اسلام آباد(آئی این پی‘صباح نیوز) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ کمیشن کے پاس ملک بھر سے 1276افراد کے لاپتہ ہونے کے کیس درج ہیں،وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اہمیت دے رہی ہیں نہ ہی کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون کیا جارہا ہے،جنوبی پنجاب کی حالت انتہائی خراب ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کراچی کے 368لاپتہ افراد کی فہرست دی انکوائری شروع کی تو 309افراد مختلف کیسوں کے باعث جیلوں میں تھے زیادہ تر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا،خفیہ ادارے کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں،بجٹ دیا نہیں تو وزارت داخلہ کا ایک سیکشن افسر کمیشن کا آڈٹ کرنے آگیا،کمیٹی نے لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کے سربراہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ کمیشن کے ساتھ تعاون کیلئے افسران کی ٹیم مختص کریں جبکہ کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے کمیشن کو آئینی حیثیت دینے کیلئے بل تیار کرنے کی تجویز دے دی ،سینیٹر مختار عاجز دھامرا نے وزیرداخلہ چوہدری نثار کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث کمیٹی سے علامتی واک آﺅٹ کیا۔پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں ہوا کمیٹی کو لاپتہ افراد کے مسئلہ پر بریفنگ دیتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلے کو اہمیت نہیں دے رہیں، شادی کے چند ماہ بعد جوان عورتوں کے شوہر لاپتہ کردیئے جاتے ہیں اور وہ اپنے شوہر کی تلاش میں دربدر پھرتی ہیں ،اس کے علاوہ بے شمار مائیں اپنے بچوں کی تلاش کیلئے ٹھوکریں کھاتی ہیں اور صرف لاپتہ افراد کمیشن ہی ایسا فورم ہے جو انہیں نا صرف داد رسی فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے لاپتہ ہونے والوںکو بازیاب بھی کرواتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پنجاب کے 223،سندھ کے 200،بلوچستان کے 96،کے پی کے 654،فاٹا کے 53،آزادکشمیر کے 11اور گلگت بلتستان کے 4کیس کمیشن کے پاس زیرسما عت ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کمیشن انتہائی محدود وسائل کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہا ہے سب سے خراب حالت پنجاب کی ہے،223افراد کے کیس کمیشن کے پاس ہیں ،جنوبی پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر افراد لاپتہ ہورہے ہیں اور کمیشن کے پاس کیس آرہے ہیں وہاں پولیس کی تفتیش مکمل طور پر ناکام ہے اور تھانہ کلچر ویسے کا ویسا ہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے جنوبی پنجاب میں صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پنجاب حکومت کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کر رہی ،پنجاب حکومت میں کمیشن جب کیسوںکی سماعت کیلئے جاتا ہے تو کرائے ایک کمرے میں سماعت کی جاتی ہے،پنجاب کے وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ سے ملاقات کیلئے کوشش کی تاہم ان سے ملاقات بھی نہ ہوپائی۔انہوں نے کہاکہ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی نے باربار کی درخواست کے باوجود کمیشن کو وقت نہیں دیا۔ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی پرایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میںکسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ ذمہ داروں کا مکمل تعین کردیا ہے کہ کون کس مرحلے پر ذمہ دار تھا اور کون کس مرحلے پر ذمہ داری پوری نہیں کرسکا،رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمدکرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، میری چھوٹی بیٹی نے پوچھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں تھا کہ نہیں تو میں نے جواب دیا کہ اگر یہ بتادوں تو رپورٹ میں باقی بچے گا کیا۔ جسٹس (ر ) جاوید اقبال نے سینیٹ کی اہم کمیٹی میں بیان دیا ہے کہ میں نے ایبٹ آباد کمیشن پر کام کیا ہے اور سفارش کرتا ہوں کہ اسکے پبلک کیا جائے۔ جب کہ قائمہ کمیٹی نے لاپتہ افراد پر قائم کمیشن کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ چیئرمین کمیشن نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد پر کمیشن نے چھ ماہ کام کیا اور اگر سفارشات پر عمل ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے، اسی طرح پاکستانی سرزمین پر امریکی فوج کی کاروائی سے متعلق ایبٹ آباد کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ بھی کسی الماری میں پڑی ہو گی لاپتہ افراد کے حوالے سے سندھ کی صورتحال خراب ہے ۔قائمہ کمیٹی نے واضح کیا ہے پاک فوج ، ایف سی اور دوسرے ادارے پاکستان کے سلامتی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں سلامتی کے معاملے پر پوری قوم ان کی حمایت کرتی ہے ۔ ملک میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے قائمہ کمیٹی نے ن لیگ کے دور حکومت میں ان کیسز میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ پیر کو قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کے صدارت میں اسلام آباد میں ہوا ۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سربراہ لاپتہ افراد کمیشن نے قائمہ کمیٹی کو لاپتہ افراد کمیشن پر بریفنگ دی ۔سینیٹر رحمان ملک نے کمیشن کی کاوشوں کو سراہا ہے انھوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم کمیشن ہے قائمہ کمیٹی نے اسے مستقل کرنے کی سفارش کردی ہے ۔ اراکین نے کہا کہ مسنگ پرسنز پاکستان کا بہت اہم معاملہ ہے ۔ جسٹس جاوید اقبال نے اجلاس میں سینٹر رحمان ملک کی بھی تعریف کی اور کہا کہ اپنے دور میں سینیٹر رحمان ملک نے اس کمیشن کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ وسعت دی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پہلے لاپتہ افراد کے کیسز درجنوں میں تھے اور اب تو ہزاروں میں ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لاپتہ افراد کی حالت ایسی ہے جیسے پاکستان کی۔ کمیشن نے چھ ماہ کام کیا اور اگر سفارشات پر عمل ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ جسٹس کمال منصور کے وقت کمیشن میں لاپتہ افراد کی تعداد136تھی۔اسی طرح آج تک ایبٹ آباد کمشن کی سفارشات پر بھی عمل نہیں ہوا۔اگر سفارشات پر عمل ہوتا تو نئے اداروں کی ضرورت نہ پڑتی جاوید اقبال نے مزید کہا کہا ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کسی الماری میں پڑی ہو گی۔ایبٹ باد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ےاد رہے کہ ایک وقت آیا کہ لاپتہ افراد کی تعداد 136سے بڑھ کر 3692ہو گئی۔ جسٹس جاوید اقبال نے بتایا کہ اب تک 2416مقدمات کا فیصلہ کمیشن کر چکا ہے۔ جاوید اقبا ل نے بتایا کہ اب 1276 مقدمات کا فیصلہ باقی ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سندھ کی صورتحال خراب ہے تاہم وفاقی پولیس نے لاپتہ افراد کے حوالے بہت اچھا کام کیا۔اجلاس کے دوران بھارتی مداخلت کے معاملے پر بھی بات ہوئی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔بلوچستان سے را کا ایجنٹ کلبوشن یادو پکڑا گیا ہے اورکلبوشن یادو اقرار کرچکا ہے کہ انڈیا پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ ہمارے اداروں کو بدنام کرنے کیلئے انڈیا ایجنسی را ہمارے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ سابق وزیرداخلہ کے مطابق ان کے سامنے کئی کیسز آئے ہیں جس میں ہماری اداروں کی وردی کو اغوا کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ فوج اور ایف سی اور دوسرے ادارے پاکستان کے سلامتی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیںاراکین نے کہا کہ ہم پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ ہیں اور دہشتگردی کیخلاف کارروائی کرنے پر انکی حوصلہ افزائی کرتے رہے گے ۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کمیٹی وزارت داخلہ کی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں کمیٹی کے سفارشات پر قبضہ مافیا اور منشیات کیخلاف کاروائی پر تعریف کرتے ہیں۔ایبٹ آباد کمیشن میں اس وقت کے آرمی چیف کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا گیا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس کی جتنی ذمہ داری تھی اس کا تعین کیا گیا ہے، جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے رپورٹ کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے کون لوگ ذمہ دار ہیں۔