لاہور (خصوصی رپورٹ)29 جنوری 1929ءکو ہندوستان کی مرکزی مجلس قانون کا اجلاس جاری تھا جب قائداعظم محمد علی جناح نے کھڑے ہو کر Child Bill Restraint marriage پر اپنی بحث کا آغاز کیا۔ یہ بل ہر بلاس شاردا نے 1927ءمیں پیش کیا تھا۔ مگر اس وقت ہندو مذہبی ارکان اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے اس بل پر بحث شروع نہ ہو سکی۔ یہ بل ہندوﺅں میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف پیش ہوا تھا۔ مگر جب لاہور کے میاں محمد شاہ نواز اور ممبئی کے محمد علی جناح جیسے ممبران اسمبلی نے اس قانون کو تمام افراد پر بلا امتیاز مذہب ، قومیت و ذات لاگو کرنے کی حمایت کر دی تو اس پر 1929ءمیں بحث شروع ہوئی۔ محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”جناب پہلا اور لازمی سوال جو خود اس اسمبلی کے رکن کی حیثیت میں خود سے کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا کم سنی کی شادی (چائلڈ میرج) کو اس ملک میں ایک برائی سمجھا جاتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ ایک مہلک ناسور ہے یا نہیں؟ کیا یہ انسانیت ہے کہ کم سنی میں ہزاروں ، لاکوں لڑکیوں کی شادی کر دی جائے کہ جس سے بحشیت عورت ان کا تشخص ہی تباہ ہو جائے؟ جناب والا: میں نہیں سمجھتا، اس مسئلہ کے حوالے سے جو بھی تنازعات پائے جاتے ہیں،مگر انسانیت کے حوالے سے اس اسمبلی میں بیٹھا ایک بھی رکن انسا نہیں جو ٹھنڈے دل سے جب اس مسئلہ پر بارے غور فکر کرے تو وہ ماتم نہیں کرے گا۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس غیر انسانی عمل کی بھر پور مذمت کرے گا۔ جو ہمارے معاشروں میں معمول بن چکا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟“کم سنی کی شادیوں کے حوالے سے اسمبلی میں ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی جس نے اس وقت کے ارکان اسمبلی کو چونکا کر رکھ دیا، اور پہلی بار لوگوں کو پتا چلا کہ ہندوستان میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ لڑکیوں کی شادیاں 15 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے کر دی جاتی ہیں۔ ان میں تقریباً 2 لاکھ ایسی بچیاں بھی ہوتی ہیں کہ جن کی عمریں ایک ، تین اور دس سال تھیں۔ایسا زیادہ تر جنوبی ہند کے علاقوں میں ہوتا تھا جبکہ بنگالی مسلمانوں میں کم عمری کا تناسب زیادہ تھا۔یہی کچھ صورتحال آج کے پاکستان میں بھی ہے۔ ہر سو میں سے تقریباً 40 شادیوں میں لڑکیوں کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر 20 منٹ بعد زچگی کے دوران ایک حاملہ خاتون موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ آخری مرتبہ پانچ سال قبل کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک تہائی سے زائد لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر ہی میں کر دی جاتی ہیں۔جب کہ 15 سے 19 سال کی عمر میں لڑکیاں ماں بن جاتی ہیں یا پھر وہ حاملہ ہوتی ہیں۔ طبی ماہریں کے مطابق”جب ایک نو عمر لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو وہ خطرناک زچگی سمجھی جاتی ہے۔ وہ (لڑکی) اور اس کا ہونے والا بچہ اپنی غزائی ضرورت پورا کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔جس کا سبب یہ بنتا ہے یا تو زچگی کے دوران یا اس سے پہلے کمزوری کی وجہ سے ماں کی موت ہوجاتی ہے اور بچہ بھی موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔“ جاگ نامی لڑکیوں سے متعلق ایک تنظیم کے بروجیکٹ منیجر عامر ریاض کا کہنا ہے کہ خصوصاً وہ علاقے میں جہاں بچیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی وہاں نوعمری کی شادیوں کا رجحان زیادہ ہے اور ان کے بقول نوعمری کی شادیوں کو روک کر غیر ضروری اموات سے بچا جا سکتا ہے۔“ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیوں کہ جب 14یا15 سال کی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے تو 35سال کی عمر میں پہنچنے تک بچوں کی پیدائش کی وجہ سے ان میں خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ “ کیونکہ پاکستان میںاب بھی 1929ءوالا قانون لاگو ہے جس میں بہت کم سزا مقرر ہے کہ جس میں بالغ لڑکی کی عمر 18 سال مقرر ہے جبکہ پاکستان میں مسلم فیملی لاءآرڈنینس کے تحت شادی کے لئے لڑکی کی کم سے کم عمر 16 سال مقرر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لئے ضروری ہے کہ اراکین پارلیمان قانون سازی کو موثر بنانے اور سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیمیں تعلیم و آگاہی میں اضافے کی مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔عامر ریاض کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بچوں کے حقوق کے اقوام متحدہ کے کنونشن پر 1990ء میں دستخط کئے تھے جس کے تحت بچپن کی شادی پر پابندی ہے لیکن پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں اب بھی کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج موجود ہے اور ایسا صرف ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ انٹرنیشنل سینٹر فارریسرچ آن وومن کے مطابق دنیا بھر میں پانچ کروڑ بچیوں کو دلہن بنا دیا جاتا ہے اور یہ تعداد آئندہ دہائی تک دس کروڑ سے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔ زچگی کے دوران ایسی ماﺅں کے مرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں 70 ہزار مائیں پہلی زچگی میں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چائلڈ میرج جس نے دنیا بھر کی لاکھوں بچیوں کی معصومیت کو چھین لیا اور انہیں غربت ، جہالت اور خراب صحت کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پرتا ہے۔ کم عمری کی شادیاں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایسی شادیوں میں ان لڑکیوں سے کبھی ان کی رضا مندی نہیں پوچھی جاتی ۔ اکثر اسے ایک بڑی عمر کے آدمی کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے ۔ زیادہ ترایسی شادیاں افریقا، مشرق و سطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ہو رہی ہیں۔عامر ریاض کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ملینیم ترقیاتی مقاصد جو کل 8 ہیں،میں سے 6 کا براہ راست تعلق چائلڈ میرج سے ہے۔ ان میں انتہائی غربت اور بھوک کے خاتمے ، عالمگیر پرائمری تعلیم کے حصول ، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے فروغ، بچوں کی شرح اموات میں کمی ، ماں اور بچے کی صحت میں بہتری، ایچ آئی وی ایڈز، ملیر یا اور دیگر بیماریوں کے خلاف جنگ شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے اثرات تباہ کن ہے۔ لڑکیوں کو ابتدائی تعلیم ے دوران ہی شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کئی خاندان بچیوں کو بیکار کا بوجھ تصور کرکے جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق کم عمری کی شادی کئی ایسے امراض کو بھی جنم دیتی ہے جن کے اثرات نہ صرف جسمانی ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی بھی ۔ ان میں سے ایک مرض بچے کی پیدائش سے متعلق ہے۔ یہ ایک عام مرض ہے مگر غربت زدہ عورتیں خصوصاً دیہی علاقوں میں رہنے والی ان پڑھ عورتیں اس کی علامات اور پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہو تیں۔چنانچہ 1929ء کے قانون میں تبدیلی کی بہت ضرورت ہے۔ اس قانون کے مطابق چونکہ سزا بہت کم ہے اور اس پر عملدرآمد بھی نہیں ہوتا۔ لہذا کم عمری کی شادیوں کا رجھان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اگر چہ اب حکومت سندھ نے جبری و کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لئے قانون سازی کی ہے۔ اس ضمن میں جو بل پیش کیا گیا تھا اسے ”جبری و کم عمری شادیوں سے تحفظ کا بل“ کا نام دیا گیا۔جس کے مطابق اب مسلم فیملی لاءآرڈینینس کے برعکس کہ جس میں شادی کے لئے لڑکی کی کم سے کم عمر 16 سال مقرر ہے کی بجائے اب سندھ میں لڑکے اور لؑڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہو گی۔ اس بل میںکی جانے والی قانون سازی کے تحت 18 سال سے جبری و کم عمری کی شادی کی خلاف ورزی پر قید اور جرمانہ کی سزائیں بھی مقرر کی۔ اس بل کی تیاری سے متعلق اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندوں ، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مفتی صاحبان، سیاسی ، مذہبی اور اتحادی جماعتوں کے رہنماﺅں ، ڈاکٹرز ، وکلا، خواتین تنظیموں ، این جی اووز سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی جبکہ شادی سے قبل دلہا اور دلہن کے ہیموفیلیا اور تھیلسیمیا کے ٹیسٹ لازمی کرانے ہونگے۔ اسی طرح تحفظ حقوق نسواں بل ایکٹ 2006ءمیں ترمیم کر کے 375 کا اضافہ کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ 16 سال سے کم لڑکی سے اس کی مرضی یا زبردستی شادی کرنے والے کے خلاف مذکورہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور جس کی سزا پانچ سال سے 25 برس قید تک ہے۔ مگر اب تک کسی بھی فرد کو اس حوالے سے کوئی سزائیں نہیں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں کم عمری کی شادیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کے بعض زیادہ ہو رہی ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کے بعض رسم و رواج بھی کم عمری کی شادیوں کا سبب ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف قانون بن جانے سے ہی کم عمری کی شادیان نہیں روکی جا سکتی جب تک خواتین ارکان اسمبلی، سول سوسائٹی اور پارلیمنٹ اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہ کرے۔ اسا غرض کے لئے اگاہی کی ایک بڑی مہم کی ضرورت ہے کہ جس میں تمام شہری مل کر اپنا کردار ادا کریں۔ قومی اسمبلی میں بھی 27 ستمبر کو ایک تاریخی بل منظور کیا گیا جس کے تحت پاکستان کی ہندوستان برادری کو شادی رجسٹر کرانے کا حق حاصل ہو گیا۔ واضع رہے کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان میں ہندوﺅں کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کا کوئی طریقہ کا روضع نہیں کیا جا سکا تھا۔ نئے بل ے مطابق ہندوﺅں کے لئے شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کی گئی ہے۔ دیگر مذاہب کے افراد کی شادی کے لئے مردوں کی عمر 18 برس جبکہ خواتین کیلئے عمر کی حد 16 سال مقرر ہے۔ اس قانون کے مطابق اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے چھ ماہ تک سزائے قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزادی جا سکے گی۔ یونیسیف کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 20 سے 24 برس کی عمر کی 21 فیصد خواتین کی پہلی شادی 18 برس یا اس سے بھی کم عمر میں کر دی گئی تھی۔ جبکہ تین فیصد کی 16 سال سے بھی کم عمر میں شادیاں ہوجاتی ہیں۔