اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) مالی سال 2013ءمیں آئی پی پی پیز کو ادا کئے جانے والے 480ارب روپے کے گردشی قرضے میں وزارت خزانہ کی طرف سے 44.32ارب روپے کی ادائیگیاں ایسے بجلی گھروں کو کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے جنہوں نے نہ پاور ہاﺅس چلایا اور نہ ہی ایک یونٹ بجلی پیدا کی جبکہ پیسے بھی انہیں بلوں‘ رسیدوں اور کسی ریکارڈ کے بغیر ادا کئے گئے۔ آڈیٹر جنرل اسدامین وزارت خزانہ سے بل کلیئر کرواتے کرواتے ریٹائر ہو گئے۔ دستاویزات کے مطابق وزارت خزانہ نے گیارہ نجی بجلی گھروں کو 44.32ارب روپے کی ادائیگی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حکم پر کی۔ ان نجی بجلی گھروں نے ایک یونٹ بجلی پیدا کی اور نہ ہی پلانٹ چلایا لیکن بل حکومت کو بھجوا دیا۔ وزارت پانی و بجلی کی طرف سے ان بلوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اور انہیں وزارت خزانہ کو ادائیگی کیلئے بھجوا دیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ نے بھی ان بلوں پر کوئی اعتراض نہیں لگایا بلکہ ان کمپنیوں کو ساڑھے بتیس ارب روپے کی خطیر رقم کی ادائیگیاں کر دیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے وزارت خزانہ سے کہا ہے کہ وہ اس طرح سے ان بلوں کو کلیئر نہیں کر سکتے۔ جن بجلی گھروں کو ادائیگیاں کی گئی ہیں ان میں وزیراعظم کے قریبی دوست اور ملک کے ایک معروف بینکار کا نجی بجلی گھر بھی شامل ہے۔ جن بجلی گھروں کو 2002ءکی پاور پالیسی کے تحت بغیر بلوں کی ادائیگیاں کی گئیں ان میں نشاط پاور لمیٹڈ‘ نشاط چونیاں‘ حبکو‘ لبرٹی پاور‘ سفائر الیکٹرک‘ اورینٹ پاور‘ سیف پاور لمیٹڈ‘ اٹلس پاور‘ ہالمور فاﺅنڈیشن‘ اٹک پاور جنریشن شامل ہیں۔ کچھ پاور ہاﺅسز کو 1994ءکی پاور پالیسی کے تحت ادائیگیاں کی گئیں جن میں ایچ سی پی سی ایل‘ فوجی‘ روش‘ کیپکو‘ آلٹرن‘ پاک چین‘ کے ای ایل‘ لال پیر شامل ہیں۔
بجلی گھر