تازہ تر ین

”جے آئی ٹی کا کام تفتیش، بلاوجہ سنسنی نہ پھیلائیں“ نامورتجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان ”نوراکشتی“ ہے حقیقت میں یہ لڑائی نظر بھی نہیں آتی۔ لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ کی ڈیمانڈ ہے کہ ان کی تقریر میڈیا پردکھائی جائے۔ حکومتی بنچوں کا کہنا ہے کہ ہمیں سخت ترین اپوزیشن کا سامنا ہے جبکہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف دور میں اس وقت کے لیڈر آف اپوزیشن چودھری نثار علی خان کی تقریر بجٹ کے حوالے سے تین منٹ دکھائی گئی تھی۔ پرویز رشید نے 10 منٹ تک لیڈر آف اپوزیشن کی تقریر دکھائی تھی۔ ہمارے ملک کے عوامی مسائل یہ نہیں ہیں کہ خورشید شاہ کی تقریر اور ان کا چہرہ دکھایا جائے بلکہ ملک کے مسائل کچھ اور ہیں جن پر نہ حکومتی ارکان بات کرتے ہیں اورنہ ہی اپوزیشن۔ دونوں ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری میں مصروف ہیں جبکہ خورشید شاہ کے مطالبے کا مقصد صرف میڈیا میں زندہ رہنا ہے۔آصف علی زرداری لگتا ہے پھر مفاہمت کر کے باہر چلے گئے ہیں۔ وہ پہلے دبئی پھر لندن اور پھر امریکہ پہنچ گئے۔ ملک کے مسائل کیا ان کے باہر جانے کے بعد ختم ہو گئے۔ فردوس عاشق اعوان پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلی گئی ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پیپلزپارٹی کی تباہی کی وجہ ہی یہی ہے کہ وہ اپنے اصل موقف سے ہٹ جاتی ہے۔ اسی لئے میں نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پاس جانے والا کوئی بھی بل سینٹ سے اس وقت تک منظور نہیں ہو سکتا جب تک پیپلزپارٹی راضی نہ ہو کیونکہ سینٹ میں پیپلزپارٹی ارکان کی تعداد زیادہ ہے لیکن دیکھا جائے توگزشتہ 4 سالوں میں ایک بھی حکومتی بل سینٹ میں روکا نہیں گیا۔ پیپلزپارٹی والے عوامی مسائل کے لئے کیا لڑائی کر رہے ہیں کیا سندھ میں لوگوں کے مسائل حل ہو گئے ہیں؟ پنجاب میں صورتحال تمام صوبوں سے بہتر ہے۔ پی پی پی سے اپنا صوبہ تو سنبھالا نہیں جا رہا۔ پنجاب حکومت کی مخالفت، وفاقی حکومت کی مخالفت کرنا عوامی مسائل نہیں ہے۔ میں ایاز صادق سے درخواست کرتا ہوں کہ خورشید شاہ کی تقریر ایک کی بجائے دو دفعہ دکھا دیا کریں تا کہ روز روز کا یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ پنجاب بجٹ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا بجٹ ہے۔ بجٹ کے بارے میں عوام سے پوچھا جائے خاص طور پر گھریلو خواتین سے پوچھا جائے کہ بجٹ کے کیا اثرات انہیں دکھائی دیتے ہیں اس کے لئے علیحدہ سے انہیں مکمل پروگرام کرنا سود مند ہو سکتا ہے۔ تھوڑے وقت میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ حکومتی ارکان بجٹ کی تعریف کرتے جبکہ اپوزیشن والے اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں لیکن اصل سچائی ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ جو اصل اعداد و شمار دیکھ کر، ماہرین کی رائے لے کر نکالی جاتی ہے یہ ایک لمبا محنت طلب کام ہے۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کو پہلے سے متعین سوالات دے دیئے گئے ہیں۔ آج حسن نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ انہوں نے پہلے سے طے شدہ سوالوں کے تمام جوابات لینے ہیں۔ اب ان سے اگر 7 گھنٹے سوال جواب ہوں یا 60 گھنٹے جب تک سوالوں کے جواب پورے نہیں ہو جاتے جے آئی ٹی تفتیش کرتی رہے گی اور ان سوالوں کے جواب پر عدالت کیا ردعمل دیتی ہے یہ ان کا استحقاق ہے۔ ہمیں صبر و تحمل سے انتظار کرنا چاہئے۔ حسن اورحسین نواز کے والد پاکستان کے تیسری دفعہ منتخب وزیراعظم اور ان کے چچا دوسری مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں، بہت سے لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ وزیراعظم کے بیٹوں کوبھی عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔ ان کے لئے حیرت کی بات ہے یہاں توکسی اعلیٰ سرکاری افسر کا کوئی رشتہ دار قتل بھی کر دے تو مہینہ، مہینہ اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آتی۔ پیپلزپارٹی دور میں مجھے پوچھ گچھ کے لئے شاہی قلعہ لے جایا گیا دونوں ہاتھ باندھ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا اور کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی پھینکا جا تارہا ۔ میرے 3 دن اور 4 راتیں اسی تفتیش میں گزرے اور سونے بھی نہ دیا۔ اس کے بعد میں 7 ماہ جیل میں رہا۔اس معاملے پرمیں نہ کورٹ میں گیا اور نہ ہی اس پر کچھ لکھا۔ تفتیش دیکھنا ہے تو ہمارے تھانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ طارق شفیع سے پوچھ گچھ آٹھ گھنٹے تک جاری رہی اس پربہت شور مچا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ اس پر جج صاحب کو کہنا پڑا کہ ہم نے انہیں چائے پر تو نہیں بلایا تھا۔ پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم پاکستانی عوام کے مسائل کی بات کرتے ہیں۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بجٹ، دہشتگردی ان تمام مسائل پر ہم اسمبلی کے اندر بھی بات کرتے ہیں اور باہر بھی۔ ملک میں جب بھی آئینی بحران آیا۔ سب سے زیادہ ملبہ پیپلزپارٹی پر گرایا گیا۔ بجٹ تقریر کے بعد ہمیں اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ خورشید شاہ نے صرف یہ کہا کہ یہ بجٹ عوامی بجٹ نہیں ہے۔ ہم عوام کے سامنے اس کا پول کھولنا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں موقع دیا جائے۔ یہ عوامی مسئلہ ہے خورشید شاہ کی تصویر دکھانا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا کہنا تھا کہ ملکی آئین میں تمام شہریوں کو آزادانہ اظہاررائے کا حق دیا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں اگر کوئی مطالبہ کرتا ہے کہ میری تقریر دکھائی جائے تو اس کا مطلب ہے حکومت کا موقف جو مکمل طور پر نشر کیا گیا ہے اس کے مقابلے میں اپوزیشن کا نقطہ نظر بھی عوام کے سامنے جائے۔ یہ ایک آئینی حق ہے۔ اصولی موقف ہے، اگر حکومت اسے نہیں مانے گی تو احتجاج ہو گا۔لندن سے تجزیہ کار شمع جونیجو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں 24 سال پہلے ایک پیرس معاہدہ طے پایا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور گرمی پر قابو پانا تھا کیونکہ کول انرجی کی وجہ سے گلوبل درجہ حرارت میں ہر سال 3 ڈگری اضافہ ہو رہا ہے اس میں 195 ممالک شامل تھے۔ جس میں 11 نومبر2016ءکو پاکستان بھی شامل ہو گیا ۔ اسی وجہ سے ہم بھی پابند ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے بچاﺅ کے لئے اقدامات کریں۔ اوباما نے اس کے فنڈ میں ایک ملین ڈالر کی کمی کی لیکن ٹرمپ نے آتے ہی اس معاہدے سے انکار کر دیا کہ ہم اس کو نہیں مانتے ۔اس منصوبے کے تحت امریکہ نے دنیا کے غریب ممالک کو 3 ارب ڈالرز کی امداد دینا تھی تا کہ وہ اپنے ہاں فضائی آلودگی پر قابو پا سکیں لیکن ٹرمپ کے انکار کے بعد یہ منصوبہ رک گیا۔ جس پر چین، بھارت اور یورپی ممالک نے شدید احتجاج کیا۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ اگر امریکہ اس معاہدے سے روگردانی کرتا ہے تو پھر اس کی دیکھا دیکھی دیگر ممالک بھی اس سے علیحدہ ہو جائیں گے جو کہ دنیا کے لئے بہت خطرناک ہے کیونکہ فضائی آلودگی سے ”او،زون“ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain