تازہ تر ین

اے پی سی کانتیجہ کیا نکلا؟, فوجی عدالتوں کے معاملے بارے دیکھئے بڑی خبر

اسلام آباد( نامہ نگار خصوصی )پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینزنے فوجی عدالتوں کی بحالی کی مخالفت کر دی ہے اور اگر یہ عدالتیں قائم کرنی ہی پڑیں تو اس کے لئے نیا قانون بنائے گی تاکہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے، ملزمان کا منصفانہ ٹرائل یقینی بنایا جائے اور اسے سیاسی انتقام کے لئے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کثیرالجماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کی اور اسے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی صحافیوں سے زرداری ہاﺅس کے بارہ گفتگو یں دہرایا۔ اس ملٹی پارٹی کانفرنس میں 13سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور نمائندگان نے شرکت کی جن میں پی ایم ایل(ق) کے چوہدری شجاعت حسین، جے یوآئی(ف) کے مولانا فضل الرحمن، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیرپاﺅ، اے ای پی کے غلام احمد بلور، جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق، فاٹا کے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی، بی این پی عوامی کے اسرار اللہ زہری، نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو، عوامی مسلم لیگ کے شیر رشید احمد، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈاپور، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سید شجاعت بخاری اور مجلس وحدت المسلمین کے علامہ راجہ ناصر عباس شامل تھے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ پی پی پی کی ٹیم میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، سینیٹ کے سابق چیئرمین اور قانونی ماہر فاروق نائیک، سینیٹر شیری رحمن، پی پی پی کے سیکریٹر جنرل سید نیر حسین بخاری، سینیٹر سردار علی خان، سینیٹر قیوم سومرو، سابق صدر کی پولیٹیکل سیکریٹری رخسانہ بنگش اور پی پی پی پی کے سیکریٹر جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر شامل تھے۔ اس ملٹی پارٹی کانفرنس کا ایجنڈا فوجی عدالتوں کی بحالی، نیشنل ایکشن پلانت پر عملدرآمد، قبائلی علاقوں کے لئے اصلاحات اور پختونوں کی ملک کے مختلف علاقوں میں پروفائلنگز کے معاملات شامل تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کی زیر قیادت فوجی عدالتوں میں توسیع کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بے نتیجہ ختم ہوگئی ہے ، بیشتر جماعتوں نے فوجی عدالتوں کی بحالی کی مخالفت کر دی ہے،سابق صد ر آصف علی زرداری نے کہا ہے اگر یہ عدالتیں قائم کر نا ہی پڑیں تو اس کے لئے نیا قانون بنایا جائے تاکہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے، ملزمان کا منصفانہ ٹرائل یقینی بنایا جائے اور اسے سیاسی انتقام کے لئے استعمال نہ ہونے دیا جائے،جبکہ اتفاق رائے سے فوجی عدالتوں کے قیام کی صورت میں اس کےلئے قانونی مسودی فوری تیار کرنے کی ذمہ داری سینیٹر فاروق نائیک کو سونپ دی گئی ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام ہفتہ کو اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں 13سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور نمائندگان نے شرکت کی ، کل جماعتی کانفرنس کے ایجنڈا امیں فوجی عدالتوں کی بحالی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، قبائلی علاقوں کے لئے اصلاحات اور پختونوں کی ملک کے مختلف علاقوں میں پروفائلنگز کے معاملات شامل تھے ۔ کانفرنس کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری نے سیاسی پارٹیوں کے کہنے پر آصف علی زرداری نے فوجی عدالتوں کے قیام کی صورت میں اس کےلئے قانونی مسودہ فوری تیار کرنے کی ذمہ داری سینیٹر فاروق نائیک کو سونپ دی ہے ۔ انہوں نے سید خورشید احمد شاہ اور اعتزاز احسن سے کہا کہ وہ اس قانون مسودے کی تجاویز دیگر سیاسی پارٹیوں کو مہیا کریں۔ فاٹا ریفارم کے متعلق آصف علی زرداری نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات سب سے پہلے پیپلزپارٹی نے شروع کیں اور اصلاحات کے عمل کا راستہ ہموار کیا اور ایف سی آر کی اصلاحات کی بات کی کہ وہاں سیاسی پارٹیاں آزادانہ طور پر کام کر سکیں اور اس کے لئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ءکو فاٹا تک توسیع دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان اصلاحات پر عملدرآمد پانچ سال کی تاخیر حکومت کی غیرسنجیدگی ظاہر کرتی ہے اور قبائلی علاقوں کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ انہوں نے فاٹا اصلاحات پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ سابق صدر نے نیشنل ایکشن پلان کی مختلف شقوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی بھی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کا احتساب کیا جائے۔ کانفرنس کے بعد زرداری ہاﺅس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فوجی عدالتوں کے متعلق پیپلزپارٹی کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہ صرف دہشتگرد تنظیموں اور گروپوں کا سرسری ذکر ناکافی ہے اور فوجی عدالتوں کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے جو شرائط ہیں ان کو بھی بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 10-A کے منصفانہ ٹرائل یقینی بنانا شامل ہے اور ملزم کو اس کی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت دینا ضروری ہے۔ ملزم کو اپیل کرنے کا حق ہے اور فوجی عدالتوں میں مبصر کی منظوری ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ سکہ بند دہشتگرد کی تعریف کیا ہے اور جن 161افراد کو پھانسی دی گئی تھی ان میں کتنے سکہ بند دہشتگرد تھے۔ ان میں کتنے ملزموں کو مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت دی گئی، کتنے لوگوں نے الزام کو ماننے سے انکار کیا اور فیصلے اور شہادتوں کی نقل فراہم کی گئی یا نہیں؟ کتنے لوگوں کو بغیر ثبوت کے صرف اعترافی بیان پر پھانسی دی گئی اور اس بات کو کہاں تک یقینی بنایا گیا کہ اعترافی بیان تشدد کے ذریعے حاصل نہیں کئے گئے؟ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتیں کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے مسئلے سے ہٹانے کے لئے قائم کی جارہی ہیں اور یہ وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ فاٹا اصلاحات پر پارٹی کی پالیسی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاٹا میں صدر کا حکم اور ایف سی آر برطانوی نظام کا حصہ ہے اور ریفارم کے پیکیج میں اس کالونیل ڈھانچے میں ختم کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ ایف سی آر کے متبادل رواج ایکٹ کو ابھی تک سامنے نہیں لایاگیا اور پارٹی نے مطالبہ کیا کہ رواج ایکٹ کو پارلیمنٹ کے سامنے لیا جائے تاکہ پارلیمنٹ فاٹا میں قانون سازی کر سکے۔ رواج ایکٹ متعارف کرانے اور فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے سے صوبے میں تین قوانین بیک وقت لاگو ہوں گے۔ ایک اضلاع کے لئے، دوسرا پاٹا کے لئے اور رواج ایکٹ فاٹا کے لئے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں کے لئے متعدد قوانین کبھی بھی اچھا شگون نہیں ہوتے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی صحافیوں سے زرداری ہاﺅس کے با ہر گفتگو میں پارٹی موقف کو دہرایا۔اے پی سی میں شرکت کرنے والے رہنماﺅں میں پی ایم ایل(ق) کے چوہدری شجاعت حسین، جے یوآئی(ف) کے مولانا فضل الرحمن، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیرپاﺅ، اے ای پی کے غلام احمد بلور، جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق، فاٹا کے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی، بی این پی عوامی کے اسرار اللہ زہری، نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو، عوامی مسلم لیگ کے شیر رشید احمد، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈاپور، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سید شجاعت بخاری اور مجلس وحدت المسلمین کے علامہ راجہ ناصر عباس شامل تھے۔ جبکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ پی پی پی کی ٹیم میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، سینیٹ کے سابق چیئرمین اور قانونی ماہر فاروق نائیک، سینیٹر شیری رحمن، پی پی پی کے سیکریٹر جنرل سید نیر حسین بخاری، سینیٹر سردار علی خان، سینیٹر قیوم سومرو، سابق صدر کی پولیٹیکل سیکریٹری رخسانہ بنگش اور پی پی پی پی کے سیکریٹر جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر شامل تھے ۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain