تازہ تر ین

”وزیراعظم کی تقریری پر انکے وکیل نے استثنیٰ مانگا بات کھل گئی کہ پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ کیس پر کئی سینئر قانونی ماہرین سے بات چیت کی لیکن سچ ہے کہ کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف ذہنی کشتی ہو رہی ہے۔ دونوں فریقوں کے وکلا ایک دوسرے کو صرف اول موضوع سے ہٹاتے نظر آتے ہیں۔ کافی عرصہ قبل کالا باغ ڈیم پر تنازعات دور کرنے کے حوالے سے الحمرا میں ایک اجلاس بلایا جس میں چاروں صوبوں کی قیادت کو شرکت کی دعوت دی۔ سارا دن بحث کے بعد شام کو سرحد سے آنے والے عبدالولی خان اٹھے اور بولے کہ بڑے بڑے دلائل دیئے گئے لیکن میں کسی دلیل کو نہیں مانتا صرف اپنے دل کی آواز مانتا ہوں ہم نے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دینا اور خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔ پانامہ مقدمہ میں بھی کچھ ایسے ہی حالات نظر آ رہے ہیں۔ جب کوئی طے ہی کر لے کہ ہم نے نہیں ماننا تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ مقدمے کا کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا صرف کارروائی برائے کارروائی جاری ہے۔ صرف ایک فیصد ہی امکان ہو سکتا ہے کہ عدالت فیصلہ کر دے۔ یہی ہو سکتا ہے کہ کمیشن بنا دیا جائے۔ جو ان امور پر تحقیقات کرے۔ یہاں رونق میلہ خوب لگا ہوا ہے۔ روزانہ بڑی دلچسپ باتیں سننے میں آتی ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ تقریباً ساری دنیا پھر چکاہوں اور دیکھا ہے کہ کہیں بھی سربراہ مملکت، وزیراعظم یا کسی بھی عہدیدار کو کوئی رعائت نہیں دی جاتی۔ وزیراعظم نوازشریف کے وکلا بھی سیدھا سیدھا جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ سیدھا سیدھا مقدمہ ہے، الزامات کا جواب عدالت کو دیں تا کہ بات کسی نہج تک پہنچ سکے۔ معروف قانون دان اور سنیٹر اعتزاز احسن نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ مقدمہ بڑا سادہ اور سیدھا ہے، اس میں کوئی ابہام کی گنجائش نہیں ہے۔ شریف فیملی نے تسلیم کیا ہے کہ لندن میں مہنگی جائیداد کے وہ مالک ہیں۔ اس اعتراف کے بعد سپریم کورٹ نے صرف یہ پوچھنا ہے کہ اپنے وسائل اور آمدن جو اس جائیداد کی خرید میں استعمال ہوئی کیا وہ جائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ٹیکس کتنا دیا گیا، 1978ءسے 2006ءتک جس طرح شریف فیملی کی دولت میں اضافہ ہوا اس کا سارا کھاتہ بتانا ہے صرف اتنی سی بات ہے۔ نوازشریف یہ بتا دیں تو وہ مقدمہ میں بڑی آسانی سے سرخرو ہو سکتے ہیں شریف فیملی کا موقف ہے کہ قطر بچوں کے ساتھ کاروبار کیا۔ اس کے کھاتے دکھا دیں۔ پاکستان دنیا میں کہیں بھی کاروبار کرے اسے پاکستان میں ٹیکس دینا ہوتا ہے اس لئے بتایا جائے کہ کتنا ٹیکس دیا۔ نوازشریف کے وکیل کے اب عدالت میں وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر پر استثنیٰ مانگا ہے۔ اس استثنیٰ کے مانگنے سے یہ تو ظاہر ہو گیا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی جس کا انہیں اب احساس ہو گیا ہے کہ جھوٹ بولنے پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی ہو سکتی ہے اس لئے اس سے بچنے کے لئے اب آرٹیکل 66 کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کئی فیصلے کر چکی ہے جس میں رینٹل پاور اور حج کرپشن کیسز بھی شامل تھے۔ حج کیس میں وفاقی وزیر حامد کاظمی کا جیل جانا پڑا۔ اگر لاڑکانہ اور پنجاب کے وزیراعظم کے درمیان امتیاز برتا جائے تو عدالت اس مقدمہ میں بہت کچھ کر سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوہں کہ موجودہ بنچ فیصلہ کرے گا کیونکہ اس میں بڑے زیرک جج صاحبان بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے بچے اگر لندن میں مہنگی ترین جائیداد بارے نہ بتا سکے کہ کس ذرائع آمدن سے حریدی گئی، منی ٹریل اور ٹیکس دستاویزات نہ دکھا سکے تو یاد رہے کہ حامد سعید کاظمی بھی وفاقی وزیر تھے جسے سنگین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم رپورٹ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر نہیں بلکہ جامع ترقی بارے رپورٹ ہے جس میں 79 ممالک کے سروے میں پاکستان 52 اور بھارت 60 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا عام مطلب یہ ہے کہ بھارت میں امیر لوگ زیادہ امیر ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان میں امیر لوگ اتنے زیادہ امیر نہیں ہو رہے پاکستان میں حقیقی صورتحال دیکھی جائے تو پھر ہمارا اس میں نمبر52 ویں کے بجائے پانچواں یا چھٹا ہونا چاہئے۔ سب سے اہم سروے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کا ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ عام آدمی نے کتنی ترقی کی ہے اس میں پاکستان 147 ویں نمبرپر ہے جو شرمناک ہے۔ ہم سے بہتر ترقی تو نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے کی ہے۔ ملکی برآمدات کم ہو رہی ہے، زراعت تباہ ہو چکی ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بچانے کیلئے 180 ارب کا ٹیکہ لگایا گیا لیکن کوئی اثر نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان میں زرعی پیداوار حاصل کرنے کا طریقہ کار دقیانوسی ہے۔ دنیا اس فیلڈ میں بہت آگے جا چکی ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث بچے ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain