اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)قومی اسمبلی میں پیر کی شام اپوزیشن اس وقت ہنگامہ آرائی شروع کر دی جب پانامہ لیکس کے معاملے پر مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے جواب دینے کی کوشش کی ۔ اس موقع پر ارکان نے نو نو اور چور چور کے نعرے لگائے ۔ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کو خود ایوان میں آ کر جواب دینا چاہئے تاہم دانیال عزیز کھڑے ہو کر بولتے رہے اپوزیشن کے نعروں سے ایوان ہنگامہ آرائی کا منظر پیش کرنے لگا اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سپیکر نے اپوزیشن ارکان کو نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی مگر اس کے باوجود اپوزیشن ارکان نے نو نو کے نعرے جاری رکھے ۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب تک وزیراعظم نواز شریف اس معاملے پر خود ایوان میں آ کر جواب نہیں دیتے احتجاج جاری رہے گا۔ دانیال عزیز نے کہا کہ میری بات سنیں گے تو پتہ چلے گا کہ ہم سچ کہہ رہے ہیں یا آپ جھوٹ بولتے ہیں ۔ شیریں مزاری نے کہا کہ یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں سچ بولنا سیکھیں جس پر دانیال عزیز نے کہا کہ آپ اپنی عمر دیکھیں اور حرکتیں، کچھ تو خیال کریں۔ سپیکر نے شیریں مزاری کے مسلسل بولنے پر کہا کہ شیریں صاحبہ اب بس کر دیں اور خاموش ہو جائیں ۔ دانیال عزیز نے کہا کہ آپ وزیراعظم کو بلانے کی بات کر رہے ہیں بتائیں عمران خان کب آئیں گے۔ آپ تھوڑا حوصلہ اور صبر کا مظاہرہ کریں بیانات میں کوئی تضاد نہیں اور نہ ہی غلط بیانی کی گئی۔ عزیزیہ سٹیل ملز کے بارے میں تمام ثبوت دیئے جا رہے ہیں وزیراعظم نے یہاں واضح کیا تھا کہ جب بھی کوئی فورم بنے گا وہاں ثبوت پیش کرینگے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ لوگ اس وقت کاغذ لہرا لہرا کر الزامات لگاتے رہے ۔ وزیراعظم نے یہاں واضح کیا تھا کہ جب بھی کوئی فورم بنے گا وہاں ثبوت پیش کرینگے اس دوران تحریک انصاف کے لعل چند نے مداخلت کی کوشش کی تو سپیکر نے لعل چند سے کہا کہ آپ مسلسل مداخلت کر رہے ہیں جائیں پانی پی کر آئیں دانیال عزیز نے کہا کہ 3 اپریل کو پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور اپوزیشن نے وزیراعظم کو ایوان میں آ کر وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا تو وزیراعظم اس ایوان میں آئے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم حکومتی بنچز کی بات سننا چاہتے ہیں حکومت کی جانب سے کوئی ذمہ داری یقین دہانی کرا دے کہ وزیراعظم یہاں کب وضاحت دینگے ۔ ماحول کو بگاڑنا عوام کے مفاد میں نہیں ہم ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتے ۔ میں عمران خان کا وزیراعظم کو پیغام دیتا ہوں کہ وہ ایوان میں آ کر عوام کے سوالوں کا جواب دیں جب تک جواب نہیں ملتا ہم عدالت اور عوام میں اس کا تذکرہ کرتے رہیں گے۔ پاناما اسکینڈل صرف ہمارا نہیں پورے پاکستان کا معاملہ ہے، ہم پاناما کا مقدمہ پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں اور اس پر اپنا موقف سپریم کورٹ میں بھی پیش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ وزیر اعظم کی ساکھ کا سوال ہے جب تک وہ وضاحت نہیں کرتے ہم تکرار اور مطالبہ کرتے رہیں گے، جبکہ میں چیئرمین عمران خان کی طرف سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وزیراعظم آئیں اور سچ بتائیں۔شاہ محمود قریشی کی بات مکمل ہونے پر ایاز صادق نے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز کو بات کرنے کی اجازت دی، جس پر اپوزیشن ارکان نے ہنگامہ شروع کر دیااور نعرے بازی شروع کر دی۔ اپوزیشن اراکین کے ہنگامے پر حکومتی بینچوں سے بھی جوابات کا سلسلہ شروع ہوا اور دونوں اطراف سے ’گو نواز گو‘ اور ’گو عمران گو‘ اور چور چور کے نعرے لگائے گئے۔اسپیکر نے شاہ محمود قریشی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ میں اجلاس ملتوی کردوں۔دانیال عزیز کے جواب کے دوران بھی تحریک انصاف کے ارکان مسلسل مداخلت کرتے رہے شیریں مزاری کی طرف سے شاہ محمود قریشی کو وقت دینے کے مطالبے پر سپیکر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی پہلے تقریر کر چکے ہیں سپیکر نے شیریں مزاری سے کہا کہ اب آپ بڑی ہو گئی ہیں کتاب آپ کے سامنے ہے رول پڑھ لیں ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سوال وزیراعظم کی ساکھ کا ہے ان کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں آئیں اور بتائیں کہ ان کا ایوان میں دیا جانے والا بیان درست ہے یاں قطری شہزادے والا موقف درست ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آئی سی آئی جے کی رپورٹ جھوٹی ہے تو پھر وزیراعظم کو اس پر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس معاملے کو خود مسلم لیگ ن نے حقیقت بنایا ہے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ میں بھی سمجھتا ہوں کہ آئی سی آئی جے کی رپورٹ جھوٹی ہے لیکن اگر آئی سی آئی جے رپورٹ جھوٹ کا پلندا ہے تو برطانوی وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو وضاحتیں کیوں دیں؟ کیوں آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفیٰ دیا۔ اگر یہ جھوٹ تھا تو پھر وزیراعظم کو اس پر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس معاملے کو خود مسلم لیگ ن نے حقیقت بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کے معاملے پر برطانوی وزیراعظم نے گھنٹوں کیوں وضاحتیں دیں حالانکہ ان کا نام تو اس میں شامل نہیں تھا،میں حیران ہوں کہ حکومت کی جانب سے کیسے جواب آرہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ پارلیمنٹ کو اہمیت دی اور اس کو عزت بخشی، ہمارے وزیراعظم نے کبھی اس پارلیمنٹ کونہیں چھوڑا، ہمارا وزیراعظم ہر روز اپنی نشست پر آکر بیٹھتا تھا اور سب کچھ سنتا تھا۔