لاہور (ویب ڈیسک)پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کی دستاویزات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزار اور وزیراعظم کے وکیل سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے جبکہ عوام سچ جاننا چاہتی ہے۔پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کی دستاویزات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزار اور وزیراعظم کے وکیل سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے جبکہ عوام سچ جاننا چاہتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ ایک کھلی کتاب ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کے کچھ صفحے غائب ہیںپاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کی دستاویزات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزار اور وزیراعظم کے وکیل سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے جبکہ عوام سچ جاننا چاہتی ہے۔جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت حقائق جاننے کے لیے ایک طرف جاتی ہے تو وہ اس کے راستے میں دیوار کھڑی کردیتے ہیں جبکہ دوسری طرف جائیں تو وہاں بھی یہی صورت حال ہے۔وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی طرف سے پارلیمان اور قوم سے خطاب میں کاروبار سے متعلق تفصیلات نہ بتانا جھوٹ کے ذمرے میں نہیں آتا۔اس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی ان تقاریر کو آدھا سچ یا پھر جھوٹ مان لیں۔مخدوم علی حان نے کہا کہ ا±ن کے مو¿کل نے اپنی تقریر میں کسی مخصوص سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ عمومی طور پر اپنے کاروبار کا ذکر کیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ منی ٹریل کے بارے میں بارے ثبوت وزیراعظم پر ہی ہے۔ ا±نھوں نے کہا کہ جب جائیداد کی ملکیت تسلیم کرلی گئی ہے تو اس کے ثبوت فراہم کرنا بھی مدعلیہا ن پر ہی ہوتا ہے۔بینچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت وزیراعظم کی طرف سے پارلیمنٹ ہاو¿س میں کی جانے والی تقریر کا جائزہ لیتی ہے تو پھر عدالت کو آئین کے آرٹیکل 66 کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جو پارلیمان میں ہونے والی کارروائی کے قانونی تحفظ کے بارے میں ہے۔