تازہ تر ین

سائرہ نے نوعمری کے دور سے ہی میرے ساتھ محبت کرنے کا آغاز کر دیا تھا

قسط نمبر42

ہم نے گاڑی میں بیٹھ کر اس کی والدہ کے نوعمری کے دور سے ہی میرے ساتھ محبت کرنے کا آغاز کر دیا تھا۔میں جانتا تھا کہ سائرہ اپنے کیریئر کے عروج پر تھی اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اپنے کام کے بارے میں بے حد جذباتی تھی۔ وہ ہر رات سونے سے قبل یہ دعا مانگتی تھی، ”اللہ مجھے ایک بڑا فلمی ستارہ بنا دے جس طرح میری ماں پری چہرہ نسیم بانو تھی اور مجھے جلد ہی مسز دلیپ بنا دے“اماں جی اور ان کی بڑی بہن خورشید باجی جان گھر پر تھیں اور میں نے اپنا پروپوزل پیش کردیا، ایک اچھے پٹھان کی مانند۔ گھر کے دو بڑوں کے سامنے اماں جی نے خوشی خوشی میری پیشانی چوم لی۔ وہ ہمیں دعائیں دیتی رہیں اور ان کی آنکھیں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔”اللہ ہر خوشی دے آپ دونوں کو اور یوسف میاں کا اقبال بلند رکھے۔ آمین

اس کے بعد بھی اماں جی زندگی کے ہر موقع پر مجھے اسی دعا سے نوازتی رہیں۔اس کے بعد جلد ہی سائرہ نے نسیم آپا سے اجازت لی جو ایک مختصر سی ڈرائیو پر جانے کے لیے تھی اور اس کے بعد مجھے گھر ڈراپ کرنے کے بارے میں تھی اگرچہ میرا گھر ان کے بنگلے سے محض چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ سائرہ لندن میں پروان چڑھی تھی اور اس نے وہاں پر ہی تعلیم حاصل کی تھی لیکن اماں جی اور نسیم آپا نے سائرہ کی تربیت اس انداز سے کی تھی کہ اسے انڈین اقدار سے بھی روشناس کروایا تھا اور یہ اقدار اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھردیاتھا۔ اس کی شخصیت کی یہی خوبی مجھے بے حد پسند تھی۔ سائرہ کی فیملی کے چار اراکین تھے، اس کی دادی، اماں اور بڑا بھائی اور بذات خود سائرہ۔اس کے بعد واقعات بڑی تیزی کے ساتھ رونما ہوتے رہے جیسا کہ خبر ہر جگہ پھیل چکی تھی۔تاجروں کے اجتماع کےلئے مشہور تھا۔ نماز مغرب کے بعد تاجر اور دوکاندار وہاں پر باہم اکٹھے ہوتے تھے تاکہ کسی قسم کی تفریح سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہر شام میں آغا جی کی انگلی تھام کر ان کے ہمراہ اس سکوائر پر جاتا تھا اور کسی نہ کسی مولاناکا بیان سنتا تھا۔ یہ لوگ اپنے دینی علم اور نیکی اور خدا ترسی کے لئے مشہور تھے۔

داستانیں دلچسپ ہوتی تھیں اور انہیں سنانے کے دوران مناسب توقف اختیار کرنے کے علاوہ آواز کے اتار چڑھاو¿ کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا اور انہیں بیان کرنے والے اس امر پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ کہانی جب ڈرامائی انداز اختیار کرتی تھی تب آواز اونچی کرلی جاتی تھی اور جب کہانی میں کوئی پر آشوب موڑ آتا تھا تب آواز دھیمی کرلی جاتی تھی۔ میں کہانی سے لطف اندوز ہوتا تھا اور اس کے کرداروں اور صورت حال کے تصورات سے اپنے ذہن کو زرخیز بناتا تھا اور مولانا کی بولی گئی لائنوں کے ساتھ کرداروں کی اداکاری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ میں یہ کام گھر کے کسی تنہا گوشے میں بیٹھ کر کرتا تھا جہاں کسی کی نظر مجھ پر نہیں پڑسکتی تھی۔ اب مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے جب میں ان حیران کن شاموں پر غور و فکر کرتا ہوں جب میں منہ کھولے حیرانی کے عالم میں آغا جی یا دادی کے ہمراہ بازار میں بیٹھ کر کہانیوں کے مختلف موڑ اپنے اندر جذب کیا کرتا تھا۔ کون یہ پشین گوئی کر سکتا کہ کئی برس بعد کہ میں ایک ایسے ذریعے کے لئے داستان گوئی مشقوق میں شرکت کر رہا ہوں گا جو سینما کہلاتا ہے۔میں اپنی تنہائی میں ایک اور کام میں بھی مصروف رہا کرتا تھا۔ وہ کام یہ تھا کہ میں ان خواتین اور مردوں کی نقالی کیا کرتا تھا جو میرے والدین کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے آتے تھے۔

ایک دن اماں نے مجھے یہ حرکت کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور میری سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ بڑوں کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں ہوتی، میں اس وقت خالہ مریم کی نقالی کر رہا تھا جب وہ غیر متوقع طور پر میرے سر پر آن پہنچیں اور دیکھا کہ میں کیا حرکت کر رہا تھا،میں نے اماں کو نہیں بتایا کہ میں خالہ مریم کا مذاق نہیں اڑا رہا تھا بلکہ میں چند لمحات کے لئے خالہ مریم بننے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ وہ اس قدر ذوق تجسس کو ابھارنے والی ہستی تھیں عین ممکن ہے میں لاشعوری طور پر اپنے آپ کو اس کام کے لئے تیار کر رہا تھا جو آنے والے برسوں میں میرے مقدر میں رقم تھا۔

خالہ مریم خاندان کی بلبل تھی وہ گانے کے حوالے سے ایک اچھی آواز کی حامل تھیں اور وہ ہمیں سلانے کےلئے یعنی بچوں کو سلانے کے گیت (لوریاں) گاتی تھیں اور ہم ان کی لوریاں سنتے ہوئے پلے بڑھے تھے…… ان کی شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی جو بانکا اور خوش لباس تھا…… وہ ایک ایسا شخص تھا دادی نے جس کا داخلہ ٹیرس پر بند کر رکھا تھا کیونکہ وہ جو داستان سناتا تھا اس میں شرارت کی آمیزش ہوتی تھی اور شرارت کا رنگ نمایاں ہوتا تھا…… وہ خاندان کے دیگر مردوں سے نے حد مختلف واقع ہوا تھا…… وہ ان ادب آداب کا خیال نہ رکھتا تھا جس کا خیال خاندان کے دیگر مرد رکھتے تھے…… وہ کہیں نہ کہیں سے سگار لے آتا تھا اور سگار نوشی کیا کرتا تھا جب کہ دیگر مرد حقہ پیتے تھے ( جاری ہے)

…… وہ دادی سے بحث کیا کرتا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہ


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain