدنے کا ارادہ رکھتے تھے…..ریل گاڑی میں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک سین کو فروغ دینے کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار تھے جو ہم نے اگلے دن ” پیغام“ کے لئے فلمانا تھا جو کچھ اس قسم کا سین تھا ہیروئن اپنے لئے ہیروں کے جذبات کا کھوج لگانے کے لئے اپنا تمام ترنسوانی مکرو فریب بروئے کار لاتی ہے…..انہوں نے کہا کہ وہ دلچسپ اور ظریفانہ صورت حال کی تخلیق کے لئے اپنے ذہن کا اطلاق کرتے رہے تھے لیکن ایسی صورت حال رونما نہیں ہو رہی تھی…..
میںنے وسن صاحب کو مشورہ دیا کہ ہم اس سین کو کسی قدر مختلف انداز سے کر سکتے تھے…..ہیرو تمام تر باتیں کرے گا اور ہیروئن تا اثرات کے ساتھ جواب دے گی یا اپنے درعمل کا اظہار کے گی…..
اگلے دن جب انہوں نے یہ سین وجنتی سے بیان کیا تب وہ بے حد خوش اور پر جوش تھے اور میں نے دیکھا کہ وجنتی بیچارگی کے ساتھ میری جانب دیکھ رہی تھی کیونکہ لائنیں تحریر نہیں کی گئی تھیںاور وہ نہیں جانتی تھی کہ میں کیا کہنے جا رہا تھا…..وہ اپنے تاثرات کو کیسے تیار کر سکتی تھی اگر وہ نہیں جانتی تھی کہ میں کیا بولنے جا رہا تھا؟
تب میں نے وسن صاحب سے کہا:……
” آئیے ہم کچھ ریہرسل کرتے ہیں“
وہ حیران تھے کہ میری لائنیں تیار تھیں…..میں نے انہیں بتایا کہ لائنیں ریل گاڑی ہی میں اس وقت میرے ذہن میں موجود تھیں جب ہم سین زیر بحث لائے تھے اور ہم نے اسے حتمی شکل دی تھی…..میرا خیال ہے کہ وسن صاحب اپنے جوش اور خوشی پر قابو نہ پاسکے جس انداز میں یہ سین فلمایا گیا…..اسے فلمانے کی کئی دن بعد تک وہ خوشی سے ہمکنار ہوتے رہے اور انہیں یقین تھا کہ یہ سین فلم میں چوٹی کا سین شمار کیا جائے گا…..
”نیا دور“بنانے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وجنتی ایک اہل ادکارہ تھی اور وہ اپنے کردار کو بخوبی نبھاتی تھی…..میں جب ” گنگا جمنا“ کا اسکرپٹ تحریر کر رہا تھا…..میں نے اسے دھنو کے کردار کے لئے موزوں تصور کیا تھا بشرطیکہ وہ زحمت گوارا کرتے ہوئے بھوج پری بولی سیکھ لے( فلم میں یہی بولی استعمال کی گئی تھی) درست تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ…..
” نیا دور“ بنانے کی کہانی بذات خود ایک چھوٹی سی کہانی ہے…..جب بی۔آر۔ چوپڑا نے کاغذ پر کہانی مکمل کی…..وہ اسے محبوب صاحب کے پاس لے گیا تاکہ اس پر ان کی رائے لی جاسکے…..وہ آزادی سے قبل کے برس تھے۔
محبوب صاحب نے کہانی پڑھی اور اس میں تفریح کا کوئی مواد نہ پایا…..انہوں نے کہا اس کی ایک دستایزی فلم تو بنائی جا سکتی تھی لیکن بطور ایک فیچر فلم یہ ایک عظیم آئیڈیا ہرگز نہ تھا…..
چوپڑا صاحب نے ایک سینئر فلم بنانے والے فرد کی رائے بڑے احترام کے ساتھ سنی…..لیکن وہ اپنے ذہن کو تیار کر چکے تھے کہ وہ فلم بنائیں گے بشرطیکہ میں اس میں اداکاری کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہوں…..
انہوں نے مجھے اپنے آئیڈیا کا لب لباب بتایا…..میں نے ان کا آئیڈیا پسند کیا ماسوائے اس کے کہ بس تانگے سے ہارگئی تھی…..یہ مجھے منطقی دکھائی نہ دیا تھا……تاہم میں نے اپنی سوچ کو اپنے آپ تک ہی محدود رکھا کیونکہ میں اس فلم کو قبول کرنا نہیں چاہتا تھا…. ( جاری ہے)


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain