لاہور(شوبز ڈیسک) پاکستان فلم انڈسٹری کے شہنشاہِ ظرافت اداکار منور ظریف کی 41وےں برسی کل ( ہفتہ )29اپرےل کو منائی جائے گی ۔منور ظریف 25دسمبر 1940ءکو لاہور کے علاقہ قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے ۔مزاح کا فن انہیں وراثت میں ملا تھا، انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز 1961ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ”ڈنڈیاں “سے کیا۔تاہم 1973ءمیں وہ پہلی بار اردو فلم ”پردے میں رہنے دو“ میں سائیڈ ہیرو کے روپ میں سامنے آئے اور اسی سال ایک اور فلم رنگیلا اور منور ظریف کی کامیابی نے انہیں سپر اسٹار بنا دیا۔مگر ان کے کیریئر کی لازوال فلم ”بنارسی ٹھگ “رہی جس میں منور ظریف نے مختلف گیٹ اپ کئے اور اپنے ورسٹائل اداکار ہونے کی مہر ثبت کردی۔منور ظریف جب اسکرین پر جلوہ گر ہوتے تو لوگ ان کی باتوں پر لوٹ پوٹ ہوتے دکھائی دیتے ۔ ان کی مزاحیہ اداکاری کا انداز منفرد اور نرالا تھا جس کے باعث انہوں نے مزاحیہ اداکاری میں اپنا نام کمایا جسے آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دورِ حاضر کے کامیڈین نقل کرتے نظر آتے ہیں۔بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام، بندے دا پتر اور اج دا مہینوال ان کی ایسی ہی لاتعداد فلموں میں سے چند کے نام ہیں۔، ان کی آخری فلم ”لہودے رشتے “تھی جو 1980ءمیں ریلیز ہوئی ۔جبکہ 1973،1971اور 1975میں انہیں ‘عشق دیوانہ، بہارو پھول برسا اور زینت’ میں بہترین مزاحیہ اداکاری پر نگار ایوارڈ دیئے گئے۔ان کے بعد کامیڈی فلموں کا ایک نیا دور شروع ہوا اور انہی کے قدم پر چل کر علی اعجاز، ننھا اور عمر شریف اور دےگر اداکاروںنے نے اسکرین پر کئی عرصے تک راج کیا۔رنگیلا اور منور ظریف کی فلمی جوڑی کو فلم کی کامیابی تصور کیا جاتا تھا۔منور ظریف ایک بہت باصلاحیت اداکار تھے۔ انہوں نے اپنی بے ساختہ اداکاری کی وجہ سے بہت جلد فلمی دنیا میں اپنا مقام بنالیااور اےک وقت مےں پنجابی اوراردو فلموں کی ضرورت بن گئے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے 15سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے 321 فلموں میں کام کیا۔منور ظریف 29اپریل 1976ءکو اپنے پرستاروں کو سوگ وار چھوڑ کر دنےا فانی سے رخصت ہوگئے مگر آج بھی وہ اپنے فن کے ذرےعے اپنے پرستاروںکے دلوں پر راج کرتے ہےں ۔