شاہ نور سٹوڈیو شوکت حسین رضوی نے اپنی اہلیہ نور جہاں کےلئے اسی جذبے سے بنایا تھا جس جذبے سے شاہجہاں نے تاج محل بنایا تھا‘ تاج محل جو سچی محبت کا امین تھا وہ تو آج تک نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ دنیا کے سات عجائبات میں اس کا شمار ہوتا ہے مگر شاہ نور سٹوڈیو جس کےلئے بنایا گیا تھا جس طر ح سے وہ اپنی محبت پر قائم نہ رہا ۔ اسی طرح شاہ نور سٹوڈیو بھی قائم نہ رہا۔اس وقت شاہ نور سٹوڈیو کا یہ عالم ہے کہ اب شاہ (شوکت حسین رضوی) رہا اور نہ ہی نور (نور جہاں) رہا۔ رنگ و نور کی یہ بستی اب اندھیروں میں ڈوب چکی ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب شوکت حسین رضوی سرشام پتلون کوٹ زیب تن کئے اور سفید چشمہ لگائے شاہ نور میں بنے فوارے کے گرد اداسی کے عالم میں چہل قدمی کیا کرتے تھے ایک روز حسب معمول جب وہاں اکیلے ہی چہل قدمی کررہے تھے تو قریب سے نغمہ نگار احمد راہی گزرے تو اچانک چلتے چلتے شوکت حسین کے قریب آکر بڑی سادگی اور بے تکلفی سے پوچھا شاہ جی آپ نے کیا سوچ کر اپنے سٹوڈیو کا نام شاہ نور رکھا تھا۔ اب تو صرف یہاں شاہ صاحب ہی نظر آتے ہیں ”نور“ تو کہیں نظر نہیں آتا جس پر شوکت حسین رضوی نے احمد راہی کی طرف دیکھتے ہوئے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ”راہی صاحب جب انسان کے اعمال ہی خراب ہو جائیں پھر نور کہاں رہ جاتا ہے“ شوکت حسین رضوی کی بات سن کر احمد راہی یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے شاہ جی بڑی ڈونگی گل کیتی جے۔