لیہ (خصوصی رپورٹ ) لیہ میں دو روز کے دوران 6بچے قتل کر دیئے گئے۔ چوک اعظم میں باپ نے اپنے پانچ بچوں کو قتل کر نے کے بعد خود بھی زہر پھانک کر جان دے دی۔ خودکشی کرنے والے قاتل باپ طارق نے ایک سال پہلے اپنی بیوی عاصمہ کو طلاق دے دی تھی۔ بھتیجے اس کے بچوں کو مارتے پیٹتے تھے جس کی وجہ سے گھر میں آئے روز جھگڑا رہتا تھا۔ مقامی ذرائع کے مطابق طارق نے تقریباً 14سال پہلے اپنی بہن کو بھی بدچلنی کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ملزم گزشتہ چند ماہ سے گھریلو جھگڑوں اور غربت کے سبب سخت ذہنی دباﺅ کا شکار تھا۔ دوسری جانب لیہ ہی کی تحصیل چوبارہ میں غلام احمد سفاک ملزم نے اپنی بہن سے شادی نہ کرنے کی رنجش پر غلام محمد نامی علاقہ مکین کا تین ماہ کا بیٹا زندہ دفن کر دیا۔ ضلع لیہ کی سب تحصیل چوک اعظم کے شمالی جانب تقریباً سات کلومیٹر کی مسافت پر چک نمبر 341ٹی ڈی اے واقع ہے۔ اس چک کے رہائشی بابا اسماعیل مرحوم کے دو بیٹے ارشد اور طارق ایک اور بیٹی سلمیٰ تھی۔ ارشد محکمہ تعلیم میں درجہ چہارم کا ملازم ہے اور سات بچوں کا والد ہے جبکہ طارق چھوٹی موٹی محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کا چولہا جلاتا تھا۔ طارق نے دو روز قبل اپنی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا گلا گھونٹنے کے بعد خود بھی زہر پھانک کر خودکشی کر لی۔ چوک اعظم سے مقامی ذرائع نے بتایا کہ طارق تقریباً 13‘ 14سال پہلے لاہور میں ایک سیاسی شخصیت کے گھر پر خانساماں تھا۔ اسی دوران اس کی بہن سلمیٰ نے بھی محکمہ صحت میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔ کچھ عرصے بعد طارق نے اپنی بہن پر بدچلنی کا الزام لگا کر اسے قتل کر دیا۔ اس مقدمے کی مدعی ان کی بوڑھی والدہ بنی۔ کچھ عرصے بعد والدہ نے بیٹے کو معاف کر دیا‘ جس کے بعد طارق اپنی بہن کے قتل کے مقدمے سے چھوٹ گیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی اس نے قریبی چک 344 ٹی ڈی اے میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں عاصمہ نامی خاتون سے شادی کی اور اسی موضع میں رہائش اختیار کرلی۔ اسے قدرت نے چار بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ کچھ عرصہ پہلے یہ فیملی اپنے آبائی گاﺅں واپس آئی اور اپنے آبائی گھر میں رہائش اختیار کی جہاں صرف دو کمرے تھے۔ ان میں سے ایک کمرے میں ارشد اور اس کے بیوی بچے رہتے تھے جبکہ دوسرا کمرہ طارق اور اس کے بچوں کے حصے میں آ گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق گزشتہ روز بچوں کے جنازے کے موقع پر طارق کی سابقہ بیوی عاصمہ بی بی نے بتایا کہ وہ جتنا عرصہ چک 344ٹی ڈی اے میں رہے ان کا گھرانہ بڑی خوش و خرم زندگی بسر کرتا رہا۔ اگرچہ اس وقت بھی طارق محنت مزدوری ہی کرتا تھا لیکن اس کے باوجود ان کے گھر میں کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا‘ لیکن جب وہ لوٹ کر چک 341ٹی ڈی اے آئے تو گھر کی فضا تناﺅ کا شکار رہنے لگی۔ طارق پہلے تو اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈانٹ دیتا اور پھر ہاتھ بھی اٹھانے لگا۔ اس فیملی کے قریبی ذرائع کے مطابق عاصمہ بی بی گھر کے ماحول کی اس خرابی کا ذمہ دار اپنی دیورانی‘ ارشد کی بیوی ارشاد بی بی کو قراردیتی تھی۔ ارشاد بی بی اکثر طارق کو اس کی بیوی عاصمہ کے کردار کے حوالے سے الٹی سیدھی پٹی پڑھاتی رہتی تھی‘ جس کے نتیجے میں وہ عاصمہ کو تشدد کا نشانہ بناتا۔ کئی بار طارق نے صرف اپنی بھابی کے کہنے پر عاصمہ پر بہیمانہ تشدد کیا۔ ایک بار تو اس قدر مارا کہ اس کا بازو ٹوٹ گیا‘ بالآخر اس نے ایک سال پہلے عاصمہ کو اس شرط پر طلاق دی کہ بچے باپ کے پاس رہیں گے۔ طلاق کے بعد عاصمہ کے بھائیوں نے اس کی شادی لاہور کر دی جبکہ بچے طارق کے پاس رہنے لگے۔ قریبی ذرائع کے مطابق طارق کے بھتیجے اکثر اس کے بیٹے کو مارتے پیٹتے جس کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا رہتا تھا‘ جبکہ عاصمہ کو طلاق ہونے کے بعد بھی ارشاد بی بی کا رویہ طارق اور اس کے بچوں کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ چند روز پہلے بھی ارشاد بی بی کے بیٹے نے اپنے چچازاد طیب کو تھپڑ مارے جس پر گھر میں کافی جھگڑا ہوا۔ اس ساری صورتحال کے باعث طارق شدید ذہنی دباﺅ کا شکار تھا۔ ذرائع کے مطابق طارق کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ کچھ دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ طارق ہر وقت غصے سے بھرا دکھائی دیتا ہے لیکن انہیں توقع نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑوں کا گلا گھونٹ دے گا۔ بدھ کی شام طارق کی ایک بیٹی کے کان میں تکلیف ہوئی تو وہ اسے سول ہسپتال چوک اعظم لے جانے کیلئے گھر سے نکلا۔ اس نے اپنی بھابی ارشاد بی بی کو ساتھ چلنے کو کہا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس بات پر بھی دونوں میں تکرار ہوئی اور طاق بکتا جھکتا بچی کو ساتھ لے کر گھر سے چلا گیا۔ اسی رات تقریباً اڑھائی بجے اس نے صحن میں سوئے ہوئے اپنے بچوں کو ایک ایک کر کے اٹھایا اور کمرے کے اندر جا کر ان کا گلا دبادیا۔ بعدازاں اس نے گندم میں رکھنے والی زہریلی گولیاں پھانک لیں‘ تھوڑی دیر بعد جب زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو وہ قے کرنے لگا۔ قے کی آواز سن کر ارشد اور اس کی بیوی بھی جاگ گئے اور انہیں پتہ چلا کہ گھر میں کیا قیامت ٹوٹ چکی ہے۔ وہ لوگ فوراً طارق کو لے کر سول ہسپتال بھاگے تو ڈاکٹر نے حالت تشویشناک بتاتے ہوئے ڈی ایچ کیو لیہ لے جانے کا مشورہ دیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق لیہ ہسپتال میں طارق نے اپنے نزاعی بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنے بچوں کو خود مارا ہے۔ اس میں کسی اور کا کوئی کردار نہیں ہے۔ حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسے نشتر ہسپتال ملتان ریفر کردیا گیا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اپنے ہی باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم بچوں میں 12سالہ طیبہ‘ 11سالہ طیب‘ 9سالہ تنزیلہ‘ 6سالہ صبا اور 5سالہ شانزہ شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس گھر میں غربت کا یہ عالم ہے کہ طارق اور اس کے بچوں کے کفن دفن کا انتظام بھی اسسٹنٹ کمشنر لیہ عابد کلیار اور علاقہ مکینوں نے باہم مل کر کیا۔ لیہ ہی کی تحصیل چوبارہ میں تین ماہ کے بچے کو قتل کرنے کا واقعہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب پیش آیا۔ چوبارہ کے نواحی چک 327ٹی ڈی اے کے غلام محمد کی شادی ڈیڑھ سال پہلے ثمینہ بی بی سے ہوئی تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق غلام محمد کا قریبی رشتہ دار غلام احمد خواہشمند تھا کہ غلام محمد اس کی بہن سے شادی کرے لیکن یہ رشتہ نہ ہو سکا۔ اس کی رنجش غلام محمد نے اپنے دل میں رکھی ہوئی تھی۔ گزشتہ شب غلام احمد نے کھیتوں میں تھریشر لگا رکھا تھا۔ رات تین بجے وہاں سے فارغ ہوا تو گھر جانے کی بجائے غلام محمد کے گھر آیا۔ اس وقت ثمینہ اور اس کے ساس‘ سسر صحن میں سوئے ہوئے تھے جبکہ غلام محمد اپنی ملازمت کے سلسلے میں ڈیری غاز خان میں تھا۔ ثمینہ کا تین ماہ کا بیٹا عبدالواسع بھی والدہ کے ساتھ ہی سو رہا تھا۔ غلام احمد نے دیوار پھاندی اور بچے کو کمبل سمیت اٹھا کر بھاگ نکلا۔ اسی اثنا میں ثمینہ کی بھی آنکھ کھل گئی اور اس نے بچہ غائب دیکھ کر شور مچا دیا۔ دوسری طرف غلام احمد بچہ لے کر سیدھا قریبی قبرستان گیا جہاں وہ پہلے سے ایک چھوٹی سی قبر کھود کر آیا تھا۔ اس نے جاتے ہی بچے کو اس گڑھے میں رکھا اور اوپر مٹی ڈال دی۔ ادھر لواحقین بچے کو تلاش کرتے رہے‘ لیکن کسی کا بھی دھیان قبرستان کی طرف نہ گیا۔ صبح تڑکے ہی کھوجی بلایا گیا جو تھوڑی دیر میں قبرستان پہنچ گیا جہاں تازہ مٹی کی چھوٹی سی قبر نے سارا راز کھول دیا۔ کچھ دیر بعد ہی کھوجی ملزم غلام احمد کے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔
