لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کےساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ پاکستان میں حالات پرامن نہیں ہیں عالمی سطح کی کھیلیں یہاں پر نہیں کرائی جا سکتیں، کوئی ٹیم یا کھلاڑی پاکستان آ کر کھیلنے کو تیار نہیں ہے۔ اس تناظر میں پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو اس معاملہ پر اتنی تاخیر نہیں کرنا چاہیے تھی بلکہ پہلے دن ہی اعلان کر دینا اور اس پر قائم رہنا چاہیے تھا۔ فائنل کرانے میں اصل مسئلہ تو سکیورٹی کا تھا یہ فیصلہ پنجاب حکومت نے کرنا تھا اور وہ اس کی اہل بھی تھی۔ قوم کو خوامخواہ 3 دن تک تذبذب میں رکھا گیا۔ عمران خان کو اس کی مخالفت کرنے کے بجائے خود اس کےلئے کوشش کرنا چاہیے کیونکہ ان کے تو دنیا بھر میںکرکٹ کے بڑے اداروں کے سربراہوں سے ذاتی تعلقات رہے ہیں۔ کرکٹ کے معاملہ پر ہی سیاسی جماعتوں میں مکمل اعتماد نظر آتا تو بڑا اچھا تھا۔ اب بھی عمران خان کو سیاسی مخالفت بالائے طاق رکھ کر کرکٹ کے معاملہ پر سب میں اتفاق پیدا کرنا چاہیے کیونکہ یہ صرف کرکٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے سافٹ امیج کا ہے جسے ہمیں دنیا میں ثابت کرنا ہے۔ سینئر صحافی نے تاجر طبقہ میں پھیلائے جانے والے پٹھانوں بارے پمفلٹس بارے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پٹھان ہمارے بھائی، دوست اور ساتھی ہیں جن کی ملک کےلئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پمفلٹس کا معاملہ ایک سازش لگتا ہے۔ پنجابی اور پٹھان کے درمیان محبت اور رواداری کے بجائے نفرت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی حکومت ایسا اقدام نہیں اٹھا سکتی، اگر حکومت کو ایسا کرنے کی ضرورت ہوتی تو سرکاری سطح پر اعلان کیا جاتا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف ایک ذہین سیاسی رہنما اور انتظامی ماہر ہیں وہ یقیناً ان پمفلٹس کا نوٹس لینگے۔ رانا ثناءکا بھی فرض ہے کہ اس معاملے کو فوری دیکھیں۔ تاجر رہنماﺅں سے ملاقاتیں کریں اور اگر کوئی تاجر تنظیم اپنے طور پر ایسا کر رہی ہے تو اسے فوری روکیں۔ پاک فوج میں پنجابیوں کے بعد سب سے بڑی تعداد پٹھانوں کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت صوبہ سرحد میں کانگریس حکومت تھی جس کے تمام تر دباﺅ کے باوجود ریفرنڈم میں پٹھان بھائیوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ پٹھانوں کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ افغانستان سے ا گر دہشتگرد یہاں آ کر دہشتگردی کرتے اور واپس بھاگ جاتے ہیں تو اس کےلئے یہاں کے پٹھانوں کو تو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی سب پاکستانی ہیں اور ایک ہیں اور دہشتگردی کےخلاف متحد ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ لاہور میں پی ایس ایل فائنل کےلئے فوج، رینجرز، پولیس اور انتظامیہ پر بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے تاہم سب سے زیادہ ذمہ داری ہمارے باشعور اور بہادر شہریوں پر آتی ہے۔ شہری اگر طے کر لیں اور اپنے گردونواح پر کڑی نظر رکھیں تو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آ سکتا۔ عوام کی مکمل شمولیت کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سینئر تجزیہ کار نے فیصل آباد میں فائرنگ سے متعدد افراد کے زخمی ہونے والے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرناک رجحان پہلے صرف کراچی میں تھا۔ اب پنجاب میں بھی اس کے اثرات پھیلتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اسلحہ کی نمائش اور بدمعاشی کرنا انتہائی مذموم حرکت ہے۔ لیگی قیادت اس واقعہ کا سخت نوٹس لے اور ذمہ داروں کو سخت سزا دے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ عرفان اللہ مروت کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے دونوں فریقوں نے جلد بازی سے کام لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ سے وزیراعظم کےخلاف فیصلہ آ جاتا ہے یا فیصلہ کے ان کے عہدے پر اثرات ہوتے ہیں تو پھر قبل از وقت الیکشن ہو سکتے ہیں، اسی باعث ایک انتخابی فضا قائم ہو چکی ہے اور سیاسی رہنما ادھر ادھر بھاگتے نظر آ رہے ہیں۔ کراچی میں موجودہ صورتحال میں متحدہ تو 3 حصوں میں منقسم ہے جس کے با عث الیکشن میں پیپلز پارٹی شہر سے ماضی کی نسبت زیادہ نشستیں لے سکتی ہے۔ عرفان اللہ مروت بھی شاید اسی سوچ کے تحت کہ پی پی کا ٹکٹ کامیابی میں کردار ادا کر سکتا ہے آصف زرداری سے ملے ہونگے۔ عرفان اللہ کی اسی ملاقات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ارکان ناخوش تھے اور ان کو زبان محترمہ بختاور اور آصفہ نے دیدی۔ گھر سے ہی مخالفت شروع ہونے کے باعث آصف زرداری عرفان اللہ کو پارٹی میں شامل نہ کرسکے۔