اسلام آباد (رپورٹنگ ٹیم) قومی اسمبلی میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سے لیگی رہنما کے الجھنے کے معاملے پر شدید ہنگامہ آرائی‘ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی‘ اپوزیشن کی جانب سے شیم شیم‘ مسلم لیگ (ن) کے گلو بٹ ”جبکہ حکومتی ارکان کی جانب سے” بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں‘ ڈاکٹر عاصم‘ ایان علی‘ را کے ساتھی عزیر بلوچ پر جے آئی ٹی بنانے اور ڈاکو‘ ڈاکو” کے نعرے لگائے گئے‘سپیکر ایاز صادق نے ماحول میں تلخی پر ایوان کی کارروائی15منٹ کے لئے ملتوی کرنا پڑی ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت ریاستی طاقت کے ذریعے پارلیمنٹیرین کو بے عزت کروارہی ہے حکومت نے ایک ڈکٹیٹر کا روپ اختیار کرلیا ہے، ہم نے جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں۔ ڈکٹیٹر شپ کیلئے نہیں،نور محمد اعوان کی لیگی قیادت کیساتھ تصاویر ہیں ، پارلیمنٹ میں واقعہ ہونے کے بعد جلدی میں ڈپٹی سپیکر کے دستخط سے اس شخص کو پاس جاری کیا گیا۔ شیخ رشید کو بے عزت کرنے کے لئے ڈرامہ رچایا گیا،حکومت ریاستی طاقت کے بل بوتے پر پارلیمنٹیرین کو بے عزت کروا رہی ہے۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ اگر ملک نور محمد اعوان کو واقعہ کے بعد پارلیمنٹ میں داخلے کاپاس جاری ہونے کا الزام ثابت ہوئے تو میں ایوان سے استعفیٰ دے دوں گا ۔ وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کےلئے نہیں کرپشن کی وجہ سے جیلیں کاٹیں، پیپلز رٹی کی قیادت کیساتھ عزیر بلوچ کی بھی تصاویر ہیں، ایان علی کے کس کیساتھ تعلقات ہیں؟عزیر بلوچ کا تعلق ”را” کے ساتھ تھا یہ سب را کے ایجنٹ ہیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اپنے مقررہ وقت سے44منٹ تاخیر سے سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان میں جتنے مسائل ہیں ان کے حل کے لئے ہم حلف لیکر آتے ہیں کہ ان کو حل کریں گے اور اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو اہمیمت دیں گے۔ ریاست کو چلانے کے لئے آئین نے طریقہ کار دیا ہے حکومت پارلیمنٹ کے آگے جواب دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے وہ آمریت کے فیصلوں کی وجہ سے ہے آمریت نے ملک کو دو لخت کیا ہم خوش فہمی میں تھے کہ ہم نے جمہوریت کو طاقتور بنایا ہے اور پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کئے ہیں اور ہم آئندہ بھی حکومت کو جمہوری بنائیں گے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے چار سال پورے ہوگئے ان چار سالوں میں بڑے اتار چڑھاﺅ آئے ہم نے حکومت کے مشکل حالات میں ساتھ اس لئے دیا کہ ملک میں جمہوریت قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر پورے ہاﺅس کا کسٹوڈین ہے ہے اسے قصائی نہیں بننا چاہئے، گزشتہ روز شیخ رشید کے ساتھ جو واقعہ ہوا اس شخص کو21سال بعد قرضہ لینا یاد آیا وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر۔ میں نے ایوان میں مطالبہ کیا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ وہ شخص کس کے ریفرنس سے آیا مگر اطلاعات یہ ہیں کہ پارلیمنٹ میں واقعہ ہونے کے بعد جلدی میں اس شخص کو پاس جاری کیا گیا وہ بھی ڈپٹی سپیکر کے دستخط سے۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ تصاویر ہیں۔ اس موقع پر ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے ” شیم شیم ” مسلم لیگ (ن) کے گلو بٹ” کے نعرے لگائے گئے۔ اپوزیشن لیڈر نے ملک نور محمد اعوان کی مسلم لیگ (ن)کی قیادت کیساتھ تصاویرسپیکر ایاز صادق کے حوالے کیں اور ان تصاویر کوریکارڈ کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر حکومتی ارکان کی جانب سے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا کہ اس شخص کی پیپلز پارٹی کے لوگوں کے ساتھ تصاویر ہیں، عزیر بلوچ کی تصاویر کس کے ساتھ ہیں ؟ایان علی کی کے کس کیساتھ تعلقات ہیں؟ اویس ٹپی کس کا ساتھی ہے؟ عزیر بلوچ کا تعلق را کے ساتھ تھا یہ سب را کے ایجنٹ ہیں۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ کچھ لوگوں کی تصاویر جنرل ضیا الحق کے ساتھ بھی دیکھی گئی تھیں۔ عابد شیر علی کے ساتھ پرویز مشرف دور میں جب زیادتی ہوئی تو ہم اس ایوان میں ان کے حق کے لئے کھڑے ہوئے ،جواب میںعابد شیر علی نے کہا کہ آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں بے نظیر کی حکومت بھی آپ نے کلاشنکوف کیس میں ہمیں اندر کیا آپ کے منہ سے جمہوریت کی بات اچھی نہیں لگتیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت ریاست طاقت کے بل بوتے پر پارلیمنٹیرین کو بے عزت کرواتی ہے، اسپیکر بتائیں کہ کیا جمشید دستی کی گرفتاری کی اجازت لی گئی، مجھے پتہ ہے آپ کتنے پہلوان ہیں مجھے طاقت نہ دکھائیں،میں ان کی طاقت اور بڑھکوں کو جانتا ہوں، نواز شریف نے قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا، نواز شریف نے مجھے لندن میں خود بتایا تھا کہ برمنگھم میں میرا جلسہ تھا تو نعرے لگ رہے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر نواز شریف نے کہا کہ بکواس نہ کرو میرے ساتھ کوئی نہیں ہے،جس پر ایک بار پھر عابد شیر علی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ سپیکر صاحب نواز شریف نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا ایوان کی کارروائی سے بکواس کا لفظ حذف کیا جائے۔اس موقع پر خورشید شاہ نے کہا کہ جمہوریت کے لئے ہم نے جیلیں کاٹی ہیں جس پر عابد شیر علی نے کہا کہ آپ نے جمہوریت کے لئے نہیں کرپشن کی وجہ سے جیلیں کاٹیں۔ایوان میں ہنگامہ پربا ہونے پر اسپیکر نے وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مجھے سارجنٹ کو بلانا پڑے گا جس پر شیخ آفتاب نے حکومتی ارکان کو بٹھانے کی کوشش کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے عابد شیر علی کے دھمکی آمیز انداز گفتگو پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ماحول میں تلخی پر ایوان کی کارروائی 15 منٹ کے لئے ملتوی کر کے اپوزیشن لیڈر اور وفاقی وزرا کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔ بعد ازاں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزشین لیڈر سید خوشید شاہ نے کہا کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر حکومتی ارکان کی جانب سے خاتون اور دیگر لوگوں کے نعرے لگائے گئے میں نے ان سب کی انگلیاں پکڑ کر ان کے کام کروائے ہیں۔ ابھی انہوں نے جو کچھ بولا ہے اس کے باوجود میں نے ان کی عزت کی اگر ان میں تھوڑی سی بھی شرم ہوگی تو انہیں احساس ضرور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں آج اپنے لئے بات نہیں کررہا میں نے اس ہاﺅس کی بات کی ہے اگر کسی رکن کے خلاف کوئی کیس ہے تو اور بھی ادارے ہیں جن میں انکو جانا چاہئے یہ نہیں کہ پارلیمنٹ ہاﺅس میں منتخب رکن کو بے عزت کیا جائے صرف شیخ رشید کو بے عزت کرنے کے لئے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کوڈپٹی سپیکر کے دستخط سے کارڈ جاری ہوا مجھے امید ہے کہ ڈپٹی سپیکر روزے میں جھوٹ نہیں بولیں گے میں نے جو تصاویر دی ہیں کسی حکومتی شخص کو ملائم کرنے کے لئے نہیں دیں صرف یہ ثابت کرنے کے لئے دی ہیں کہ اس شخص کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تعلق ہے۔ میں اپوزیشن لیڈر ہوں میری ذمہ داری ہے کہ اپوزیشن ارکان کے حقوق کی حفاظت کروں جس ایوان میں اپوزیشن لیڈر بات نہیں کرسکتا اس ایوان کا تقدس کیا ہوگا شاہ سے زیادہ شاہ کا و فادار نہ بنا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سعودی عرب اور قطر میں سے کسی ایک کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ ہمیں مسلم امہ کے اتحاد کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں مگر ہمارا دفتر خارجہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کو کشمیریوں کے قاتل مودی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملانا چاہئے تھا۔ بھارت پاکستان توڑنے کے لئے کبھی بلوچستان میں مداخلت کرتا ہے اور کبھی دنیا میں جا کر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم ان سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس معاملے پر متحد ہونا چاہئے اور دنیا کو پیغام دینا چاہئے کہ ملکی سلامتی کے لئے ہم متحد ہیں مگر حکومت طاقت کے بل بوتے پر کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ جمشید دستی گزشتہ رات گرفتار ہوئے ہمارے رولز کے مطابق پولیس کو رکن کی گرفتاری سے قبل آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ آپ پروڈکشن آرڈر جاری کردیں جس پر سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ جمشید دستی مجھے درخواست دیں تو میں پروڈکشن آرڈرجاری کروں گا۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ مجھ پر الزام لگایا گیا کہ واقعے کے بعد یہ پاس جاری ہوا ہے میں حلفاً کہتا ہوں کہ اگر واقعے کے بعد یہ پاس جاری ہوا ہو اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو میں استعفیٰ دے دوں گا،میں نے پوار ایوان کا ڈپٹی سپیکر ہوں میرے لئے تمام ارکان برابر ہیں۔ مذکورہ شخص کو پاس میرے دفتر سے جاری ہوا،نور محمو اعوان کو میرے ایک دوست کے کہنے پر پاس جاری کیا گیا۔ وزیر مملکت بلیغ الرحمان نے کہا کہ ملک محمد نور اعوان کیخلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں ایف آئی آر درج ہوئی، اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ تصاویر ہونے کے باوجود اس شخص کو رات جیل میں کاٹنی پڑی آج صبح ہی مذکورہ شخص کو پولیس تحویل میں عدالت میں پیش کیا گیا کوئی بھی قانون سے بالا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں جے آئی ٹی کی بات کی گئی۔ حسن اور حسین نواز پاکستان میں نہیں رہتے اس کے باوجود وہ جے آئی ٹی میں پیش ہو رہے ہیں،حکومت جے آئی ٹی پر اثر انداز نہیں ہو رہی۔