لاہور(خصوصی رپورٹ)ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زہریلی شراب پینے سے ہلاکتوں کے بعد صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں زہریلی شراب کے حوالے سے بننے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایک ایسا شہر نہیں جہاں پر زہریلی شراب کی فروخت نہ ہوتی ہو ۔ زہریلی شراب کی فروخت مقامی پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ رپورٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ زہریلی شراب کی تیاری میں جہاں دیگر چیزیں استعمال ہوتی ہیں وہاں صمد بونڈ بنانے کیلئے استعمال ہونے والا کیمیکل بھی اس میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔ لاہور سمیت گوجرانوالہ ،گجرات، پنڈی ،ملتان ،فیصل آ باد ،سیالکوٹ ، ڈیرہ غازی خان ، راجن پور، رحیم یار خان ، بہاولپور ،اوکاڑہ اور ساہیوال میں باقاعدہ زہریلی شراب کی بھٹیاں لگی ہوئی ہیں جبکہ صوبائی دارالحکومت میں تو انگلش شراب کی بوتلوں میں زہریلی شراب بھر کر فروخت کی جاتی ہے ، جبکہ بھارت سے آنے والی شراب بھی جو صوبائی دارالحکومت کے سرحدی علاقوں میں بکتی ہے وہ بھی زہریلی ترین شراب ہے ۔ اس حوالے سے رپورٹ حساس ادارہ نے بنائی ہے ، جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ صرف لاہور کے اندر تین سو سے زائد ایسے مقامات ہیں جہاں پر یہ زہریلی اور جعلی شراب مختلف برانڈ کی بوتلوں میں بھر کر فروخت کی جاتی ہے ۔ مختلف گیسٹ ہاسز اور ہوٹلوں میں بھی زہریلی شراب فروخت ہوتی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اندرون شہر کی تین بڑی مارکیٹوں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خالی شراب کی بوتلوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، جو جعلی شراب بنانے والا مافیا کرتا ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاہور پولیس کے چھ افسر ایسے ہیں جو خود بھی لاہور کے بڑے شراب مافیا کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر لاہور کے ہوٹلوں میں فروخت ہونے والی شراب کے ریشو کو چیک کیا جائے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ فیصد پرمٹ پر، تو پچانوے فیصد بغیر پرمٹ کے فروخت ہوتی ہے ، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیو ایئر نائٹ کیلئے اس وقت تک ہزاروں لیٹر زہریلی شراب فروخت ہو چکی ہے اور مزید فروخت جاری ہے اور اس سے لاہور میں بھی کسی بڑے واقعہ کا خدشہ ہے ۔ زہریلی شراب میں سستا اور ناقص ترین کیمیکل استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ تمام چیزیں بآسانی مارکیٹ میں مل جاتی ہیں اور اس کی خریدوفروخت پر نہ تو کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی کوئی اندراج ۔ کئی کمپنیاں تو کھانسی کے شربت کے نام پر ایسا نشہ آور شربت فروخت کر رہی ہے جو زہریلی شراب سے بھی زیادہ خطرناک ہے مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔