کوئٹہ (ویب ڈیسک ) پرانے وقتوں بارش اور دریاو¿ں میں پانی کی خاطر لوگ عورتوں،بچوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔لگتا ہے زمانہ بدلا نہیں۔بلوچستان میں تھوڑے سے فرق کیساتھ خون بہانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بلوچستان بھاگ ناری میں بارش کا پانی جیسے ہی پہنچتا ہے ،اس کے استقبال کے لیے بکریاں قربان کی جاتی ہیں۔ بارش ہونے کے لئے بھی بکریوں کی قربانیوں سے دریخ نہیں کیا جاتا اور ڈھول کی تھاپ پر پانی آنے کی خوشی میں رقص بھی کیا جاتا ہے۔پانی ایک بہت بڑی نعمت ہیں مگر بلوچستان میں صاف پانی کا ملنا انتہائی نایاب ہیں۔لوگ جوہڑ اور تالابوں کے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ آج بھی لاکھوں لوگ نہری پانی کو پینے پر مجبور ہیں جس میں پٹ فیڈر کینال اور کیر تھر کینال شامل ہیں مگر حیرت کی انتہا یہ ہیں کہ ان دونوں نہروں میں سندھ کے کئی علاقوں کے فضلے کا پانی گرتا ہے جن میں سکھر اور شکارپور کے کئی علاقے بہت مشہور ہے۔ افسوس تو یہ ہے نہکبھی سندھ حکومت نہ ہی بلوچستان حکومت نے اس گندے پانی کا کوئی علاج ڈھونڈا ہے۔ جن اضلاع کے لوگ فضلے کا پانی پئ ں گے ان اضلاع میں بھلا کیسے بیماریاں نہیں پھیلیں گی۔ آج بھی بلوچستان میں 90فیصد لوگ نہری نظام کا پانی پیتے ہیں۔ 90فیصد لوگ اس پانی کی وجہ سے مختلف بیماروں کا شکار ہوتے ہیں۔بلوچستان نے سندھ کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود زرعی پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا ہے۔
ہر سال بلوچستان میں سالانہ 80 فیصد تک بارش میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کم بارشوں سے لوگ اور مال مویشیوں کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔جانور لاغر ہو جاتے ہیں۔جبکہ نہری پانی کل بلوچستان کے حصے دس ہزار تین سو کیوسک ہے۔یہ پانی سندھ کے دو بیراجوں سے آتے ہیں جن میں گڈو بیراج سے 6700 کیوسک جبکہ سکھر بیراج سے 2400 کیوسک۔ اس کے علاوہ دو چھوٹی نہریں ہیں جن سے 1200 کیوسک پانی بلوچستان کو ملتا ہے لیکن آج کل اس پانی پہ بھی سندھ حکومت نے قبضہ جما رکھا ہے اور بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کی حدود میں چرا لیاجاتا ہے۔