واشنگٹن (سپیشل رپورٹر سے) امریکی انتظامیہ نے دعوت کا انتظار نہ کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری آبی تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کے عمل کا آغاز کردیا۔دونوں ممالک کے درمیان جاری حالیہ تنازع 2 ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کشن گنگا اور رتلے کی تعمیر کے باعث سامنے آیا، بھارت یہ دونوں پلانٹس دریائے نیلم کے پانی پر تعمیر کررہا ہے، پاکستان کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں اس طرح کے پلانٹس کی تعمیر سے متعلق مخصوص دائرہ کار طے ہے اور بھارت کے منصوبے اس طے شدہ دائرہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ٹیلی فون کرکے تنازع کے دوستانہ حل سے متعلق مختلف آپشنز پر بات کرچکے ہیں، فون کال کے بعد امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے بھی اسلام آباد میں اسحاق ڈار سے ملاقات میں تبادلہ خیال کیا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ اور ورلڈ بینک کی جانب سے تنازع کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے پیچھے یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر یہ قضیہ طول پکڑتا رہا تو نصف صدی سے دونوں ممالک کے آبی تنازع کو حل کرنے والا سندھ طاس معاہدہ متاثر ہوگا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں 19 ستمبر 1960 کو طے پایا تھا، اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے باہمی اصول طے کیے گئے تھے۔معاہدے میں ورلڈ بینک کو مرکزی ثالث مقرر کیا گیا تھا جو دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے غیر جانبدار ماہرین اور ثالثی عدالت کا تقرر کرے گا۔حالیہ تنازع پر پاکستان نے عالمی بینک سے چیئرمین ثالثی عدالت کے تقرر کا مطالبہ کیا تھا جبکہ بھارت کی جانب سے غیرجانبدار ماہر کے تقرر کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔ورلڈ بینک کے صدر جم یانگ کم نے دونوں ممالک کے وزیر خزانہ کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے پر غیر جانبدار ماہر کی تقرری روکتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کو آبی تنازع جنوری تک حل کرنے کی مہلت دیتا ہے۔23 دسمبر کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوگا کیونکہ پہلے ہی یہ عمل ‘بہت تاخیر’ کا شکار ہوچکا ہے لہذا بینک چیئرمین ثالثی عدالت کا تقرر جلد از جلد یقینی بنائے۔اس کے دو روز بعد ورلڈ بینک کے صدر نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مزید بات چیت کے لیے فون کیا، بعد ازاں جان کیری نے بھی کرسمس کی چھٹیوں کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے رابطہ قائم کیا۔امریکی حکام کا یہ اقدام غیر معمولی تھا جس کی بڑی وجہ اوباما انتظامیہ کے دور حکومت کا 20 جنوری کو اختتام ہے، عام طور پر اس طرح کے معاملات جانے والی انتظامیہ اگلی انتظامیہ کے لیے چھوڑ جاتی ہے تاکہ وہ اس کا حل تلاش کریں۔تاہم سرکاری ذرائع نے بتایا کہ معاملے کی سنجیدگی بالخصوص سندھ طاس معاہدے کو پہنچنے والا ممکنہ نقصان جان کیری کی جانب سے فون کرنے کی وجہ بنا۔واشنگٹن کے سفارتی مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ سندھ طاس معاہدے میں امریکا کی جانب سے سہولت کار کا کردار ادا کیا گیا تھا لہذا وہ اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔معاہدے کے مطابق متنازع فریق کی جانب سے ثالثی کا مطالبہ سامنے آنے کے 60 روز کے اندر اندر چیئرمین ثالثی عدالت اور اس کے 3 ممبران کا تقرر کردیا جانا چاہیئے۔اگر دونوں ممالک ایمپائر کے تقرر میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دونوں فریقین کئی ناموں کی قرعہ اندازی کریں گے جس کے بعد ان ناموں میں سے ایمپائر کا انتخاب کرنا ہوگا۔جبکہ چیئرمین کا انتخاب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل یا ورلڈ بینک کے صدر کی جانب سے کیا جاسکتا ہے، تکنیکی ارکان کا انتخاب میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے صدر یا امپیرئیل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، لندن کے ریکٹر کئی افراد کی قرعہ اندازی کے ذریعے کرسکتے ہیں۔قانونی ایمپائر کا انتخاب یا تو امریکا کے چیف جسٹس یا برطانیہ کے لارڈ چیف جسٹس کرسکتے ہیں۔پاکستان اپنا کیس ستمبر 2016 میں عالمی بینک کے پاس لے کر گیا تھا جس میں بینک سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بھارت کو دریائے نیلم اور چناب پر غیرقانونی تعمیر سے روکے۔بھارت کے دونوں پلانٹس میں موجود اعتراضات پر غور دریائے سندھ کے مستقل کمیشن کے 108ویں، 109ویں، 110ویں، 111ویں، اور 112ویں اجلاس میں کیا گیا مگر اس کا کوئی حل سامنے نہ آسکا۔