دمشق (خصوصی رپورٹ) شام کے شہر حلب میں درجنوں خواتین عزت بچانے کی خاطر خودکشی کرچکی ہیں۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق بشار ملیشیا کے جنگجوﺅں کی جانب سے اجتماعی زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے بچنے کی خاطر ایک ہفتے کے دوران 100 سے زائد خواتین اپنی جان قربان کرچکی ہیں۔ بیشتر نے اپنے شیر خوار کے ساتھ موت کو گلے لگایا جبکہ مزید سینکڑوں خواتین‘ شامی و روسی افواج اور ایرانی ملیشیا کی درندگی سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے خودکشی کیلئے تیار ہیں۔ دوسری جانب شامی فوج اور اس کی معاون ایرانی ملیشیا کی جانب سے حلب میں قتل عام کی کارروائیوں میں مزید تیزی آگئی ہے۔ عالمی جریدے ڈیلی بیسٹ نے اپنی رپورٹ میں حلب کی خواتین کا المیہ اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حلب میں ایرانی و روسی معاونت سے شامی فوج کے سپاہیوں کی جانب سے مرد شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے اور خواتین سے اجتماعی زیادتیوں کا مسلسل ارتکاب ہورہا ہے۔ خواتین اور ان کے بچوں کو شامی افواج کی جانب سے زندہ جلائے جانے اور نوجوان لڑکیوں کو زیادتیوںکا ہدف بنانے کا سلسلہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ عالمی نمائندوں نے حلب سے سوشل میڈیا سائنس پر علمائے کرام کیلئے بھیجا جانے والا ایک سوال اٹھایا ہے جس میں خواتین نے علماءدین سے استفسار کیا ہے کہ شامی افواج کی زیادتی سے بچاﺅ کیلئے اگر وہ خودکشی کرتی ہیں تو یوم آخرت میں ان سے خودکشی پر مواخذہ ہوگا یا نہیں؟ واضح رہے کہ حلب کے المیے پر عالمی میڈیا خاموش ہے اور بیشتر خبریں سوشل سائنس کے ذریعے ہی سامنے آرہی ہیں۔ عرب صحافی ماجد بادغیث نے حلب میں بچوں کے خلاف جرائم کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔ ماجد بادغیث نے بتایا کہ حلب میں ایک ہفتے کے اندر 2 ہزار سے زائد بچوں اور نوجوانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مڈل ایسٹ مانیٹر کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ حلب میں خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتیوں پر اہل مغرب کی خاموشی مجرمانہ فعل ہے۔ عالمی صحافی کرسٹینا امان پور نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان تک رسائی پانے والے ایک استاد نے حلب سے بتایا کہ یہ میری آپ سے آخری گفتگو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مجھے بھی حلب کے دیگر باسیوں کی طرح شامی افواج دیکھتے ہی شوٹ کردیں گی۔ لب حقیقی ہولو کاسٹ ہے۔ لیکن دنیا اس لئے اس پر توجہ نہیں دے رہی ہے کہ مرنے والے مسلمان ہیں یہودی نہیں۔ حلب کی سڑکوں پر اس قدر لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں کہ الامان۔ حلب میں دو سال سے مصروف کار خاتون صحافی سوسان احمد نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر لکھا ہے کہ شہر میں بدھ کی صبح بھی اسنائپر گنوں کے فائر بیرل بمبوں کے دل دہلا دینے والے دھماکوں اور خواتین اور بچوں کی دلدوز چیخوں کو بآسانی سنا جاسکتا تھا لیکن ان چیخوں کو برداشت کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سوسان احمد نے لکھا ہے کہ حلب کے گنجان آباد علاقوں بستان القصر اور الفارود سے مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ درجنوں خواتین نے اپنے شوہروں سے کہا کہ وہ ان کو اور بچوں کو سروں میں گولیاں مار کر شہید کردیں اور شامی افواج کی زیادتی کیلئے زندہ نہ چھوڑیں۔ تاریخی شہر حلب میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی افواج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے عالمی رپورٹنگ ٹیم کے ارکان ایکس روویل‘ روئے گوتم اور مشول وئیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ حلب میں خواتین اور بچوں کے خلاف مظالم کی نئی داستان رقم کرنے والی افواج میں شامی صدر بشارالاسد اور اس کی ایران سے بھیجی جانے والی ملیشیا کا اہم کردار ہے۔ ان کا خاص نشانہ جواں سال خواتین ہیں اور جن علاقوں میں شامی افواج ایرانی مسلح ملیشیا نے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے ان میں بستان القصر‘ الکلاسہ‘ الفارود‘ الصالحین‘ شیخ سعید اور پرانا شہر شامل ہے۔ یو این ہیومن رائٹس آفس کے ترجمان روپرٹ کولوائیل نے بھی تصدیق کی ہے کہ حلب کے باشندے اور بالخصوص خواتین اور بچے ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ ان کو سرعام ہلاک کیا جارہا ہے حلب کی مرکزی جامع مسجد حضرت ذکریا کا روضہ اقدس بھی ہے کا احاطہ خون سے بھرا ہوا ہے۔ روسی نیوز ایجنسی ٹائمز آف رشیا نے بھی خبر دی ہے کہ حلب میں شامل افواج نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں داخلے کے بعد درجنوں علاقوں میں گھروں کو بند کرکے آگ لگا دی جس سے درجنوں مکین زندہ جل گئے۔ واضح رہے کہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے بھی 250 سے زیادہ افراد کو زندہ جلائے جانے کی خبر دی ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے جریدے میٹرو کی صحافی نکولس مورلے نے لکھا ہے کہ حلب کا المیہ خواتین اور بچوں کا المیہ ہے جہاں ان خواتین کا کوئی محافظ نہیں ہے۔ نکولس مورلے نے ایک شامی نرس کی موت اور اس کے آخری خط کا ذکر بھی کیا ہے کہ اس جواں سال نرس نے دنیا کے ضمیر کوجھنجھوڑا ہے کہ اس نے حلب پر شامی افواج کے قبضے کے بعد خودکشی کا فیصلہ کیوں کیا؟ حلب میں امدادی ورکر عبداللطیف خالد نے اس نرس سے ملاقات کی تھی جس نے فیصلہ کیا تھا کہ بشار ملیشیا کے ہاتھوں اپنی عفت لٹانے سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ موت کو گلے لگائے۔ ادھر یو این ہیومن رائٹس کمیشن نے حلب میں اپنے مصدقہ ذرائع سے بتایا ہے کہ شامی افواج کے مسلح سپاہی گھر گھر تلاشی کے دوران سنگین انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب بھی کررہے ہیں۔