لاہور (خصوصی رپورٹ) بلدیہ عظمیٰ لاہور نے وفاق اور صوبائی حکومت سے ہٹ کر لائسنس فیس کی مد میں ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے اپنی پالیسی بنالی اور اسے نافذ کرنے کے لئے پیش رفت بھی شروع کردی ہے۔ اس کا حتمی فیصلہ عوامی اعتراضات کے بعد کمیٹی کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ءکی شق 115 کے شیڈول 111 کے تحت مختلف نوعیت کا کاروبار کرنے والوں سے سالانہ لائسنس فیس کی مد میں ٹیکس وصول کرے گی جس کیلئے انہوں نے پیش رفت شروع کردی ہے۔ کمیٹی نے 100 سے زائد کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی اشیاءبنانے اور فروخت کرنے والوں کو ٹارگٹ کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے بچوں کیلئے گولیاں‘ ٹافیاں اور چاکلیٹ تیار کرنے والوں کو چھوٹ دی جبکہ بلدیہ عظمیٰ لاہور نے سالانہ لائسنس فیس 20 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ ہر قسم کا اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں پر سالانہ پچاس ہزار جبکہ فروخت کرنے والوں سے لائسنس فیس تین ہزار وصول کی جاتی تھی جس کو نہیں بڑھایا گیا۔ گھی اور آئل تیار کرنے والی فیکٹریوں کی لائسنس فیس پچاس فیصد بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ فلور ملز تیس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے رکھی گئی‘ جوس کارنر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آئس کریم فیکٹری بیس ہزار‘ چائنیز ریسٹورنٹ پانچ ہزار سے بڑھا کر دس ہزار‘ تھیٹرز ڈراموں پر بیس ہزار‘ سرکس لگانے پر پانچ ہزار‘ سوئمنگ پول پر 60 ہزار‘ اینٹیں تیار کرنے والے بھٹہ کی فیس بیس ہزار سے بڑھا کر پچاس ہزار رکھی جائے گی۔ لہنگا اور دیگر کپڑے فروخت کرنے والوں سے ایک ہزار کی بجائے پانچ ہزار‘ ٹیکسٹائل ملز سے ایک لاکھ روپے سالانہ لیا جائے گا۔